بنگلہ دیش کی آزادی کے 50 سال: خوراک کی قلت کا شکار بنگلہ دیش خود کفیل کیسے بنا؟


بنگلہ دیش سرخ مرچ

جب سنہ 1971 میں بنگلہ دیش وجود میں آیا تو دنیا بھر میں اسے ایک ایسے ملک کے طور پر جانا جاتا تھا جو قدرتی آفات میں گھرا ہوا ہے اور اس کی معیشت انتہائی نازک ہے۔

زیادہ آبادی، کم شرحِ خواندگی، شدید غربت، تھوڑے سے قدرتی وسائل اور نہ ہونے کے برابر صنعتیں ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے ذہن میں سوال یہ تھا کہ کیا بنگلہ دیش ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہ بھی پائے گا یا نہیں۔

اس وقت امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کی ایک تنبیہ بہت مشہور ہوئی تھی کہ ایک آزاد بنگلہ دیش ایک باسکٹ کیس (یعنی ایک ایسا ملک جو اپنے مسائل کو خود نہ حل کر سکے گا) بن جائے گا جو کے مکمل طور پر بیرونی امداد پر منحصر ہوگا۔

مگر آج آزادی کے ٹھیک 50 سال بعد اس ملک کو ایک معاشی کامیابی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تو اس سارے میں ایسا کیا بدلا اور یہ تبدیلی کیسے ممکن ہوئی؟

یہ بھی پڑھیے

قیام بنگلہ دیش کی وجوہات کو پاکستان کے تعلیمی نصاب میں کیسے پیش کیا جاتا ہے؟

کیا معاشی ترقی کی دوڑ میں بنگلہ دیش نے جمہوری روایات کو پیچھے چھوڑ دیا؟

بنگلہ دیش کی آزادی کے 50 سال: ’میرے لیے آزادی کا مطلب کیا ہے؟‘

نور حسین کی وہ تصویر جس نے فوجی آمر کا تخت ہلا دیا

اس ضمن میں بنگلہ دیش کے شہری احسان اللہ کی کہانی ہمیں اس سوال کا جواب جاننے میں مدد کرے گی۔

جب بنگلہ دیش آزاد ہوا تو منشیگانج ضلع کے احسان اللہ 16 سال کے تھے۔ ان کے والد وفات پا چکے تھے اور ان کے پاس کوئی زمین تھی نہ پیسے۔

ایک فارم پر مزدور کے طور پر کام کرتے ہوئے وہ صرف اتنا ہی کما لیتے تھے کہ اپنے گھر والوں کی خوراک پوری کر سکیں۔

چاول

احسان اللہ دوسروں کے کھتیوں میں کام کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے رہے۔ مگر آج وہ اپنے علاقے میں ایک امیر شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

آج وہ 18 ایکڑ پر آلو کاشت کرنے کے علاوہ آلو کے بیجوں کا ایک علیحدہ کاروبار بھی کرتے ہیں جس کے ذریعے کئی اضلاع میں یہ سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

احسان اللہ کہتے ہیں کہ ‘میری کہانی تب شروع ہوئی جب میں نے کاشت کاری کے لیے کچھ پلاٹ کرائے پر لیے۔ اس وقت لوگ صرف چاول، سرسوں، اور گندم اگایا کرتے تھے۔ مگر 80 کی دہائی میں میں نے آلو کی کاشت کاری شروع کر دی۔

‘میں نے نئی قسم کے آلو متعارف کروائے اور جدید کھاد کا استعمال کیا۔ میری پیداوار دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تھی اور منافع بڑھنے لگا تھا۔ میری مالی صورتحال دن بہ دن بہتر ہونے لگی۔’

گذشتہ 50 سالوں میں احسان اللہ نے اپنی مالی صورتحال بدل کر رکھ دی ہے۔ مگر یہ احسان اللہ ہی نہیں پورے ملک کے زرعی شعبے کی کہانی ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں میں بنگلہ دیش کے زرعی سیکٹر میں نئی سے نئی قسم کے بیج متعارف کروائے گئے ہیں۔

سبزیاں

روایتی طور پر چاول، گندم، مکئی، آلو پیدا کرنے والا ملک نئی فصلیں جیسے کہ شملہ مرچ، ڈیگن فروٹ، اور سٹرابیری بھی پیدا کرنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی کسانوں کے حالات بہتر ہوگئے ہیں۔

آج بنگلہ دیش خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہے۔ یہ اس سے بہت مختلف ہے جب آزادی کے وقت بنگلہ دیش میں خوراک کی قلت ہونا عام بات تھی اور یہاں تک کے سنہ 1974 کے قحط میں دس لاکھ افراد مارے گئے تھے۔

معیشت بدلی کیسے؟

آزادی کے وقت کی بنگلہ دیشی معیشت کو دیکھیں تو کچھ چیزیں واضح ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1973-74 میں بنگلہ دیش کی شرحِ پیداوار تین اعشاریہ چھ فیصد تھی اور فی کس آمدنی 129 ڈالر تھی۔ اس دوران غربت کی شرح 60 فیصد تھی اور برآمدات سے بنگلہ دیش کی آمدنی صرف 29 اعشاریہ سات کروڑ ڈالر تھی۔

آج پچاس سال بعد برآمدات کی مد میں بنگلہ دیش اربوں ڈالر کما رہا ہے۔ سنہ 2020 میں بنگلہ دیش نے 39 اعشاریہ چھ ارب ڈالر کمائے تھے۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران جہاں بہت سے ممالک کی معیشتیں سکڑ رہی ہیں بنگلہ دیش میں جی ڈی پی ایک صحت مند پانچ اعشاریہ 24 کی شرح سے بڑھے گا۔

فی کس آمدنی 1970 کی دہائی کے مقابلے میں 18 گنا بڑھ چکی ہے اور 2020 میں یہ دو ہزار ستراں ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ غربت کی شرح 20 اعشاریہ پانچ تک ہو کر رہ گئی ہے۔

ایک ایسا ملک جسے ایک وقت پر ‘باسکٹ کیس’ کہا جا رہا تھا اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2035 تک دنیا کی 25ویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ یہ ملک ترقی پزیر ملک سے ترقی کی راہ پر گامزن ملک بن چکا ہے۔

مونگ پھلی

سنہ 1975 میں اقوامِ متحدہ نے بنگلہ دیش کو کم ترقی یافتہ ترین ممالک کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ ترقی کی راہ پر گامزن ملک قرار پانے کے لیے تین شرائط ہوتی ہیں۔ سنہ 2018 میں بنگلہ دیش نے پہلی مرتبہ یہ تینوں شرائط پوری کیں اور سنہ 2021 میں بنگلہ دیش نے ایک مرتبہ پھر یہ شرائط پوری کی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے معاشی و سماجی امور کے مطابق اگر کوئی ملک ہر تین سال بعد ہونے والے اس جائزے میں دو برابر متواتر یہ شرائط پوری کر پاتا ہے تو اس کم ترین ترقی یافتہ ممالک سے نکال کر ان ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا جاتا ہے جو کہ ترقی کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے بارے میں درجہ بندی میں اس تبدیلی کی تجویز بھیجی جا چکی ہے تاہم ابھی سرکاری اعلان ہونا باقی ہے۔

ان تین شرائط میں سے پہلی فی کس آمدنی کی انڈیکس ہے، دوسرا پیمانہ معاشی استحکام کی انڈیکس جبکہ تیسرا انسانی ترقی (ہیومن ڈویلپمنٹ) کی انڈیکس ہے۔

اقوامِ متحدہ کے معیار پر پورا اترنے کے لیے فی کس آمدنی کم از کم 230 ڈالر ہونا ضروری ہے۔

معاشی استحکام کے لیے 100 میں سے آپ کے 32 سے کم نمبر ہونے چاہییں۔ بنگلہ دیش کا سکور 25 اعشاریہ دو ہے۔ انسانی ترقی کے حوالے سے آپ کا سکور 66 سے زیادہ ہونا چاہیے۔ بنگلہ دیش کا سکور 73 اعشاریہ دو آیا ہے۔

بنگلہ دیش

مگر بنگلہ دیش نے ان پیمانوں میں ترقی کیسے حاصل کی؟

معاشی ترقی کے حوالے سے بنگلہ دیش کی برآمدات سے آمدنی گذشتہ چند دہائیوں سے بڑھ رہی ہے۔ بیرونِ ملک کام کرنے والے بنگلہ دیشیوں کی جانب سے ملک پیسے بھیجنے کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ زراعت اور صنعتیں دونوں میں ترقی ہوئی ہے اور انفراسٹرکچر میں بھی بہتری لائی گئی ہے۔

بنیادی طور پر بنگلہ دیش میں معاشی ترقی لاکھوں لوگوں کے مارجنل سطح پر روزگار لگا ہونا اور پیداوار اور برآمدات میں بہتری کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ابتدا میں زرعی شعبے نے اس میں اہم کردار ادا کیا مگر 1980 کی دہائی کے بعد سے انڈسٹری نے اہم جگہ لے لی ہے۔

خصوصاً ریڈی میڈ گارمنٹ سیکٹر نے روزگار فراہم کرنے اور برآمدات دونوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بنگلہ دیش کی 83 فیصد برآمدات سے منسلک آمدنی اس سیکٹر سے جڑی ہے۔

سلطانہ کی کہانی

گارمنٹس کی صنعت میں لاکھوں لوگ کام کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں۔ سلطانہ ان میں سے ایک ہیں۔ وہ ڈھاکہ کے قریب ایک فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ وہ یہاں چھ سال قبل ملک کے غربت زدہ شمالی علاقے سے آئی تھیں۔

سلطانہ کہتی ہیں کہ گارمنٹ فیکٹری میں کام کرنے سے ان کی فیملی میں غربت ختم ہوئی ہے۔

‘جب میں گاؤں میں تھی تو میرے باپ کے لیے گھر والوں کا پیٹ پالنا ممکن نہیں تھا۔ بعد میں میں ڈھاکہ آئی اور ایک گارمنٹ فیکٹری میں نوکری کر لی۔ سات سال بعد آج میری فیملی ایک اچھی صورتحال میں ہے اور میں انھیں ہر مہینے پیسے بھیجتی ہوں۔ میں نے زمین خریدی ہے، گائے بھینسیں خریدی ہیں اور مستقبل کے لیے پیسے بچائے ہیں۔

سلطانہ کی ایک بیٹی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد اپنی بیٹی کی مستقبل میں تعلیم ہے۔ وہ مستقبل میں اپنے گاؤں بھی لوٹنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ‘میں نے کچھ پیسے بچا لیے ہیں مگر میں کچھ اور سال کام کے لیے مزید پیسے بچانا چاہتی ہوں۔ پھر میں گاؤں جا کر بھینسوں کا فارم بناؤں گی اور ایک دکان کھول لوں گی۔ میں اپنے لیے کچھ کرنے کی کوشش کروں گی۔’

بنگلہ دیش

ہیومن ریسورس انڈیکس

بنگلہ دیش نے معاشی ترقی کے علاوہ انسانی ترقی کے پیمانے پر بھی کافی بہتری دیکھائی ہے۔ بچوں اور ماں کی صحت اس حوالے سے اہم ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1974 میں ملک میں پیدا ہونے والے ہر ہزار بچوں میں سے 153 ہلاک ہو جاتے تھے۔ 2018 میں یہ تعداد صرف 22 رہ گئی تھی۔

1991 میں پانچ سال کی عمر سے کم میں ہی ہلاکت ہونے والوں کی تعداد ہزار میں سے 212 تھی۔ سنہ 2018 میں یہ تعداد 29 ہوگئی تھی۔

1981 میں ماؤں کی ہلاکت کا تناسب چار اعشاریہ چھ فیصد تھا۔ 2018 میں یہ ایک اعشاریہ 79 فیصد رہ گیا تھا۔

بنگلہ دیش میں ناکافی غذائیت کے مسئلے اور ماں کی صحت کے حوالے سے غیر سرکاری تنظیموں اور شعبہ صحت سے منسلک تنظیموں نے بہت کام کیا ہے۔ ان تنظیموں نے دور دراز علاقوں میں آگاہی بڑھانے کے لیے کوششیں کی ہیں اور حکومت کے ساتھ مل کر مالی امداد کی کوششیں بھی کی ہیں۔

بنگلہ دیش کی انسانی ترقی میں بہتری اور مستحکم معاشی ترقی اس طرح ہوئی ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ بیرونی قرضے کے بغیر چل نہیں سکے گا، آج پدما دریا پر تین ارب ڈالر کا ایک پل اپنے وسائل سے بنا رہا ہے۔

سب سے کم ترقی یافتہ ملک سے ترقی کی راہ پر گامزن ملک میں تبدیل ہو جانا شاید ان 50 برسوں میں بنگلہ دیش کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp