ساگر سرحدی کی رہنمائی کا شکریہ


نہیں معلوم وہ کون مہربان تھا جس نے یہ مشورہ دیا اور یہ بھی نہیں معلوم کہ کہاں سے اور کتنی آسانی سے، اس کی دستیابی ہوئی کہ یہ 80 کی دہائی تھی اور وی سی آر کا ہی چلن عام تھا۔ تب یہ بھی خوش نصیبی میں شامل تھا کہ جو دیکھنے کی خواہش ہو وہ میسر آ جائے۔ ان دنوں ایسا ہو جانا، ایسا ہی تھا جیسے لکی ڈرا میں پرائز کا نکل جانا یا پرائز بانڈ کے نمبر کا، اخبار میں چھپے نمبروں سے میچ کر جانا۔

یوں ہمارے نمبر میچ کر گئے اور فلم بازار ہمیں دستیاب ہو گئی۔ یاد نہیں کہ فلم کتنی بار نظروں سے گزری، ہاں یہ نہ بھول سکے کہ نغمے، جس قدر ممکن ہو سکتا تھا، اتنی بار دیکھے اور سنے گئے۔ کون سا پہلے دہرایا جائے، اس پر بحث کیے بنا چارہ نہ تھا کہ سب ایک سی سطح پر، نغمگی کے دعوے دار تھے۔

میر تقی میر کا کلام ( اور اس کا شعری حسن ) اپنی جگہ اور موقع محل کی مناسبت سے اس غزل کا موزوں استعمال، اس کی دلکشی اور معنویت کو دوبالا کر گیا۔

مرزا شوق کی شاعری کا اپنا رنگ ”دیکھ لو آج ہم کو جی بھر کے“ ۔ کلائمیکس اور موضوع کے لئے موزوں ترین الفاظ اور بچھڑنے کی سچیوشن میں اس سے زیادہ المیہ ( کہ کوئی آتا نہیں کبھی مر کے ) اور کیا درکار ہو سکتا ہے۔

مخدوم محی الدین کے خوشبو میں لپٹے الفاظ، ”پھر چھڑی رات بات پھولوں کی“ کس طرح سانسوں ( اور سکرین پر پیش کیے گئے جذبات ) کو معطر نہ کرے۔

بھوپندر سنگھ کی منفرد آواز ”کرو گے یاد تو، ہر بات یاد آئے گی“ کہانی کے فلیش بیک کو آگے بڑھانے میں کیسے کمزور پڑ سکتی ہے۔

جگجیت کور کی صدا کاری اور شادی بیاہ کا روایتی گیت ”چلے آؤ سیاں، رنگیلے میں واری“ ، کب کسی سے کم ہو سکتا تھا اور پھر سچ تو یہ ہے، کہ ان سب نغموں کے پیچھے، بلاشبہ خیام کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا۔

فلمی ناقدین بازار کو کس کٹیگری میں شامل کرتے ہیں، یہ وہی جانتے ہوں گے۔ ہمیں بس یہ پتہ ہے کہ یہی فلم آرٹ فلموں سے لگاؤ کا ذریعہ بنی ( یہ الگ بات کہ آرٹ فلم کی یہ اصطلاح بھی بحث و مباحثے سے ہوتی ہوئی، کچھ مدت بعد ، متوازی یا حقیقت پسند سینما میں تبدیل ہوئی)

بازار کے بارے میں اس حوالے سے اتفاق رائے پایا گیا کہ اس دور میں بننے والی فارمولا فلموں سے نہ صرف یہ کہ یہ مختلف تھی بلکہ حیدرآباد میں درپیش ایک حقیقی اور سنجیدہ مسئلے کو اجاگر کرنے میں نہایت مؤثر ثابت ہوئی۔

ساگر سرحدی

یوں افسانہ نگار سے فلمی رائٹر اور فلمی رائٹر سے ڈائریکٹر بننے والے ساگر سرحدی، وہ گرو ٹھہرے، جنہوں نے آرٹ یا متوازی موویز ( یا یوں کہیے کہ بہتر فلموں اور حقیقت پسندانہ موضوعات ) کی طرف رغبت دلائی۔ اور ایسی دلائی کہ یوں لگتا تھا کہ جو آرٹ مووی نہیں دیکھتے، تو آخر وہ کیا دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسوں پر ترس بھی آتا کہ بچارے کتنے نادان ہیں جو اس نعمت سے لطف اندوز ہونے سے محروم ہیں ( اور انہیں اس بے خبری کی خبر بھی نہیں ) ۔

پھر آرٹ موویز ایسی لگنے لگیں جیسے یہ فلم نہ ہوں، بلکہ آپ نے کوئی اچھی کتاب پڑھ لی ہو۔ اس سلیبس میں نصیر الدین شاہ، سمیتا پاٹیل، اوم پوری، شبانہ اعظمی، فاروق شیخ تو جیسے لازمی مضامین ٹھہرے۔ ان فلموں کو دیکھ کر کبھی یوں لگتا جیسے طالب علم کو الجبرا کا کوئی مشکل فارمولا سمجھ نہ آتا ہو اور پھر کوئی معاشرتی الجھن بہت آسانی سے حل ہو گئی ہو۔

اس سارے مرحلے میں، ڈھیروں آرٹ موویز دیکھ لی گئیں، ایک سے بڑھ کر ایک، مگر بازار کا تأثر کم نہ ہو سکا اور وہ ذہن سے نہ نکل سکی۔ شاید اس لئے کہ اس راستے کی بنیاد اسی نے رکھی تھی یا شاید اس لئے کہ اس میں تھیں ہی اتنی ڈھیروں خوبیاں! سو اس طرح ساگر سرحدی سے رفاقت برقرار رہی، بلکہ سرحد پار سے آنے والے، اس نام میں سرحدی دیکھ کر تجسس بڑھا تو نتیجتاً محبت میں یہ جان کر اور اضافہ ہوا کہ تحریری اور تخلیقی دنیا کا یہ نامور شہ سوار، مردم خیز مانسہرہ کے علاقے بفہ کا چشم و چراغ ہے۔

تحریری حوالے سے ساگر سرحدی کا نام بہت ساری مشہور فلموں سے وابستہ ہے مثلاً ”کبھی کبھی، سلسلہ، چاندنی، کہو نہ پیار ہے، مگر ان کی شناخت ( اور ان سے وابستگی ) ، درحقیقت فلم بازار ہی قرار دی جاتی ہے جسے انھوں نے تحریر بھی کیا اور جس میں انھوں نے پہلی بار ہدایات بھی دیں۔ ان کی تخلیقی صلاحیت کا کمال کہیں کہ اس میں انھیں اس قدر قبولیت ملی کہ اس فلم کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ یہ ایوارڈز کے لئے بیک وقت سات کٹیگریز میں نامزد ہوئی۔

یہ شاندار کامیابی بجا طور پر ان کی تخلیقی صلاحیت کا اعتراف ہے اور یقیناً اس فلم کے یہی وہ پہلو ہیں جن کی وجہ سے بازار کو ہر حلقے نے ڈائریکٹر کی فلم قراد دیا۔

بازار کی عوامی سطح پر بے پناہ مقبولیت اور ناقدین کی سطح پر بے حد پذیرائی کا شاید، یہ سبب ہے کہ ساگر سرحدی خود بھی بازار سے اس قدر مانوس ہو چکے تھے کہ بازار کی ریلیز کے کم وبیش چالیس سال بعد اب اس کا پارٹ ٹو بنانے کے خواہاں تھے۔

بھارت کے ممتاز فلمی صحافی اور نقاد خالد محمد کے مطابق اس کے لئے وہ سکرین پلے کا خاکہ بھی تیار کر چکے تھے، تاہم اپنی عمر کی وجہ سے خود ہدایت کاری کا رسک لینے پر تیار نہ تھے اور اس کے لئے انھوں نے روی شرما کا نام فائنل کیا تھا۔

اس کا موضوع بھی بازار ہی کی طرح حیدرآباد میں کم عمر دلہنوں پر ہونے والے ستم پر ہی مبنی تھا جسے وہ رومانی فلم کا روپ دینا چاہتے تھے۔ وہ مطمئن تھے کہ کورونا کے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد اس منصوبے پر عملی کام شروع کر دیا جائے گا۔ (اس سے قبل ان کی دو فلمیں تیرے شہر میں اور چوسر مختلف وجوہات کی وجہ سے مکمل اور ریلیز ہونے سے محروم رہیں) ۔

ساگر سرحدی، جن کا پیدائشی نام گنگا ساگر تلوار تھا، آج اپنے اس منصوبے کو شرمندہ تعبیر نہ کر سکے مگر ان کی فلم بازار کے بارے میں یہ دعویٰ، بجا طور ہر کیا جاسکتا ہے کہ یہ وہ بازار ہے جس نے فلم بینوں اور ناقدین کو ہمیشہ کے لئے خرید لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments