حسینہ معین اب آرٹ کو تجارت کون کہے گا!


سن دو ہزار کے ابتدائی سال، پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی بھرمار اور ان پہ ایک سے ایک فلاپ ڈرامہ۔ ایسے میں ہمیں وہ ڈرامہ نگار یاد آتے جن کے لازوال سیریل دیکھ دیکھ کر ہم بڑے ہوئے تھے۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہو کیا رہا ہے۔ پاکستان میں ٹیلی وژن ڈرامے کو زوال کیوں آ گیا، وہ سب اچھا لکھنے، اچھا پیش کرنے والے یکایک کہاں چلے گئے۔ اداکاروں کی تو مجبوری تھی کہ انہیں کام چاہیے تھا، انہیں اس سے غرض نہ تھی کہ سیٹ مصنوعی یا کردار غیر حقیقی ہیں، کہانی گھٹیا یا پیش کش غیر معیاری ہے، ساس بہو لڑ رہی ہیں یا نند بھابی ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہیں، دو بہنیں ایک ہی ہیرو پر فدا ہیں یا دو بھائی ایک ہی لڑکی پر عاشق ہیں، دیور بھابی، بہن بہنوئی یا سسر بہو آپس میں بری نیت رکھتے ہیں، نہ ہی اس سے کوئی غرض تھی کہ ہمارا ٹیلی وژن ڈرامہ جو سرحد پار جا کر ان کی فلموں کا مقابلہ کرتا تھا , اب زی ٹی وی اور سٹار پلس کے ڈراموں کا چربہ بن کے کیوں رہ گیا ہے۔

انہیں کام چاہیے تھا اس سے قطع نظر کہ کس ڈرامے کو کون سے ملک کا سفارت خانہ فنڈ کر رہا ہے اور کس ڈرامے کی سرپرستی کون سی بیرونی این جی او کر رہی ہے۔ اس سے بے نیاز کہ کردار اور سچویشن کی ڈیمانڈ کو نظر انداز کر کے میک اپ تھپے نمائشی چہرے کے ساتھ منظر فلماتے ہوئے آرٹ کا دم کتنا گھٹتا ہے اور پرفارم کرنے کا سکوپ کتنا کم رہ جاتا ہے۔ سو، معاشرے کے تار و پود بکھیرنے والوں اور ہر رشتے ناتے کا تماشا لگا دینے والوں کے ہاں بے شمار کام انہیں ملتا گیا اور ان کی روزی کا بندوبست ہوتا رہا۔

منفی سوچ سے بھرپور، چالبازیوں اور مکاریوں پر مشتمل، جھوٹ اور دھوکے کی کہانیاں تھکے ذہنوں کو تفریح تو کیا دیتیں، الٹا ذہنی دباؤ میں اضافہ کر دیتیں۔ لہٰذا تفریح کی تلاش میں ناظرین تو ادھر ادھر ہو گئے مگر چینلز والے برائیوں کی نمائش لگا کر، سنسنی خیزی کے ذریعے جیبیں بھرتے رہے۔ کبھی کبھار کوئی ڈرامہ ہٹ ہوتا، لوگ آپس میں اس کا ذکر کرتے ملتے تو ایک خبر کی بات ہوتی۔ حیرت تو لکھنے والوں پر تھی.  ہمارے لیے تو یہی قابل ہضم نہ تھا کہ ڈرامہ رائٹرز کی فہرست ادیبوں اور دانشوروں کی بجائے نچلے درجے کے ڈائجسٹ رائٹرز سے بھری پڑی ہے، تو پھر معیاری ڈرامہ کہاں سے تخلیق ہوتا؟

ایسے میں ایک تقریب کے دوران حسینہ معین سے ملاقات ہوئی جب وہ ایک یوتھ کنونشن میں شرکت کے لیے لاہور آئی تھیں۔ میں ان سے یہ سب باتیں کہے بغیر نہ رہ سکی بلکہ شکوہ کیا کہ آپ جیسے لکھنے والے اب نئی نسل کو کیوں میسر نہیں۔ بات چیت کے دوران اندازہ ہوا کہ یہ گفتگو چند گھڑیوں کی نہیں، بہت سے دکھڑے ہیں۔ ایک تفصیلی انٹرویو کا وقت لیا جو تین سال بعد اس جنوری میں ممکن ہو سکا۔ میں کراچی آرٹس کونسل میں حریم ادب کی فکری نشست میں مدعو تھی جس میں وہ بھی شریک تھیں۔

حساس موضوع پر خوبصورت گفتگو کی جو دلچسپ بھی تھی اور ان کے مخصوص رنگ میں چٹکیاں لیتی ہوئی بھی۔ شرکت کے بعد وہ مجھے اوپر کی منزل میں واقع اپنے دفتر میں لے آئیں جہاں میں نے ان سے ایک گھنٹے کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ باتیں کیا تھیں، یادوں سے بھرا خزانہ تھا جس کو وہ پرت پرت کر کے کھول رہی تھیں، نوحہ تھا جس کی لے کبھی دھیمی ہو جاتی کبھی تیز، سچ تھا جس کی لو آنچ بھی دیتی تھی اور ٹھنڈک بھی۔ اپنے بچپن کے قصے، شرارتیں، زندگی کے نشیب و فراز، بہت کچھ دہراتی رہیں۔

ڈرامے کی فیڈ بیک کیسے آتی تھی، آج کل تو سوشل میڈیا فین ہوتے ہیں، جواب دیا کہ بوروں میں بھر بھر کے خط آیا کرتے تھے دیکھنے والوں کے۔ پوچھا آج کل کے ڈراموں میں کس ڈرامے کو قابل ذکر سمجھتی ہیں، کہنے لگیں میں نے ڈرامے دیکھنے چھوڑ دیے ہیں، اتنی بیہودگی ہے کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتی، یہ میں تھی جس نے منوایا کہ ٹی وی ڈرامہ ادب کی بھی صنف ہے اور آرٹ کی بھی، یہ دونوں اس میں نہ ہوں تو ڈرامہ نہیں ہے۔ ایک کانفرنس میں بعض ادیبوں نے کہہ دیا کہ ٹی وی ڈرامہ تو ادب میں آتا ہی نہیں، تو اسلم اظہر نے میرا پورا ساتھ دیا، میری دل آزاری ہوئی تھی تو اپنی بیگم اور افتخار عارف کے ہمراہ مجھے اپنے گھر پہ کھانا کھلایا۔

ایسے لوگ پی ٹی وی میں موجود تھے جو صلاحیت کو پہچانتے تھے اور اس کی قدر کرتے تھے۔ ڈرامہ کی اثر اندازی ایسے ہے جیسے آپ ان کرداروں کے ساتھ رہ رہے ہیں، یا وہ کردار آپ کے گھر کے اندر آ گئے ہیں۔ لیکن اب یہ حال ہے کہ انہی ڈراموں کے ذریعے گھروں کو بگاڑ کر آپ پیسے کما رہے ہیں۔ میں لکھتی تھی تو ایک قسط لکھنے میں پوری جان لگ جاتی تھی مگر اب شارٹ کٹ مل گیا ہے لوگوں کو۔ بجائے اس کے کہ ڈرامے کو محنت اور تخلیق کاری سے معیاری بناتے، اب ڈرامہ بنانے والوں نے آسان راستہ اپنا لیا ہے کہ چونکانے والی باتوں کے ذریعے ڈرامے کی ریٹنگ بنائی جائے، کوئی عجیب بات کہہ کے۔فلاں کی بیوی فلاں کے شوہر سے عشق کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ ہمارے ہاں نہیں ہوتا تھا، مغرب کی فلموں میں تھا یا انڈیا میں بھی بہت ہے مگر ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات بہت کم ہیں، تو جو کچھ معاشرے میں دس یا پانچ فیصد ہو رہا ہے، وہ باقی نوے پچانوے فیصد کو کیوں دکھائیں کہ یہ بھی ایک راستہ ہے زندگی گزارنے کا! تاکہ سنسنی پیدا ہو، لوگ چونک جائیں، اور اس سے جو سبق ملا وہ یہ کہ کوئی عورت اچھی لگے تو چاہے وہ کسی کی بہن، بیوی، بیٹی ہے، آپ چھین کے لے جا سکتے ہیں، ایسا کرنا جائز ہے۔

ایسی بے وقوفی کی باتیں ہو رہی ہیں کہ شوہر کے سامنے اس کی بیوی کو کسی اور نے ہیروں کا ہار پہنا دیا اور وہ اسے لے کے گھر آ گئی۔ جب ہم لوگ ڈرامہ لکھتے تھے تو ڈان میں انور عنایت اللہ ریویو دیا کرتے تھے۔ اب کون ریویو لکھے کہ صحافیوں کے پاس لفافے جاتے ہیں اور سب اچھا لکھا جاتا ہے۔ تحریر کو بے مقصد نہیں ہونا چاہیے اور ڈرامے کو تو بالکل نہیں۔ یہ جرنلسٹ کا کام ہے کہ معاشرے کو درست سمت میں رکھے، اسے راستے پہ لائے۔

ادیب شاعر صحافی میڈیا کے لوگ۔ یہ چاہیں تو مل کر معاشرے کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔ نہ چاہیں تو بس عشق دکھاتے رہیں، ساری لڑکیاں عشق کر رہی ہیں، ماسیاں بھی عشق کر رہی ہیں۔ اس فیلڈ میں تو انہی کو آنا چاہیے جو لفظ کی حرمت کو جانتے ہوں، جو لفظ کے اثر کو جانتے ہوں۔ مگر بدقسمتی کہ یہ تجارت بن گئی ہے۔ بک رہا ہے سامان۔ جیسا بھی بکے!

رات کے آٹھ بج رہے تھے جب گاڑی نے پہلے مجھے کراچی جمخانہ واپس چھوڑا اور گیسٹ رومز کے باہر اترتے ہوئے میں نے انہیں اشارے سے خدا حافظ کہا۔ گاڑی انہیں لے کر چل دی اور میں دور تک دیکھتی رہی۔

آج ان کی وفات کی اچانک خبر سن کر میں سوچ رہی تھی کہ اب تو میڈیا کی کی اس سرگرمی کو جو قرطاس و قلم ہی کا پھیلاؤ ہے، تجارت کہہ کر خسارہ اٹھانے والے لوگ بھی ایک ایک کر کے اٹھتے جا رہے ہیں یا پھر عزت بچا کے گوشہ گمنامی میں بیٹھے ہیں، باقی سب آگہی کے نام پر معاشرے کا گلا سڑا حصہ خوبصورت پیکنگ میں بیچ بیچ کر مال بنا رہے ہیں۔ جو رہی سو بے خبری رہی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments