فون کال والا بیان کس کا ہے اور کس کے لیے ہے؟
ایران کچھ ممالک کی طرح نہیں ہے جو ایک فون کال پر اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ سے یہ بیان رائٹر نے رپورٹ کیا حوالہ ایرانی سٹیٹ میڈیا کا دیا۔ ایرانی پریس ٹی وی اور مڈل ایسٹ آئی نے بھی ایسے ہی رپورٹ کیا۔
نہ تو یہ جملہ کسی چینی نیوز سائٹ پر موجود ہے۔ نہ ایرانی دفتر خارجہ کی سائٹ پر ایسا کچھ ہے۔ انڈین میڈیا نے اس خبر کو لفٹ نہیں کرائی۔ سعودی میڈیا نے بھی کوئی خاص ذکر نہیں کیا۔ اسرائیلی میڈیا اسے ایران کے لیے مشکل حالات میں بیل آؤٹ بتا رہا ہے۔ امریکی میڈیا نے ضرور اس کو جگہ دی ہے۔ الشرق الاوسط نے بھی اسے ہائی لائٹ کیا ہے۔
روسی سائٹ نے اس خبر کا اچھا جائزہ لیا ہے۔ بتایا ہے کہ چینی وزیر خارجہ مڈل ایسٹ کے دورے پر ہیں۔ ترکی سعودیہ سے ہو کر ایران پہنچے۔ وہاں سے بحرین، یو اے ای اور عمان جائیں گے۔ روسی سائٹ کا کہنا ہے کہ چین ایران معاہدے کے بعد ، ایران کوئی چین کا اتحادی نہیں ہو جائے گا۔ پاکستان اور روس کی طرح رفتہ رفتہ ایک سٹریٹجک اتحادی کا درجہ حاصل کر لے گا۔
چین نیوٹرل رہے گا۔ ایک نیوکلیئر ایران کی حمایت نہیں کرے گا نہ ہی یمن جیسے کسی ایڈونچر کو سپورٹ کرے گا۔ البتہ ایرانیوں کو چین کے ساتھ معاہدے سے کچھ طاقت ضرور حاصل ہو جائے گی۔ چین نے ایران کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی آفر کی ہے۔
اب واپس آتے ہیں چینی وزیر خارجہ سے منسوب بیان کی طرف۔ یہ بیان علی اردشیر لاریجانی کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے رپورٹ ہوا ہے۔ لاریجانی بارہ سال ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر رہے ہیں۔ سابق فوجی ہیں۔
الیکشن انہوں نے اللہ کے فضل و کرم سے قم کے حلقے سے جیتا۔ باقی آپ سب ہوشیار ہیں۔ کوئی کسر باقی ہے تو وہ یوں پوری ہوتی ہے کہ لاریجانی ایرانی رہبر خامینائی کے مشیر ہیں۔
اس سب کچھ سے جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ ایران چین معاہدے کو لے کر ایرانی انٹیلجینشیا میں بہت تنقید ہو رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایران نے بہت کچھ چین کے حوالے کر دیا ہے۔
لاریجانی نے یہ کہہ کر اپنی گوبھیوں کو بتایا ہے کہ ایران کوئی ایسا ویسا ملنگ ہے، وانگ نے خود کہا کہ یہ ایک فون کال پر ڈھیر نہیں ہوتا۔ لڑ مرتا ہے وہ بھی بھوک پر سمجھوتا نہیں کرتا تو یہ بیان ایرانیوں کے اپنے استعمال کے لیے ہے۔
بلاگ کی دم: یار محترم نے غم غصے کا اظہار کیا ہے پورا کالم گھسیٹ کر کے اچھا خاصا اڑتا تیر تھا جو انڈیا کی طرف جا رہا تھا ایران سے اس بیان کی صورت وہ وسی بابے اور اس جیسوں نے پکڑ کر ہم وطنوں کی بغل کی طرف موڑ دیا۔ تو عرض ہے کہ اگر یہ کوئی تیر تھا تو پھر اس نے پرواز ہی نہیں کی وہیں اس کے ساتھ ہمارے برادران ملت اس سے کھیل رہے ہیں۔
اس سب کچھ میں سعودی وزیر کا اک کالم بھی پڑھ لیا جس میں لمبے جائزوں کے علاوہ انہوں نے شیعہ سنی تناؤ میں کمی لانے کی بات کی ہے۔ وہ بھی اس سب کے ساتھ ملا کر ہی پڑھ لیں۔
ایرانی ہم سے یوں آگے ہیں کہ وہ اپنی بات پر کھڑے رہتے ہیں۔ اس کھڑے رہنے پر اک لطیفہ پھر کبھی۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).