ناخدا کی تمنا نہ ناصح کا انتظار



کینیڈا میں مقیم دوست اور جانے مانے ریڈیو براڈ کاسٹر، رانا عمیر کا پیغام ملا کہ وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر یوم پاکستان کے حوالے سے ”کینیڈین پاکستانی نیریٹو“ نامی ایک ٹاک شو کا اہتمام کر رہے ہیں اور مجھے بھی حکم تھا کہ وہاں شو سے ذرا پہلے پہنچ کر ان کی ٹیم سے ملاقات کر لوں۔ اب ساری عمر اسی دشت کی سیاحت میں گزری تھی تو ایک لمبی شفٹ کی تھکاوٹ کے باوجود ان کا سیٹ اپ دیکھنے وہاں جا پہنچے۔

ایک دوست جس کا ریستوران تھا اسی کی نچلی منزل پر ایک کونے کو سٹوڈیو کا درجہ دیا گیا تھا اور کینیڈا میں مقیم با اثر پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس ٹرانسمشن میں ویڈیو لنک کے ذریعے شامل ہونے جا رہی تھی جن میں سیاست دان، صحافی، کاروباری اور سماجی شخصیات شامل تھیں۔ عمیر کے ساتھ شو کے دیگر میزبانوں جن میں اطہر، شیزان اور نادیہ شامل تھے ، ان سے بھی ہلکی پھلکی گپ شپ رہی اور دیکھ کر خوشی بھی ہوئی کہ وطن سے دور ہو کر بھی ان جوانوں نے اپنی مٹی سے محبت کو زندہ اور قائم رکھا ہوا ہے اور ہماری طرح صرف غم روزگار میں ہی نہیں گھلے جا رہے بلکہ ایک بے لوث جذبے اور اپنی مدد آپ کے تحت ان سب نے ایسی اچھی محفل اور حساس موضوعات پر بات کرنے کی کوشش کی۔

خیر ہم اپنی مختصر ملاقات کے بعد چلے آئے مگر اسے موضوع بنانے کا خیال برادر بدر منیر کی فیس بک پر شیئر کی گئی ایک کلپ سے آیا جہاں انہوں نے پاکستانی برادری کے مسائل کو ایک جملے میں سمویا کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے نہیں۔ بدر صاحب یہ ہماری خامی نہیں بلکہ یہ ہمارا قومی مشغلہ اور علامتی و امتیازی اعزاز ہے۔ اور ویسے بھی غلطی سے سیکھیں تو تب جب ہم غلطی مانیں۔ یہ آدھا ملک گنوانے سے لے کر دہشت گردی کی لہروں تک، انصاف کی پامالی سے لے کر پارلیمان کی بے توقیری تک ہمارے ہاں جو بھی ہو رہا ہے وہ غلطیاں نہیں صرف واقعات ہیں جو سرزد ہو رہے ہیں۔

ہاں اگر کوئی غلط ہے تو وہ دوسرا۔ اور ہر کسی کے پاس الزام دینے کو دوسرا موجود ہے۔ جو حکومت میں آئے اس کے لیے پچھلا غلط جو نکالا جائے اس کے لیے موجودہ غلط۔ ہمیں نہ تو ناصح کا انتظار ہے نہ ہی ناخدا کی تمنا ، ہمیں تو بس ایک ڈفلی والا درکار ہے جو ڈفلی بجائے اور تماشا دکھائے۔ ہم مہنگائی کی چکی میں پستے، بیماریوں سے لڑتے، اور سرراہ مرتے ہیں ، ایسے میں زندگی کی واحد انٹرٹینمنٹ تماشا ہی تو ہے۔ تو ہماری نسل جو یہاں آن بسی ہے وہ بھی تو ہماری قومی سوچ ہی کی عکاس ہے۔

آپ کوشش کر دیکھیں آواز بننے کی ایک حد تک برداشت کے بعد آپ پر ہی حد عائد کر دی جائے گی۔ یہ قرارداد پاکستان کے روز پاکستانی کینیڈینز کے بیانیہ پر پروگرام کرنے والے نوجوان یہاں کسی مبینہ صحافی یا خود ساختہ لیڈر کو بلانا بھول جائیں تو اگلے روز خود ان کے خلاف ایک قرارداد پیش کر دی جائے۔ جو شاید ان کے شو سے زیادہ شہرت پا جائیں کہ ہمیں تماشا تو ہی عزیز ہے۔ ہم ساری عمر نظام کو الزام دیتے آئے ہیں۔ یہاں پردیس میں نظام موجود ہے تو ذرا صفیں سیدھی کر دکھائے کوئی۔ شاید میرا علم ناقص ہو مگر یہاں موجود پاکستانیوں میں زیادہ شہرت زدہ چند یوٹیوبرز کو ہی پایا جن کا کانٹینٹ بھی ڈفلی بجانے تک ہی محدود ہے۔ باقی جن پر اللہ کا کرم ہوا ، انہوں نے خود کو کمیونٹی سے دور ہی رکھا یا کاروباری سلسلوں کی ملاقاتوں تک محدود۔

مجھے یقین ہے کہ یہاں بھی کثرت سے ایسے پاکستانی مل جائیں گے جو کسی ذاتی فائدے یا خودنمائی سے بالاتر ہو کر یہاں بسنے والے پاکستانیوں کا سہارا بن سکتے ہیں۔ کوئی ایسا ادارہ قائم ہو سکتا ہے جو یہاں پہنچنے والے ہم وطنوں کی ملازمت یا کاروبار کے مواقعوں کے حوالے سے رہنمائی کر سکے۔ کسی مشکل مصیبت میں پھنسے پاکستانی کی مدد کر سکے۔ یا کم از کم حکومتی یا فلاحی اداروں کے موجود پروگرامز تک ان کی رسائی کروا سکے۔

آپ کا کینیڈا ون ٹی وی، ارشد بھٹی صاحب کا ٹورنٹو 360 ٹی وی اور دیگر چینلز نئے آنے اے پاکستانی امیگرنٹس کے مسائل، سٹوڈنٹ ویزہ، جاب سرچ پروگرامز، نئے آنے والے کمیونٹی سینٹر کے حصول اور ان جیسے دیگر موضوعات پر علیحدہ سے ٹاک شوز شروع کر سکتے ہیں۔ ہم ایسے بہت سے نوواردوں کو ایسے کئی موجود مواقعوں کی بہت دیر سے خبر ہوتی ہے جن کے بارے یہاں آتے ہی آگاہی مل جائے تو شاید ہم بہتر طور پر اپنی نئی زندگی شروع کر پائیں۔

ناامید نہ آپ ہیں نہ عمیر اور پاکستانی کینیڈین نیریٹو والے، نہ ہم۔ خیر ہمیں تو ابھی چند روز ہوئے یہاں پہنچے اور سوائے فکر معاش یا وقتاً فوقتاً چند الفاظ گھسیٹنے کے کسی قابل نہیں مگر دعا ہے کہ آپ سب ایک دوسرے کا دست و بازو بنیں اور مسائل پر صرف باتیں نہ ہوں بلکہ ان کے حل کے لیے عملی اقدام کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments