پیپلز پارٹی میں کوئی ایون (Iván Fernández Anaya) نہیں!


اس کا نام آبیل کپروپ مطائی تھا۔ وہ لمبی دوڑ (Long Race) کے کھیل کا کھلاڑی تھا۔ ہر کھلاڑی کی طرح گولڈ میڈل جیتنا اس کا بھی خواب تھا۔ آج وہ اپنی تمام ترتوانائی کے ساتھ دوڑ رہا تھا جبکہ اس کی منزل اس سے کچھ قدموں کے فاصلے پر تھی۔ آبیل کپروپ مطائی (Abel Kiprop Mutai) اختتامی لائن سے صرف چند فٹ کے فاصلے پر تھا جب اسے وہ الجھن لاحق ہوئی جس نے پوری دنیا میں اخلاقیات کا رخ تبدیل کر دیا۔ الجھن یہ ہوئی کہ اسے لگا کہ اس نے اختتامی لائن عبور کرلی ہے اور وہ جیت چکا ہے۔

کھیل میں صرف وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اور بھی ایتھلیٹ دوڑ رہے تھے۔ مطائی کے بالکل پیچھے ایک ہسپانوی کھلاڑی تھا جو اس سے چند قدم کے فاصلے سے دوسرے نمبر تھا۔ اس ہسپانوی کھلاڑی کا نام ایون تھا۔ ایون کو اندازہ ہو گیا کہ کیا ہوا ہے۔ اس کے پاس گولڈ میڈل اپنے نام کرنے کا سنہری موقع تھا لیکن وہ موقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے زور زور سے چلانے لگا:اپنی ریس مکمل کرو مطائی! ۔ لیکن مطائی، ہسپانوی زبان نہیں جانتا تھا لہذا اسے سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔

مطائی کی اس الجھن کو دیکھتے ہوئے ایون نے اسے فتح یابی کی لکیر کی طرف دھکیل دیا اور یوں مطائی دوڑ کا مقابلہ جیت گیا۔ جب کھیل مکمل ہوا اور جیتنے والوں کی پوزیشن کا اعلان کر دیا گیا تو ایک صحافی ایون کے قریب آیا اور اس سے پوچھا:آپ نے ایسا کیوں کیا؟ کیا گولڈ میڈل جیتنا تمہارا خواب نہیں تھا؟ ایون نے جواب دیا:بالکل! لیکن میرا خواب یہ ہے کہ کاش ہم سب انسان مل کر ایک شاندار معاشرتی زندگی گزاریں۔ صحافی نے اصرار کیا: لیکن آپ نے کینیا کے کھلاڑی کو کیوں جیتنے دیا؟

ایون گویا ہوا: میں نے اسے کب جیتنے دیا؟ وہ تو از خود جیتنے والا تھا۔ صحافی چونکہ اس کی وجہ جاننا چاہتا تھا لہذا اس نے پھر زور دے کر پوچھا: لیکن آپ جیت سکتے تھے۔ ایون نے صحافی کی طرف دیکھا اور بولا: لیکن میری ایسی جیت کا اخلاقی طور پر کیا جوازہوتا اور میں یہ گولڈ میڈل لے کر تاریخ میں کس مقام پر کھڑا ہوتا؟ وہ ایک لمحہ ساکت ہوا، اس نے صحافی کی آنکھوں میں دیکھا اوراپنی بات مکمل کرتے ہوئے اس سے پوچھا :اگر میں اس طرح تمغہ حاصل کر بھی لیتا تو کیا وہ اعزاز ہوتا اور میری ماں میری اس حرکت کی بابت کیا سوچتی؟ میں اپنی ماں کو شرمسار نہیں کر سکتا۔ وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا اور اس صحافی سمیت پوری دنیا کو ہکا بکا کر گیا۔

مجھے یہ کہانی پیپلز پارٹی کی جانب سے سینٹ میں شاندار کامیابی حاصل کرنے پر ایک بار پھر شدت سے یاد آنے لگی۔ ایون گویا میری آنکھوں کے سامنے کھڑا مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ ”باپ“ کی مدد سے ملنے والی اس سیٹ کی اخلاقی پوزیشن کیا ہے اور کیا اس سیٹ پر بیٹھ کر یوسف رضا گیلانی واقعی مطمئن ہوں گے؟ میں عالم تصور میں ایون کے یہ سوال سن کر شرمندہ ہو رہا ہوں۔ دکھ یہ ہے کہ اس جیت نے یوسف رضا گیلانی کی حیثیت کو بھی داغدار کر دیا ہے۔

بحیثیت وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی ان کا ایک کردار تھا لیکن افسوس اس حرکت نے اس کردار کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ وہ جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔ اسی یوسف رضا گیلانی نے اپنی حکومت سے ٹکر لے کر اپوزیشن رہنما کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے۔ چھوٹے عہدے پر بڑا کام کر گزرنے والا گیلانی ایک چھوٹے عہدے کے لیے اتنا کیسے گر سکتا ہے لیکن شاید سیاست اور ”سب پر بھاری“ ہونا اسی کا نام ہے۔ اتنا بھاری کہ اخلاقیات اور وعدے بھی ہلکے پڑ جاتے ہیں۔

مسئلہ زرداری صاحب کا نہیں کہ وہ بھاری ہونے کے چکر میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بینظیر بھٹو نے اپنی ایمیل میں جن افراد کو اپنا ممکنہ قاتل نامزد کیا تھا، زرداری صاحب کے نزدیک ان میں سے ایک کے سامنے حلف اٹھا جا سکتا ہے جبکہ دوسرے کو ڈپٹی وزیراعظم تک بنایا جا سکتا ہے، وہ تو اپنے ہی اتحادیوں کی حکومت گرا گورنر راج بھی لگا سکتے ہیں، ضرورت پڑے تو اینٹ سے اینٹ بجا بھی سکتے ہیں اور بجوا بھی سکتے ہیں، وعدے کر بھی سکتے ہیں اور پھر انہیں وعدوں کو پس پشت ڈال کر یہ نعرہ مستا نہ بھی لگا سکتے ہیں کہ ”وعدے کون سا قرآن و حدیث ہیں؟

“ ۔ جب اپوزیشن ان کے اس کردار سے آگاہ تھی کہ جو شخص لائیو پریس کانفرنس میں پوری قوم کے سامنے کیے گئے وعدوں سے پھرسکتا ہے وہ شخص بند کمروں میں کیے گئے اس وعدے پر کیسے قائم رہے گا کہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر فلاں جماعت کا ہوگا۔ بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ اپوزیشن ٹھنڈا پانی پیے اور لمبے لمبے سانس لے کیونکہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ انہی کا حق تھا۔ میں نے جب ان کا یہ بیان سنا تو میری زبان پر فی البدیہہ یہ فقرہ جاری ہوا : جی ہاں یہ عہدہ آپ کا حق تھا اور آپ کے باپ نے کسی بھی قیمت پر ”باپ“ سے یہ حق لے لیا ہے۔

مسئلہ زرداری صاحب نہیں بلکہ یہ ہے کہ گیلانی صاحب نے ایون کی طرح ایک لمحہ بھی یہ نہیں سوچا کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ مسئلہ اس معاشرے کا ہے جہاں بات بات پر ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے اور اس کی قربانیوں کی ایک داستان ہے۔ 2008 کے بعد پیپلز پارٹی کا کوئی ایک اقدام جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہلا سکے؟ رہا مسئلہ اٹھارہویں ترمیم کا تو کیا خود اسی پارٹی نے اس ترمیم کی روح کو تار تار نہیں کیا؟ مسئلہ اس اخلاقی میراث کا ہے جو ہمارے ”سٹیک ہولڈر“ آنے والی نسلوں تک منتقل کر رہے ہیں۔ کیا فیصلہ کن اور فیصلہ ساز افراد میں کوئی ایک بھی ایون نہیں ہے جسے اس کی ماں نے ہار اور جیت کا حقیقی مفہوم سکھایا ہو؟

https://english.elpais.com/elpais/2012/12/19/inenglish/1355928581_856388.html


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments