‎ذوالفقار چیمہ کی گول مول سچائیاں


ڈسکہ ضمنی انتخاب سپریم کورٹ کے حکم پرغیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی ہو چکا ہے۔ یہ 2010 میں ہونے والے گوجرانوالہ ضمنی انتخاب کا ”ایکشن ری پلے“ تھا جس کی ادھوری کہانیاں برادر محترم ذوالفقار چیمہ اپنے دو کالموں میں سنا چکے ہیں۔

‎نجانے کیوں برادرم ‎چیمہ صاحب کھل کر ‎ ’مکمل سچ بیان نہیں کر رہے اسے‘ گول مول ’کر کے نمایاں کر رہے ہیں۔

‎محترم ذوالفقاراحمد چیمہ پولیس سروس کے قابل فخر دیانتدار اور بہادر افسر تھے اور راست فکر دانشورہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ راست فکری دیانتداری سے بھی مشکل اور جاں جوکھوں کام ہے۔ ‎برادرم ذوالفقارچیمہ مسلمہ دیانتدار پولیس افسر رہے ہیں پولیس افسر کا دیانتدار رہنا کسی مجاہدے سے کم نہیں ہے۔

‎اب تو برسوں سے وہ ساتھی کالم نگاربھی ہیں اپنے آبائی علاقے میں انصاف کا ترازوسربلند رکھنا قریباًناممکن ہو جایا کرتا ہے۔ ‎لیکن ذوالفقارچیمہ اس امتحان میں بھی سرخرواورسربلند رہے ضلع گوجرانوالہ میں امن وامان کے قیام اورغنڈہ گردی کے خاتمے کے لیے ان کی خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔ ‎ہمارے ہمسائے میں ننھو گورائیہ گینگ کا خاتمہ ان کا ایسا کارنامہ ہے جس کی بازگشت صدیوں تک ہمارے ڈیروں اوراوطاقوں میں گونجتی رہے گی

‎اوریہ اعتراف بھی کہ اس کالم نگار کے تو یہ محسن بھی ہیں خاندانی زمینوں کی بندر بانٹ کے تنازعات اوردیوانی مقدمات فریقین کو دیوانہ بنا دیا کرتے ہیں اس طرح کے ایک پیچیدہ تنازعے میں مجھے چیمہ صاحب کی مدد کی ضرورت تھی یہ گوجرانوالہ پولیس کے سربراہ (آرپی او) تھے دفتر جا کر ملا صورت حال بتائی توانہوں نے صرف ایک سوال پوچھا کہ اس معاملے میں کوئی اورہیر پھیر یا چکر تو نہیں ہے۔

‎اس اطمیان کے بعد تھانہ تتلے عالی کے ایس ایچ او کو فون پر چند لمحے بات کی اورمجھے اس سے ملنے کو کہا وہ پیچیدہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو گیا، جس میں خون کی ندیاں بہہ سکتی تھیں اس کالم نگار کی آسانی سے جان چھوٹ گئی۔

‎جناب چیمہ نے ڈسکہ اور وزیرآباد کے انتخابات پرخوب کھل کر لکھا ہے لیکن یہ تو آج کی کہانی ہے جس میں کسی کے لیے کوئی نئی خبر نہیں ہے۔

‎چیمہ صاحب کے لیے لازم تھا کہ وہ پورا سچ بیان فرماتے اور 2010 کے نوشہرہ ورکاں میں قومی اسمبلی کے الیکشن کی داستان، اس کے مکروہ اور بدنما کرداروں کے ساتھ سناتے۔ ووٹ کو عزت دینے کے نعرے لگانے والے نواز شریف کے حکم پر ‎کون کون صوبائی وزیراورکون کون ایم این اے اس الیکشن کوچرانے میں ملوث تھا اور پھر آپ نے کس طرح آدھی رات کو پریزائیڈنگ افسر وں کو برآمد کر کے نتیجہ درست انداز سے مرتب کرایا

‎برادرم ذوالفقار چیمہ، بدھ 3 مارچ 2021 کے کالم میں لکھتے ہیں
‎ ”کئی ٹی وی چینلوں نے اس ایشو پرمیرا نقطۂ نظر پوچھا اور گوجرانوالہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات 2010 ‎میں وہاں سے غائب ہونے والے پریزائیڈنگ افسروں کا بھی ذکر کیا۔ آج دس سال بعد بھی ضمیر کے پورے اطمینان اور مسرت وافتخار کے ساتھ میں یہ کہہ سکتاہوں کہ چونکہ اس وقت ہم نے (میں اس وقت گوجرانوالہ پولیس کا سربراہ تھا) پولیس کو مکمل طور پرغیرجانبداررکھا، ڈسکہ اور وزیرآبادکی طرح پولیس کسی کی آلۂ کار نہیں بنی، اس نے اپنی آئینی اور ‎قانونی ذمے داری نبھائی، اس لیے نہ صرف Missing Presiding Officers  کو بہت جلد برآمد کروا لیا گیا، بلکہ ان سے اصل نتائج بھی برآمد ہو گئے جو انھوں نے ریٹرننگ افسر کو جمع کرا یے۔

‎حکومتی پارٹی (برسراقتدار نون لیگ) ڈیڑھ ہزار ووٹوں سے ہار گئی۔ انصاف کے مطابق حقدار کو (پیپلز پارٹی) حق دلا کرقانون کی حکمرانی قائم کی گئی جس سے پولیس کی عزت و توقیر میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس ٹیم کے پولیس افسران آج بھی اس واقعہ کا فخر کے ساتھ ذکر کرتے ہیں ”

جناب چیمہ نے بالکل صحیح لکھا ہے۔
12 ‎برس پہلے ہمارے پیارے ذوالفقار چیمہ نے وفاقی اورصوبائی حکومت کی تمام ترریشہ دوانیوں کے باوجود یہ کارنامہ کردکھایا تھا اس وقت وزیراعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف دونوں بھائی یہ الیکشن چرانا چاہتے تھے لیکن ذوالفقار چیمہ ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے تھے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار تصدق مسعود خان جیت گئے تھے اس طرح ووٹ کوعزت دینے کا نواز شہباز ”مقدس“ منصوبہ ناکام ہو گیا تھا

‎ اپنے کالم میں جناب ذوالفقار چیمہ نے گول مول سچ کا سہارا لیا ہے۔ ‎جس سے عام قاری کو بالکل پتہ نہیں چلتا ہے کہ 2010 میں گوجرانوالہ کا ضمنی انتخاب کس کے دوراقتدار میں ہوا تھا، کیوں ہوا تھا، اس وقت برآمد ہونے والے پریزائیڈنگ افسر کس کے حکم پراغوا ہوئے تھے۔ سارے حقائق مسلمہ دیانتدارجناب ذوالفقار چیمہ کے ملفوف سچ میں چھپالیے گئے ہیں۔

‎حقائق یہ ہیں کہ اس وقت پاکستان پر تیسری بار ”ڈبل سواری“ والے جمہوری حکمران جناب نواز شریف وزیراعظم اورشہباز شریف وزیراعلی پنجاب تھے ضمنی انتخاب قومی اسمبلی کے حلقہ 100 کا معرکہ درپیش تھا جو جمہوری معرکہ آرائی کی بجائے مقامی جاٹوں اورمہاجر یا پناہ گیر راجپوتوں کی جنگ میں بدل چکا تھا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار تصدق مسعود خان تھے۔

‎تحصیل گوجرانوالہ کے آخری کونے میں واقع یہ حلقہ شیخوپورہ اور حافظ آباد کے اضلاع سے متصل ہے یہ کالم نگار اس حلقے میں بڈھا گورائیہ سے ووٹر بھی ہے مجھے پل پل کی خبریں مل رہی تھیں کہ دھاندلی کی تیاریاں وسیع پیمانے پر کی جا رہی ہیں آخری امید برادرم ذوالفقار چیمہ تھے۔

‎نواز شریف اور پھرتیلے شہباز شریف کے حکم پر ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ میں جعلی الیکشن کمشن کا دفتربھی بنایا گیا تھا مقامی پولیس کو ہمیشہ ایک ایک مجرم اور جرم کا علم ہوتا ہے شدید کشیدہ ماحول میں بہادرذوالفقار چیمہ نے کھلے بندوں ہتھیاروں کی نمائش پر (zero tolerance) ‎کی حکمت عملی کے تحت پرامن انتخاب کرانے کا ناقابل یقین مرحلہ طے کر لیا اصل کھیل اس کے بعد شروع ہوا اس وقت ووٹ کو عزت دینے کے لیے دوردرازعلاقوں کے پریزائیڈنگ افسروں کو ’اغوا‘ کر کے گوجرانوالہ پہنچا دیا گیا نوشہرہ ورکاں میں نتائج جمع ہو رہے تھے جہاں کشیدگی انتہا پر تھی یہ ہمارے بھائی ذوالفقار چیمہ ہی تھے جنہوں نے مصلحت اور مصالحت کو پس پشت ڈال کر جعلی الیکشن کمشن دفتر پر چھاپہ مارا، عملہ اور جعلی دستاویزات برآمد کیں اور رات گئے سچ پر مبنی حقائق نتائج مرتب کرا کے ضمیرکی عدالت میں مطمئن اور سرخرو ہو گئے۔

‎ذوالفقار چیمہ کو اپنی دیانتداری کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی انہیں بلاوجہ ‎ایک ڈیڑھ ماہ بعد رانا ثناء اللہ اور احسن اقبال کے اصرار اور خرم دستگیر کی خواہش پر گوجرانوالہ سے دربدر کر دیا گیا انہیں دیدہ دانستہ پنجاب پولیس کا سربراہ نہ بننے دیا گیا جس کے یہ سب سے زیادہ حق دار تھے کبھی ایلیٹ فورس، کبھی پولیس فاونڈیشن کبھی فاروق آباد اور اس کے بعد موٹروے پولیس میں دھکیل کر سکھ کا سانس لیا۔

‎جناب چیمہ اس کی تمام تفصیلات آپ سے زیادہ کون جانتا ہے؟ بلاشبہ آپ نام لے کر  اور نام لیے بغیر شیخ رشید کی مداخلتوں اور بدکلامیوں کو بیان فرماتے ہیں اورٹھیک کرتے ہیں لیکن آپ کی دیانتداری اورراست فکری کا تقاضا ہے کہ نوشہرہ ورکاں الیکشن کی تفصیل شیطانی کرداروں کے ساتھ بیان فرمائیں قوم آپ کی حق گوئی کی منتظر ہے کہ آپ پردہ اٹھائیں گے

‎ڈسکہ ضمنی انتخاب دراصل 10 برس قبل ہونے والے گوجرانوالہ ضمنی انتخاب کا ”ایکشن ری پلے“ تھا جو اب سپریم کورٹ کے حکم پرغیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی ہو چکا ہے جہاں ڈسکہ کی دھند میں 20 پریزائیڈنگ افسر ”کہیں“ کھو گئے تھے ان کے موبائل فونوں کی بیٹریاں جواب دے گئی تھیں ڈسکہ ضمنی الیکشن میں پریزائیڈنگ افسر کا دھند میں غائب ہونا پہلا واقعہ نہیں تھا قبل ازیں اسی طرح کا کھیل 2010 میں گوجرانوالہ کے ضمنی الیکشن میں ہو چکا تھا۔

‎جب نوشہرہ ورکاں کی نشست پر پولنگ کے بعد درجن بھر پریزائیڈنگ افسرغائب ہو گئے تھے لیکن دھاندلی کے اس کھیل کو حد درجہ دیانتدارپولیس افسر ذوالفقار چیمہ نے بروقت کارروائی کر کے ناکام بنا دیا تھا۔ ‎‎ پہلے ذوالفقار چیمہ کے بڑے بھائی جسٹس افتخار چیمہ اوراب ڈاکٹر نثار چیمہ وزیرآباد سے نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ ‎لیکن کلی اور حتمی انصاف پر یقین رکھنے والے ذوالفقار چیمہ فرائض انجام دیتے ہوئے رشتے ناتوں کی پروا نہیں کرتے تھے لیکن کالم لکھتے ہوئے گول مول سچ لکھ کر نمایاں کر رہے ہیں

‎گول مول کر کے نمایاں کرنے کی اصطلاح ہمارے ایک سینئر جناب ممتاز گیلانی نے ایجاد کی تھی جو روزنامہ نوائے وقت میں ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر تھے پیشہ وارانہ کام میں ان کی دلچسپی کایہ عالم تھا کہ تاریخ، نمازوں کے اوقات، منڈیوں کے بھاؤاورطلوع وغروب آفتاب کے اوقات لکھوا کر فارغ ہو جایا کرتے تھے جب کسی خبر بارے کوئی ماتحت سب ایڈیٹر مشورہ مانگتا تو ہمیشہ فرماتے گول مول کر کے نمایاں کردو۔ اللہ اللہ اورخیر سلا۔ برادرم ذوالفقار چیمہ کے ڈسکہ ضمنی الیکشن اور پولیس کے ناروا رویے کے نتاظر میں دو کالم پڑھنے کے بعد ممتاز گیلانی اوران کا گول مول کر کے نمایاں کرنے کی فلاسفی کی یاد تازہ ہو گئی۔ بلند پایہ مصنف ‎ذوالفقار چیمہ نے اپنے گراں قدر تجربات پر مبنی تازہ ترین کتاب بھی اس کالم نگار کی نذر کی تھی۔
‎لائق فائق نوشین افتخار، ہمارے دیرینہ مہربان ‎پیر ظاہرے شاہ کی صاحبزادی ہیں ظاہرے شاہ کیا زندہ دل اورباغ وبہار شخصیت تھے اپنے حلقہ انتخاب میں مقبول اورہردل عزیزتھے انہوں نے اپنے بارے میں سادہ ودل نشین نعرہ ایجاد کررکھے تھے۔

‎کون بنائے گا پئیے تے راہ
‎ظارے شاہ، ظارے شاہ

‎ایک دور ایسا بھی تھا کہ ہرشام دربار عالیہ محمد خالد خان ٹکا پر اکٹھے ہوتے تھے شاہ صاحب کے دنیا جہاں کے قصے کہانیوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ‎نہ ٹکا خالد خان رہے نہ پیر ظارے شاہ۔ ‎اور مہاگرو انور عزیز چودھری بھی تہہ خاک آسودہ ہو گئے اور ‎گزرے وقتوں کی کہانیاں سنانے کو ہم رہ گئے ہمارا زمانہ گزر گیا

‎پس تحریر بیان پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال کے بارے میں جو اخلاقیات کے درس دیتے نہیں تھکتے، جاتی شب اپنی اصل جماعت پر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے پر ناراضگی دکھا رہے ہیں وہ خود یوسف رضا گیلانی کا علم اٹھائے پھریں تو جمہوریت کی جنگ کا معرکہ ہے بیچاری جماعت اسلامی مبینہ ’ہار چور‘ کو سینٹ کے قائد حزب اختلاف کے لئے رسمی ووٹ دے تو چھچھورے ہارچوری کے طعنے سنے ویسے اب پتہ نہیں احسن اقبال کون کون سی ڈگریاں سجائے پھرتے ہیں اوائل جوانی میں ان کی ذہانت کا عالم یہ تھا کہ انجیئرنگ یونیورسٹی لاہور میں میرٹ پر نہیں آئے تھے تو ٹیکسلا انجیئرنگ کالج میں داخلہ لینا پڑا تھا۔

‎وہ تو موتیوں والی سرکار منصور صدیقی مرحوم طلبہ یونین الیکشن کے لئے ٹیکسلا انجئیرنگ کالج سے ڈھونڈ کرلاہور UET ‎لے آئے تھے کہ میرٹ کا قتل عام کر کے جنرل ضیا کے خصوصی حکم پران کی مائیگریشن ممکن ہوئی تھی اوراب وہ پروفیسر اور ڈاکٹر نجانے کیا کچھ کہلاتے ہیں۔

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments