سندھ بیسک ایجوکیشن: ایک معیاری تعلیمی پروگرام


2010 کے سیلاب نے شمالی سندھ کے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا اور جہاں ان کی معیشت، زراعت، روزگار پر اس کے اثرات پڑے وہیں اسکولوں کے بہے جانے کی وجہ سے تعلیمی میدان بھی بری طرح متاثر ہوا۔ صوبہ سندھ کے طالب علموں کو معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لیے کئی دشواریوں کا سامنا رہا۔ صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولوں کی بھی ایک الگ کہانی ہے۔ ایک دو کمروں پر مشتمل ٹپکتی چھتوں، اکھڑتے پلستروں، بغیر واش رومز اور بغیر بجلی والے اسکولوں میں پڑھنا بھی کوئلے کی کان مین پڑھنے کے مترادف ہی ہے۔

سندھ کے دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں کو ایجویکشن کا نظام بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ صوبہ سندھ میں خصوصاً لڑکیوں کی معیاری تعلیم اور وہ بھی لڑکوں کے ساتھ پڑھنا ناممکنات میں ہی شامل ہے کہ جہاں معمولی باتوں پر جھگڑے خون خرابے تک پہنچ باتے ہیں ۔ ایسی جگہوں پر اب یو ایس ایڈ اور حکومت سندھ کے تعاون سے جدید تعلیمی اداروں کا قیام حقیقی معنوں میں عمل میں آ رہا ہے۔

سال 2011 میں امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی یو ایس ایڈ کے 159 ملین ڈالر اور حکومت سندھ کے 10 ملین ڈالر کے مالی تعاون سے سندھ بیسک ایجوکیشن کی بنیاد رکھی گئی۔ شمالی سندھ کے سات اضلاع سکھر، خیرپور، لاڑکانہ، دادو، قمبر شہداد کوٹ، جیکب آباد اور کشمور کے ساتھ کراچی کے تین اضلاع، کراچی ملیر، کراچی جنوبی اور کراچی مغرب کے پانچ قصبوں میں جدید خطوط پر استوار 106 اسکولوں کے قیام کی بنیاد رکھی گئی جن کی ترجیحات میں سندھ ایجوکیشن موبلائیزیشن پروگرام، سندھ ریڈنگ پروگرام، سندھ کیپیسٹی ڈیولپمنٹ، مانیٹرنگ اور ایویلیشن، آفس انفراسٹرکچر اور انجینئرنگ شامل ہیں یہ اسکول پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز جیسا کہ HANDS, charter of compassion, TCF, Indus resource center, SRSO and Beacon house کے تعاون سے کوالٹی ایجویشن مہیا کر رہے ہیں۔ ان 106 اسکولوں پر مشتمل پراجیکٹ میں سے 74 اسکولوں کی عمارتیں جدید طرز پر مکمل ہو چکی ہیں۔

ان اسکولوں میں بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جا رہی ہے اور ان اسکولوں کی عمارتوں کو دیکھا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اتنے پسماندہ علاقوں میں اتنے جدید طرز پر عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ یہ عمارتیں بڑی روشن، ہوا دار اور دور جدید کی تمام تر سہولتوں سے آراستہ ہیں۔ بچوں پر بستوں کا اضافی بوجھ نہ پڑے اس کے لیے اسکولوں میں ہی بچوں کو کتابیں، کاپیاں رکھنے کے لیے لاکرز کی سہولت مہیا کی گئی ہے۔

ان اسکولوں میں بڑے بڑے کلاس رومز بہترین فرنیچر سے آراستہ، بڑے بڑے ملٹی پرپز ہال، جدید کمپیوٹر اور سائنس لیبز، بہترین واش رومز کھیلوں کے میدان، معیاری اور معلوماتی کتب پر مشتمل لائبریری موجود ہیں۔ ان اسکولوں میں تعینات کیے جانے والے اساتذہ کو پہلے تعلیمی میدان کے جدید تقاضوں کے مطابق مکمل طور پر ٹرنیڈ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر انجام دے سکیں۔ اس طرح کے پسماندہ علاقوں کے بچوں کو اسکول کی طرف راغب کرنے اور خصوصاً بچیوں کی تعلیم کے لیے ان کے والدین کو راضی کرنے کے لیے بھی ان اسکولوں کے اساتذہ نے اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے۔

یہ اسکول بالکل بین الاقوامی معیار کے اسکول معلوم ہوتے ہیں بس اساتذہ کی کمی جسے مسائل کو اگر حل کر لیا جائے تو مزید بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ان اسکولوں کے حوالے سے یو ایس ایڈ کے ڈائریکٹر سندھ و بلوچستان جیمز پاریز ان اسکولوں کی تعمیر اور کارکردگی سے مطمئن نظر آتے ہیں کہ یہ اسکول باقی اسکولوں کے مقابلے میں بہتر اور معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔

کمیونٹی موبلئیزیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر امجد جمال کی نظر میں تعلیمی میدان میں یہ ایک بہت بڑا اقدام ہے جس کے ثمرات آنے والے وقتوں میں واضح طور نظر آئیں گے۔

پبلک اور پرائیویٹ پارٹنرشپ اور کمیونٹی کی مدد سے جس طرح سندھ کے ان سیلاب زدہ پسماندہ علاقوں میں یہ اسکول کھولے گئے اس طرح اگر پاکستان کے تمام پسماندہ علاقوں میں اسی طرز پر اسکول بنائے جائیں تو ہم اپنے تعلیمی معیار کو بلند کر کے انہیں بین الاقوامی معیار تک پہنچا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments