بگڑے ہوئے گھرکی درستی


پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی حالیہ پیش رفت نے جنگجوؤں اور امن پسندوں، دونوں حیران کردیا ہے۔ 2016 ء میں بھارت نے لائن آف کنٹرول کے اس طرف، پاکستانی علاقے میں مبینہ دھشت گردوں کے ٹھکانوں پر ”سرجیکل سٹرائیک“ کا دعویٰ کیاتھا۔ اس کے بعد سے بھارت نے لائن آف کنٹرول کو بہت جارحانہ انداز میں گرم رکھا۔2019 ء کے اوائل میں اُنہوں نے بالاکوٹ میں دھشت گردوں کے ایک مبینہ کیمپ پر فضائی حملہ کرتے ہوئے حالات کی سنگینی کوبڑھا دیا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے جب پاکستان نے دوبھارتی طیارے مار گرائے اور ایک پائلٹ کو حراست میں لے لیا تو طرفین نے مزید جارحانہ اقدامات سے قدم پیچھے ہٹا لیا۔

تاہم بھارت نے ایک اور جارحانہ قدم اُٹھاتے ہوئے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا۔جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور اس پر عملاً قبضہ کرلیا۔ اس پر عمران خان نے نریندر مودی کوذاتی طور پر بے پناہ تنقیدی حملوں کا نشانہ بنایا۔ اُنہیں نسل پرست سے لے کر فسطائی تک، بہت کچھ کہہ ڈالا۔ دوسری طرف بی جے پی کی راہ نماؤں نے حملہ کرکے آزاد جموں کشمیر کو ”آزاد“ کرانے کی دھمکی دی۔ پاکستان مخالف بلوچ علیحدگی پسندوں اور تحریک طالبان پاکستان کے دھشت گردوں کو بلوچستان اور فاٹا میں بم دھماکے کرنے کے لیے مسلح کرنے، تربیت دینے اور فنڈز فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔طرفین نے اپنے اپنے ہائی کمشنروں کو واپس بلا لیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور عوام کے باہمی روابط ختم ہوگئے۔

لیکن جس دوران تجزیہ کار دونوں ممالک کے درمیان کسی ممکنہ جنگ کا خطرہ محسوس کررہے تھے، اچانک گزشتہ ماہ اعلان ہوا کہ دونوں طرف کی فوجی قیادت نے لائن آف کنٹرول پرفائربندی کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے 2003 کے معاہدے کو بحال کردیا ہے۔ اس کے بعد مزید حیران کن پیش رفت بھی دیکھنے میں آئی۔ ایسا کیوں اور کس طرح ہوا ہے؟ وہ کون سا خفیہ بیک چینل رابطہ تھا جس کی وجہ سے تناؤ میں کمی آئی؟ کس ملک کو اس سے زیادہ فائدہ ہوا؟کیا یہ پیش رفت صرف یہیں تک محدود رہے گی؟ یہ سوالات اپنی جگہ موجود ہیں۔ اس دوران شاید ہی کسی نے توجہ دی ہو کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر، معید یوسف نے گزشتہ سال اکتوبر میں بھارتی صحافی کیران تھاپر سے بات کرتے ہوئے سرسری طور پر کہا تھا کہ پاکستان کو بھارت کی طرف سے بات چیت شروع کرنے کی خواہش کے ”پیغامات“ ملے ہیں۔ بھارت کے دفتر خارجہ نے ایسے کسی قسم کے پیغامات کی فوری تردید کی تھی۔

لیکن کچھ نہ کچھ پیش رفت ضرورہورہی تھی۔ گزشتہ ماہ تین فروری کو پاکستان ائیرفورس اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے علاقائی امن کے موضوع کو چھیڑا۔ اُن کا کہناتھا، ”وقت آگیا ہے جب ہر طرف امن کا ہاتھ بڑھایا جائے۔ پاکستان اور انڈیا کے لیے ضروری ہے کہ جموں اور کشمیر کے دیرینہ مسلے کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق باوقار اور پرامن طریقے سے حل کریں۔“اس پیش کش پر بھارت نے حسب معمول روایتی انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کسی بھی بات چیت شروع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان ”سرحدپار دھشت گردی“ بند کرے۔ باایں ہمہ، چوبیس مارچ جنرل باجوہ نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ”ہم محسوس کرتے ہیں کہ ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے۔“ پھر اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ بامعانی مذاکرات شروع کرنے کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ جنرل صاحب کا کہنا تھا، ”ہمارے ہمسائے کو، خاص طور پر کشمیر میں سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا…ہم اپنے ہمسائے کے ساتھ تمام دیرینہ مسائل کو مذاکرات اور باوقار طریقے سے حل کرنے کے لیے ماحول بہتر بنانے کے لیے تیار ہیں۔“اس کے ایک دن بعد بھارت نے بھی خیر سگالی کااظہار نریندر مودی کے خط کے ذریعے کیا۔ اُنہوں نے پاکستان کے قومی دن کے موقع پر عمران خان کے نام نیک خواہشات کا پیغام بھیجا۔

اچانک دونوں طرف کا میڈیا ”پاک بھارت موسم بہار“ کی توقع سے مہک اُٹھا۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی تاجکستان کے دارالحکومت، دوشنبہ میں ہونے والی ملاقات پر نظریں مرکوز ہیں۔ اس ملاقات میں تجارت، کھیل کود، عوامی رابطوں کی بحالی کے علاوہ ہائی کمشنروں کی واپسی اور اسلام آباد میں سارک کانفرنس کے انعقاد جیسے معاملات پر بھی بات چیت متوقع ہے۔ اس دوران یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلانے کے لیے پس پردہ سفارت کاری کی سہولت فراہم کرنے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ تجزیہ کاردلائل دیتے ہوئے وضاحت کررہے ہیں کہ اب دونوں ممالک کے لیے قیام امن پر بات چیت کرنا لازمی ہوچکا ہے۔

نریندر مودی کو خاص طور پر ملک میں اور بیرونی دنیا میں کسی خوش گوار صورت حال کا سامنا نہیں ہے۔ کشمیر کے رستے ہوئے ناسور اور انسانی حقوق کی غیر معمولی خلاف ورزیوں نے عالمی سطح پر بھارت کی نرم طاقت کو شدید زک پہنچائی ہے۔ یورپی یونین نے حال ہی میں دھمکی دی ہے کہ اگر ظلم و زیادتی کا سلسلہ جاری رہا تو وہ تجارتی پابندیاں عائد کرسکتی ہے۔ ہندوتوا کے جبر تلے دم توڑتے ہوئے لبرل سیکولرزم اورمیڈیا کی زبان بندی پر بھی شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ انتہا پسندی، کسانوں کا احتجاج، سی سی اے شہریت بل، مسلم مخالف بل پر بھی ملک کے مختلف حصوں میں اشتعال پایا جاتاہے۔

لداخ میں ایل اے سی پر چین کے ہاتھوں حالیہ دنوں لگنے والے زخم بھارت کی فوجی قوت کے لیے باعث ہزیمت ہیں۔ کوویڈ 19 کی بڑھتی ہوئی لہر، لاک ڈاؤن اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بے روزگاری نے آبادی کے ایک بڑے حصے کو مایوس کردیا ہے۔ معاشی بحالی کا امکان ابھی ہویدانہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے ساتھ جنگ جو جیتی نہیں جاسکتی، اپنی تزویراتی کشش کھو چکی ہے۔پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے امریکی دباؤ نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ بھارت ان تنازعات سے نکل کر پوری یکسوئی کے ساتھ چین کو محدود کرنے کی سکت حاصل کرے۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو جنرل باجوہ اب یہ سوچ رہے ہیں کہ ”اپنا گھر درست کیے بغیر“روایتی حریف کے خلاف جنگ کا ماحول گرم رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والی حزب اختلاف جو اُ ن کی ساکھ مجروع کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کے سہارے قائم تحریک انصاف کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے پر تلی ہوئی ہے، کو چھوڑیں، جنرل باجوہ کے حامیوں کو بھی نہیں پتہ کہ وہ اپنا گھر درست کس طرح کریں گے؟ درحقیقت حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ اب بھارت کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرنے کے لیے کوئی شرط نہیں رکھ رہی۔ اُنہوں نے امن کاماحول بہتر بنانے کی کوئی بات نہیں۔ درحقیقت جنرل باوجود نے ایسا کوئی حوالہ نہیں دیا جس کی اسلام آباد میں قومی سلامتی کے نام نہاد جنگجو محافظ بلاتکان دہائی دیتے رہے ہیں کہ آرٹیکل 370 کی بحالی، جموں اور کشمیر کے سیاسی قیدیو ں کی رہائی، کشمیریوں کو مذاکرات کا ایک فریق بنانے، وادی پر سے پابندیاں اُٹھانے، ڈومیسائل قانون جو غیر کشمیریوں کو بھی اس خطے میں سکونت اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے تک بھارت سے کوئی بات نہیں ہوسکتی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام امن کے کسی بھی پیش رفت پر تنقید نہیں کی جاسکتی۔ کوئی بھی ہمسائے کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا مخالف نہیں۔ ایسی اجمالی حرکیات اپنی جگہ پر، لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی اسٹبلشمنٹ نے ابھی ایسا کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا جس سے تزویراتی جہت میں تبدیلی اور اپنے اپنے گھر کو درست کرنے کی کوشش کا اظہار ہوتا ہو۔

بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments