کیا پنجاب کے بلدیاتی ادارے مکمل طور پر بحال ہو سکیں گے؟


سپریم کورٹ نے پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کو ان کے منتخب نمائندوں سے محروم کرنا کسی طور پر بھی آئینی نہیں ہے۔

رواں ہفتے جمعرات کو عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ 2019 میں پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے بلدیاتی ایکٹ کی شق تین، ماضی میں پاکستان کے آئین کا حصہ رہنے والے قانون 58 ٹو بی کے مترداف ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق اس قانون کے تحت ماضی میں صدر یا فوجی آمر منتخب حکومتوں کو ختم کرتے رہے ہیں۔

مقدمے کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا ہے اور ایک نوٹیفکیشن کا سہارا لے کر انہیں گھر بھیجنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

واضح رہے کہ پنجاب میں محکمۂ بلدیات کی وزارت کا قلم دان وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزادر نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔

مبصرین عدالتِ عظمٰی کے اس فیصلے کو اہم گردانتے ہیں جن کے مطابق اِس فیصلے کا بہت دیر سے انتظار تھا۔

پاکستان میں جمہوریت، گورننس اور پبلک پالیسی پر تحقیق کرنے والے غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ اِس قانونی جنگ کو دو سال ہو گئے ہیں اور اس کا فیصلہ بہت پہلے آ جاتا تو بہت اچھا تھا۔ کیوں کہ ان کے بقول منتخب نمائندوں کے تین سال (آئینی مدت) باقی تھی جب بغیر کسی وجہ کے مقامی حکومتیں تحلیل کر دیں گئیں۔

سپریم کورٹ کا پنجاب میں بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ جب مقامی حکومتوں کو ختم کیا گیا تو توقع تھی کہ جلد نئے انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انتخابات بھی نہیں ہوئے اور مقامی حکومتوں میں ایک خلا پیدا ہو گیا۔

اُن کے بقول سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے سے باقی سب لوگوں کو بھی یہ پیغام جائے گا کہ اِس طرح کی کوئی بھی قدغن غیر قانونی ہی نہیں۔ بلکہ آئین کے بھی خلاف ہے۔ آئندہ کوئی بھی ایسا اقدام کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔

پلڈاٹ کے صدر نے کہا کہ اب چوں کہ کم و بیش نو ماہ اِن مقامی حکومتوں کے باقی رہ گئے ہیں تو عملی طور پر اِس کا فائدہ اُسی صورت میں ہو گا جب سپریم کورٹ یہ بھی طے کرے کہ جو وقت اِس قانونی جنگ کے اندر ضائع ہوا ہے اُس کا بھی اضافہ کر دیا جائے اور اِن کی مدت کو بڑھا دیا جائے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ جس حکومت نے یہ غیر آئینی فیصلہ کیا تھا علامتی طور پر اُس کے خلاف بھی جرمانہ عائد کیا جائے بھلے وہ چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو۔

‘سپریم کورٹ نے لوکل باڈیز سیکشن تین پر اعتراضات اٹھائے ہیں’

وزیرِ قانون پنجاب راجہ بشارت عدالتِ عظمٰی نے فیصلے پر تفصیلی گفتگو کرنے سے پرہیز کیا۔ تاہم وائس آف امریکہ کے ساتھ مختصراً گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ قانون پنجاب نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے کا تفصیلی فیصلہ نہیں آ جاتا، وہ اس پر زیادہ بات نہیں کر سکتے۔

راجہ بشارت نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2019 کے لوکل باڈیز سیکشن تین پر اعتراضات اٹھائے ہیں، جب کہ باقی بدستور موجود ہے۔ جب کہ اُن کی حکومت نئے قانون اور نئے ایکٹ کے تحت پرانے بلدیاتی نظام کو ختم کر چکی اور سسٹم کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں قوانین سازی اور پالیسیاں بنانے کے کام کرتی ہیں۔ جن کے اثرات براہِ راست نچلی سطح تک آتے ہیں۔ جب کہ مقامی حکومتیں لوگوں کے براہِ راست کام کرتی ہیں جن میں شہروں کی صفائی ستھرائی کے انتظامات، صاف پانی کی فراہمی، سیوریج کا نظام، کوڑے کرکٹ کو صاف کرنا، گلیوں کو پختہ کرنا، اسکولوں کو بنانا اور اُن کے انتظامات کو احسن طریقے سے چلانا اور صحت کے معاملات کو ٹھیک سے چلانا شامل ہے۔

پلڈاٹ کے صدر کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ صوبہ پنجاب میں صوبائی سطح پر ایک دوسری سیاسی جماعت (پی ٹی آئی اور پی ایم ایل کیو) کی حکومت قائم ہے جب کہ مقامی حکومتوں میں زیادہ تر نمائندگی سابقہ حکومت (مسلم لیگ-ن) کی ہے۔ لیکن ان کے بقول اب اس طرح کی صورتِ حال کے ساتھ زندہ رہنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔

ان کے خیال میں یہ سوچ بہت زیادہ ترویج پا گئی ہے کہ جس بھی جماعت کی حکومت ہو تو اُوپر سے نیچے تک اُسی جماعت کی نمائندگی ہر سطح پر ہونی چاہیے۔

اُنہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں صوبائی حکومتیں مختلف بھی ہوتی ہیں اور مقامی حکومتیں مختلف ہوتی ہیں اور ایک وقت میں پاکستان کے باسیوں کو اِس کی عادت نہیں تھی۔

اُن کے بقول ستر کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی، تو ان کے لیے بہت مشکل تھا کہ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں مخالف حکومت کو برداشت کرنا۔ لیکن اب صورتِ حال کچھ تبدیل ہوئی ہے۔ سندھ میں مسلسل دوسری مرتبہ ایسی جماعت کی حکومت ہے جو وفاق میں برسرِ اقتدار نہیں ہے۔

احمد بلال محبوب نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب چوں کہ مقامی حکومتیں بحال ہو گئی ہیں۔ تو ہو سکتا ہے کہ ان کو غیر فعال کر دیا جائے اور ان کو وسائل نہ دیے جائیں۔ اِن کو کام کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ جو کہ ایک غلط اقدام ہو گا۔

وزیرِ قانون پنجاب راجہ بشارت کہتے ہیں کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد حکومت فیصلہ کرے گی کہ اِس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی میں جانا ہے یا نہیں۔

صوبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات آخری مرتبہ 2016 میں ہوئے تھے۔ جن کی پانچ سالہ مدت رواں سال دسمبر 2021 میں پوری ہونا ہے۔ (فائل فوٹو)
صوبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات آخری مرتبہ 2016 میں ہوئے تھے۔ جن کی پانچ سالہ مدت رواں سال دسمبر 2021 میں پوری ہونا ہے۔ (فائل فوٹو)

راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ مقامی حکومتوں کو فنڈز دینا بعد کی بات ہے۔ پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ ماضی کے کس قانون کے تحت حکومت ان کو بحال کرے۔

ان کے بقول اگر حکومت ان کو نئے قانون 2019 کے تحت بحال کرتے ہیں تو یہ ادارے ہی ختم ہو چکے ہیں۔ میٹرو پولیٹن اُس وقت ایک ہوتی تھی۔ آج نو ہیں۔ اُس وقت جنرل کونسل ہوتی تھی، جو ضلع کونسل کے چیئرمین بحال کیے گئے ہیں وہ کہاں جائیں گے۔

خیال رہے کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات آخری مرتبہ 2016 میں ہوئے تھے۔ جن کی پانچ سالہ مدت رواں سال دسمبر 2021 میں پوری ہونی ہے۔

واضح رہے کہ اِن انتخابات کے تحت صوبے بھر میں بڑی تعداد میں اُس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے اراکین منتخب ہوئے تھے۔

لاہور کے 2016 میں میئر منتخب ہونے والے کرنل ریٹائرڈ مبشر جاوید نے ایک نجی ٹیلیویژن ‘لاہور نیوز’ سے گفتگو کرتے ہوئے مبشر جاوید کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلے پر بہت خوش ہیں اور اُنہوں نے اِس کے لیے ایک لمبی قانونی جنگ لڑی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے شکرگزار ہیں، جنہوں نے دو سال یہ کیس سنا اور بالاآخر اُن کے حق میں فیصلہ دیا۔

سن 2016 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں صوبہ بھر میں بڑی تعداد میں اُس وقت کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے اراکین منتخب ہوئے تھے۔ (فائل فوٹو)
سن 2016 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں صوبہ بھر میں بڑی تعداد میں اُس وقت کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے اراکین منتخب ہوئے تھے۔ (فائل فوٹو)

اُن کے مطابق 2018 میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اُنہوں نے اُن سمیت دیگر میئرز اور چیئرمین صاحبان سے اختیارات چھیننا شروع کر دیے۔

مبشر جاوید کے مطابق جب ماضی میں مقامی حکومتیں کام کر رہی تھیں تو لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہر صاف ستھرے تھے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اس وقت کو یاد کرتے ہیں اور موجودہ حکومت کے ساتھ موازنہ کرتے رہتے ہیں۔ وائس آف امریکہ نے مبشر جاوید سے براہ راست بات کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے مئی 2019 میں نئے ایکٹ کے تحت مقامی حکومتوں کا نظام ختم کر دیا تھا۔

حکومت نے اُس وقت یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ پنجاب میں نئے ایکٹ کے تحت جلد بلدیاتی انتخابات کرائیں گے۔ بعد ازاں ایک آرڈیننس کے تحت اس کی مدت میں مزید اکیس ماہ کی توسیع کردی گئی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments