سیاسی نامزدگیاں کیسے ختم ہوں گی؟


پی ڈی ایم میں استعفوں کے سوال پر پیدا ہونے والے اختلاف کے بعد حکومت کے خلاف تحریک تو تعطل کا شکار ہے البتہ بیانات اور الزامات کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کے رہنما یہ جاننے کی کوشش ضرور کررہے ہیں کہ ملک میں کون کون نامزد رہا ہے اور مستقبل میں کون یہ ’اعزاز‘ حاصل کرنے کی تیاری کررہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے تو ایک بیان میں ’نامزد‘ لفظ ’ایجاد‘ کرنے کا سہرا بھی اپنے سر باندھا ہے۔ گویا اہل پاکستان الزام تراشی کے موسم میں اب مخصوص الفاظ اور اصطلاحات کو پیٹنٹ کروانے کےموسم کا مزہ بھی لے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے جس طرح ایک دوسرے کی درپردہ چال بازیوں کا راز فاش کرنا شروع کیا ہے، اس کے بعد یہ سوال اہم ہوگیا ہے کہ اگر سیاسی لیڈروں کو ایک دوسرے کی نیت کے بارے میں اتنے شبہات ہیں اور ان کا کردار دھوکہ، سودے بازی اور مراعات کے لئے قلابازی تک ہی محدود ہے تو پھر ملک کے عوام کو مستقبل میں ان سے کیا امید رکھنی چاہئے؟ اس ملک نے ان دونوں پارٹیوں کے درمیان نوے کی دہائی میں ہونے والی محاذ آرائی بھگتی ہے اور اس کے نتیجے میں مسلط کی گئی پرویز مشرف کی فوجی حکومت کا سامنا بھی کیا ہے۔ اس تلخ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے نواز شریف اور بےنظیر بھٹو شہید کی قیادت میں دونوں پارٹیوں نے مئی 2006 میں میثاق جمہوریت نام سے ایک معاہدہ پر دستخط بھی کئے تھے تاکہ مستقبل کی سیاست کو ماضی کی آلائشوں سے آلودہ نہ کیا جائے۔
سیاسی منظر نامہ پر بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے رونما ہونے اور ان کے درمیان قائم ہونے والی ورکنگ ریلیشن شپ سے یہ امید ضرور پیدا ہوئی تھی کہ لائحہ عمل و منشور کے اختلاف کے باوجود سیاست دانوں کی یہ نوجوان نسل وسیع تر قومی ایجنڈے کو ترجیح دے گی۔ بلاول بھٹو زرداری اسے عمران خان کی’ نامزدگی‘ کے خلاف جد و جہد کہتے رہے ہیں اور مریم نواز ’ووٹ کو عزت دو‘ کے ماٹو پر ملکی نظام اور سیاست استوار کرنے کی دعویدار رہی ہیں۔ تاہم سینیٹ انتخابات کے بعد پہلے لانگ مارچ و استعفوں کی حکمت عملی اور پھر سینیٹ اپوزیشن لیڈر کے سوال پر ان دونوں پارٹیوں نے اپنے گندے کپڑے جس طرح چوک میں دھونے کا طریقہ اختیار کیا ہے، اس سے اس نوجوان سیاسی قیادت سے وابستہ امیدوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اب یہ واضح ہورہا ہے کہ سیاست دانوں کی نوجوان نسل بھی اپنے والدین کی نسل کا حساب برابر کرنے کے لئے ، ترکہ میں چھوڑے ہوئے انہی کے طریقوں کو اختیار کرنے پر بضد ہے۔
یہ طرز عمل ملک میں جمہوری احیا کے لئے پیدا ہونے والی معمولی سی امید کو ختم کرنے کا سبب بنا ہے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری صرف نسبی تعلق کی وجہ سے اپنی اپنی پارٹیوں کی قیادت کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔ کسی نیم جمہوری طریقہ کے تحت بھی اسے خوشگوار صورت حال قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جمہوری نظام میں سرگرم سیاسی جماعتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہلے اپنی پارٹیوں میں جمہوریت لائیں۔ فیصلے مسلط کرنے کی بجائے، مکالمہ و تبادلہ خیال کے ذریعے اہم قومی امور پر رائے بنانے کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ مالی معاملات کی طرح پارٹی کی قیادت چننے کا طریقہ بھی شفاف اور منصفانہ ہو ۔ اس طریقہ میں بلاول صرف بے نظیر کا بیٹا یا ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہونے اور مریم نواز و حمزہ شہباز، شریف خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے قیادت پر سرفراز نہیں ہوں گے۔ اسی طرح خواہ کسی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ ہو یا انتخاب کے بعد اس کے نتیجہ پر اعتراض اٹھانے کا معاملہ ہو، قیادت پر مسلط افراد کو فیصلے ٹھونسنے کی بجائے پارٹی کے بااختیار فورمز میں غور کے بعد ہی لائحہ عمل طے کیا جائے۔
کسی بھی پارٹی کے ’بااختیار فورمز ‘ کوئی ایسی کمیٹی یا کونسل نہیں ہوسکتی، جن کے ارکان کو پارٹی پر مسلط قائدین نامزد کرتے ہوں۔ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی کیا ہوگی کہ جو پارٹیاں قومی سیاست میں ’نامزدگیوں‘ کو معیوب اور غیرجمہوری قرار دیتی ہیں، وہی اپنی ہی پارٹی میں فیصلے کرتے وقت کسی وفادار ساتھی کی رائے کو بھی اہمیت دینے پر آمادہ نہیں ہوتیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں یہ صورت حال برقرار رکھ کر دراصل جمہوریت کی روح کو ماننے اور اس کے مطابق خود کو ڈھالنے سے انکار کررہی ہیں۔ اس لئے یہ حقیقت باعث حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ اہم قومی معاملات پر فیصلے کرتے ہوئے بھی ذاتی انا، مفاد یا ضرورت غالب رہتی ہے۔ اور اسےسیاسی مہارت یا چال بازی کہہ کر جائز و درست قرار دینے کی روش عام کی گئی ہے۔ ایسی کوششوں کا مطمح نظر ملک میں ٹھوس جمہوری نظام لانے کے خواب کی تکمیل کی بجائے ، موقع ملنے پر اقتدار تک رسائی کا راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر بلند بانگ سیاسی مقاصد کے لئے قائم ہونے والے اتحاد محض کسی عہدہ یا پوزیشن کے تنازعہ پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہ بات اگر تسلیم بھی کرلی جائے کہ عمران خان کو فوج نے شریف خاندان اور پیپلز پارٹی کی دشمنی میں ملکی سیاست میں نمایاں کیا، 2018 کے انتخابات میں ان کی حتمی کامیابی کا راستہ ہموار کیا اور پھر قومی اسمبلی میں چھوٹے بڑے سیاسی گروہوں کو ان کی قیادت میں ’متحد‘ ہونے پر آمادہ کیا۔ لیکن اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جائے گا کہ عمران خان نے عوام میں مقبولیت حاصل کی۔ ان کے طریقوں کو غلط یا نعروں کو گمراہ کن کہا جاسکتا ہے لیکن کوئی جمہوریت پسند شخص ملک میں ان کے پاپولر بیس کی موجودگی سے انکار نہیں کرسکتا۔ مقبول نعرے بلند کرکے عوامی رائے کو سہانے سپنے دکھانا اور حمایت حاصل کرنے کا طریقہ صرف پاکستان میں ہی اختیار نہیں کیا گیا۔ اس وقت دنیا میں اس کی متعدد مثالیں دکھائی دیتی ہیں۔ سب سے اہم مثال سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہے۔ لیکن ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے امریکہ نے اپنے نظام اور عوامی رائے تبدیل کرنے کے طریقہ کو ہی استعمال کیا۔ کوئی بھی دوسرا طریقہ غیر جمہوری ہوتا اور ملک کو فوری طور سے انتشار کا شکار کردیتا۔
جو اپوزیشن عمران خان اور ان کی حکومت سے اپنے جمہوری حق کو تسلیم کرنے، پارلیمنٹ میں اپنی نمائیندگی کو احترام دینے اور مروجہ پارلیمانی طریقہ کے مطابق اہم فیصلوں میں شراکت دار بنانے کا مطالبہ کرتی ہے، اگر وہ تحریک انصاف کی سیاسی اہمیت و نمائیندگی تسلیم کرنے سے انکار کرے گی تو جمہوریت کے نام پر کب تک عوام کو دھوکہ دیا جاسکے گا؟ ایک دوسرے کے وجود اور رائے کو قبول نہ کرنے کا جو رویہ اس وقت قومی سیاسی منظر نامہ پر دکھائی دیتا ہے، اس کا آغاز دراصل اس رویہ سے ہوتا ہے جس میں اپنی بات منوانا ہی حقیقی کامیابی ہے۔ مسائل کی تفہیم اور وسیع تر اتفاق رائے کے مطابق ان کا حل تلاش کرنا، درست طریقہ نہ مانا جاتا ہے اور نہ ہی اسے اختیار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی گروہ ، جماعت، افراد ، امکانات بلکہ ’شارٹ کٹ‘ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جسے یہ شارٹ کٹ مل جاتا ہے، وہ اسے اختیار کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔
شارٹ کٹ کی اسی دوڑ نے ملک میں اسٹبلشمنٹ کو طاقت ور کیا ہے۔ ملک میں اگر اس اصول کے لئے جد و جہد کی جارہی ہے کہ فوج کو آئینی حدود میں رہنا چاہئے اور فیصلوں کا اختیار عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو حاصل ہونا چاہئے تو اس میں کوئی الجھن پیدا نہیں ہوسکتی۔ البتہ یہ نعرے بلند کرتے ہوئے جب ہر گروہ اپنے لئے ’امکانات‘ کی تلاش میں رہے گا اور اسی کو ’حقیقی جمہوریت‘ قرار دے گا تو منزل کا کھوٹا ہونا طے ہے۔ پی ڈی ایم کے اتحاد کی ہنڈیا جس طرح بیچ چوراہے میں پھوٹی ہے، اس سے دو باتیں واضح ہوئی ہیں۔ ایک: اس اتحاد کے لئے ٹھوس ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا بلکہ حکومت گرانے کے لئے مل کر زور لگانے کی کوشش کرنا مقصود تھا۔ یہ کوششیں جب طول پکڑنے لگیں تو سیاسی لیڈروں کا صبر ساتھ چھوڑنے لگا۔ دوئم: جمہوریت کا نعرہ لگانے والی پارٹیاں خود اپنی تنظیموں میں کسی قسم کا انتخابی طریقہ اور فیصلوں تک پہنچنے کے لئے تبادلہ خیال کا راستہ اختیار کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ غیر جمہوری سیاسی پلیٹ فارم سے جمہوریت کی جد و جہد کرنے والوں کی دوڑ مفاد کے حصول تک ہی ہوسکتی ہے۔ ملک کی مختصر سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ اسی سیاسی حرص نے دراصل فوجی قیادت کو قومی معاملات میں غیرمعمولی اختیار تفویض کیا ہے۔
اس وقت یہ صورت حال ہے کہ ملک میں کوئی بھی تجزیہ کار خواہ وہ کتنا ہی غیر جانبدار یا معتدل مزاج ہی کیوں نہ ہو ، اسٹبلشمنٹ ہی کو اصل سیاسی طاقت قرار دیتا ہے ۔ جمہوریت کا طویل سبق پڑھانے کے بعد نتیجہ یہی نکالا جاتا ہے کہ اگر فلاں پارٹی یا لیڈر نے فلاں غلطی کی تو وہ کبھی اقتدار حاصل نہیں کرسکتا کیوں کہ پھر اسے اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہیں ہوسکے گی۔ یہ مزاج منفی ہونے کے باوجود پاکستان کی سیاسی حقیقت کا عکاس ہے۔ ملک کی کتنی سیاسی جماعتوں نے اس مزاج کو تبدیل کرنے کے لئے کام کیا ہے؟ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں سیاست اقتدار حاصل کرنے کے طریقہ کو کہا جاتا، قومی مسائل حل کرنے کے ہنر کو سیاست نہیں کہتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اقتدار پر قابض گروہ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتی ہیں لیکن ان کے پاس کبھی متبادل پروگرام نہیں ہوتا۔
پاکستان کو اس وقت آبادی کی کثرت، ماحولیاتی آلودگی، پانی کی قلت ، معاشی وسائل کی کمیابی، علاقائی کشیدگی ، مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مہیب مسائل کا سامنا ہے۔ اپوزیشن کے کسی لیڈر نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ عمران خان کو ہٹا کر ان مسائل کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے؟ واضح رہے جمہوری تصور اسی وقت پنپ سکے گا جب جمہور کو تحفظ اور شراکت اختیار کا احساس دیا جائے۔ پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ بتاتی ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت ابھی اس اصول کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اسی لئے سیاسی نامزدگیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس کے لئے بھاگ دوڑ بھی ہورہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments