میرا بچہ منفرد ہے


آج کی تحریر میرے لیے مشکل ہے۔ جب انسان اپنے دکھ کے بارے میں لکھتا ہے تو الفاظ کا چناؤ بہت سلیقے سے کرنا پڑتا ہے، وگرنہ لوگ ہمدردی کی بھیک کاسۂ دل میں ڈال دیتے ہیں۔ اور یہ ادراک نہیں کر پاتے کہ ہر دکھ ہمدردی سمیٹنے کے لیے ظاہر نہیں کیا جاتا، کچھ زخموں کی نمائش دوسروں کی تسلی اور حوصلہ افزائی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

پانچ سال قبل وفاقی دارالحکومت میں وہ مارچ کا ہی ایک خوبصورت دن تھا۔ چیری بلاسم جوبن پر تھا۔ اور موسم کسی طبیعت شناس محبوب کی طرح کبھی نرمی تو کبھی گرمی دکھا رہا تھا۔ غرض وہ دن جو کسی کے لیے بھی خوبصورت ہو سکتا تھا، سوائے ہمارے!

اپنے بیٹے سے تمام تر محبت کرنے اور تعلیمیافتہ ہونے کے باوجود ہم حقیقت سے نظریں چرا رہے تھے۔ ہم پر ہی کیا موقوف، ڈاکٹرز بھی اس کے بارے میں قطعی رائے نہیں دے رہے تھے۔ اور یہ کوئی گلی محلے کے ڈاکٹر نہیں دو بڑے نجی ہسپتالوں میں بچوں کے مشہور و معروف ڈاکٹر تھے۔ اور پھر زخموں پر نمک پاشی یہ کہہ کر کہ اس کے مسائل کی ذمہ دار میں، یعنی کہ اس کی ماں ہوں۔

میں بھی مجرم بن کر اس معاشرے کے باقی تمام افراد کی طرح خود کو دلاسے اور تسلیاں دینا چاہتی تھی اور اس حقیقت کو جھٹلا رہی تھی، جو پچھلے ایک سال سے میرے سامنے اپنی تمام تر سچائی کے ساتھ کھڑی قبولیت کی متقاضی تھی۔ کسی مسئلے کے وجود سے انکاری ہو کر اسے حل نہیں کیا جاسکتا!

میرا بیٹا ڈھائی سال تک مجھے ماں، اماں یا ماما کہہ کر بلا نہیں پایا۔ اسے کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو وہ صرف روتا تھا۔ نہ اسے اشارہ کرنا آتا تھا نہ ہی کوئی چیز مانگنا۔ اسے اس وقت، یعنی ڈھائی سال کی عمر میں لوگوں سے خاص طور پہ بچوں سے گھلنا ملنا پسند نہیں تھا۔ اسے مجمع پسند نہیں تھا۔ وہ اپنی ہی دنیا میں رہتا تھا جس میں اعداد، اشکال اور حروف تھے۔

بیرون ملک سے جب میں واپس پاکستان آئی تو پڑھے لکھے لوگوں سے، اور کچھ ڈاکٹرز سے اس قسم کے تبصرے سننے کو ملے کہ میرا بیٹا میری وجہ سے ایسا ہو گیا ہے، کیونکہ میں نے اس سے بات ہی نہیں کی، لہٰذا وہ بولتا نہیں۔ یا میں نے اسے کمپیوٹر اور موبائل ہاتھ میں دے کر ایسا کر دیا ہے۔ تو افسوس ضرور ہوتا تھا۔

2 سال کے بچے کے لیے یہ غیر معمولی بات تھی کہ وہ شکلوں، رنگوں، اعداد، اردو عربی اور انگریزی حروف تہجی، جانوروں، سبزیوں اور پھلوں کے نام بیک وقت اردو عربی اور انگریزی میں جانتا تھا اور انھیں پہچان بھی سکتا تھا۔ اور یہ سب اسنے ہم سے اور اسکرین سے ہی سیکھا تھا۔ لیکن وہ نہیں سیکھ پاتا تھا تو بات کرنا۔

مختصراً یہ کہ میرا پیارا (اور اس وقت اکلوتا) بیٹا اوٹسٹک (Autistic ) تھا۔

اس بڑے ہسپتال کے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ نے آخر میرے بیٹے کے پرچے پر وہ 3 حروف لکھ دیے جن سے میں اس طرح بھاگ رہی تھی گویا وہ آسیب ہوں۔

پچھلے ایک سال میں ASD یعنی اوٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر (Autism spectrum disorder ) کے بارے میں بہت پڑھ چکی تھی اور بہت معلومات رکھتی تھی لیکن میں طبیب نہیں تھی، ایک خوفزدہ ماں تھی۔ جس کے بیٹے کو ایک ایسے معاشرے میں رہنا تھا جہاں آنکھ میں ذرا سا ٹیڑھ رکھنے والے کو ”کانا“ ، ہر پاؤں ٹیڑھا رکھنے والے کو لنگڑا، کم بولنے والے کو بیوقوف اور اکیلا رہنے والے کو پاگل کہا جاتا ہے۔ جہاں کے وزیروں اور مشیروں کے نزدیک اپاہج یا خصوصی توجہ کے مستحق بچے آزمائش نہیں، قہر خداوندی تصور کیے جاتے ہیں۔ مجھے اس وقت یہ تسلیم کرنے میں عار تھی کہ میرا بیٹے کا دماغ عام انسانوں سے مختلف تھا۔ وہ پاگل نہیں تھا، منفرد تھا!

خدا کا شکر ہے کہ اب ایسا نہیں!

چونکہ ہر سال اپریل کے مہینے کو پوری دنیا میں اوٹزم آگاہی مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے لہٰذا میں ایک ماں کی نظر سے اوٹزم کے حوالے سے جتنی معلومات اکٹھی کر سکی ہوں آج وہ قلم بند کرنا چاہتی ہوں، تاکہ عوام الناس کو خصوصاً والدین کو اس بارے میں آگاہی حاصل ہو سکے۔ میری کوشش ہے کے زیادہ سے زیادہ معلومات کا اردو ترجمہ کرسکوں، لیکن بعض سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ڈھونڈا مشکل کام تھا۔ لہٰذا انگریزی الفاظ کے استعمال پہ میری پیشگی معذرت قبول کیجیے۔

اگر آپ نے ”لائٹ اٹ اپ بلیو“ ”Light it up blue“ کا نعرہ کہیں دیکھا ہو تو یہ اوٹزم کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے۔

لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں اوٹزم کی شرح کئی گنا زیادہ ہے اسی لیے نیلے رنگ کو اس کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ اوٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر کو عام لوگوں یعنی ”نیورو ٹپیکل“ لوگوں کی زبان میں Neuro-Developmental disorder یعنی ”اعصابی خرابی“ کے طور پر تعریف کیا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اوٹسٹک لوگ (اور مصنف) اس تعریف کو کچھ خاص پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا میں اس مضمون میں اوٹزم کو خرابی یا بیماری کے بجائے اعصابی بے ترتیبی قرار دوں گی۔

اسے ”سپیکٹرم“ (طیف) اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مختلف علامات کا مجموعہ ہے۔ ان علامات میں بول چال میں دشواری، دماغ اور اعصاب میں غیرمطابقت اور بے ربطگی، معاشرتی تعلقات میں دشواری اور کسی بھی حرکت کی بار بار تکرار شامل ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر اوٹسٹک فرد میں یہ تمام علامات ظاہر ہوں۔ ہر اوٹسٹک انسان دوسرے سے منفرد ہوتا ہے۔ آٹزم بیماریوں کی شدت کی طرح کم یا زیادہ نہیں ہو سکتا۔ ہاں البتہ بعض آٹسٹک افراد دوسروں کے مقابلے میں معاشرے میں زیادہ فعال ہونا سیکھ جاتے ہیں۔ اور کچھ عمر بھر معمول کی زندگی گزارنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔

کچھ لوگ آٹزم کے ساتھ غیر معمولی صلاحیتوں کو وابستہ کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ بعض اوٹسٹک افراد غیر معمولی ذہانت، یادداشت یا دیگر صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن اکثریت کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں۔ آٹزم کی باقاعدہ تشخیص انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں ممکن ہو سکی، لہذا اس بارے میں کوئی حتمی رائے تو نہیں دی جا سکتی لیکن بعض محقق مشہور موسیقاروں موزارٹ اور سیویج کو آٹسٹک کہتے ہیں۔ کئی مشہور سائنسدانوں، جن میں اینڈرسن اور نیوٹن شامل ہیں، کے بارے میں یہ رائے ملتی ہے کہ وہ آٹسٹک تھے۔ یہ آراء ان کی ذاتی زندگی، محدود معاشرتی تعلقات اور کام میں انہماک کی وجہ سے مستند بھی معلوم ہوتی ہیں۔ بعض اوقات آئنسٹائن کا نام بھی اس زمرے میں لیا جاتا ہے، کیونکہ وہ پانچ سال کی عمر تک بول نہیں پائے، لیکن کچھ ماہرین اس رائے سے اس لیے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ آئنسٹان کے سماجی تعلقات بہتر تھے۔

آٹسٹک لوگوں کے دماغ کی نشو نما پیدائشی طور پر عام لوگوں کی طرح نہیں ہو تی۔ ان کے دماغ کے بعض حصے عام لوگوں کی طرح کام کرتے ہیں، تو کچھ حصے ان کے مقابلے میں زیادہ، لیکن بنیادی فرق معلومات کی ترسیل اور تشریح کے عمل میں ہوتا ہے۔ یعنی دماغ کے خلیات میں آنے والی معلومات کس طرح آگے بڑھی، اور کیا رد عمل آتا ہے، وہ عام لوگوں کے مقابلے میں مختلف ہوتا ہے۔

اوٹزم کی وجوہات کا تعین کرنے میں آج تک ڈاکٹرز اور سائنسدان کامیاب نہیں ہو سکے۔ ما سوائے اس کے کہ اس کا تعلق جینز (وراثت) سے ہے۔

اس حوالے سے متفرق سنی سنائی کہانیاں اور نظریات تو موجود ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ شہرت اوٹزم اور حفاظتی ٹیکوں (vaccines) کی تھیوری کو ملی، لیکن اس میں سے کوئی تعلق آج تک سائنسی بنیادوں پر ثابت نہیں ہوسکا۔

اوٹزم کی علامات 18 سے 24 ماہ کے دوران ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں کیونکہ اسی دوران بچوں کی زبان اور اظہار و بیان (communication skills) کی صلاحیتوں کا ظہور ہوتا ہے۔ لیکن زیادہ فعال افراد میں بعض اوقات کئی سال اور بعض اوقات تا عمر اس کی تشخیص نہیں ہو پاتی۔

اوٹزم کی تشخیص کے لئے کوئی مخصوص ٹیسٹ یا آلات نہیں جس سے اس کا حتمی تعین ہو سکے لہٰذا پیشہ ور ماہرین اپنے مشاہدے اور تجزیے سے اس کی تشخیص کرتے ہیں۔ والدین سے سوالنامے پر کروائے جاتے ہیں اور بچے کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد نفسیاتی ماہرین اس کی تشخیص اور درجہ بندی کرتے ہیں اور پھر علاج ترتیب دیتے ہیں۔ جس میں behavioral therapy (رویوں سے متعلق مشق ) اور speech therapy (تقریری مشق ) وغیرہ شامل ہیں۔

اوٹسٹک بچے بولتے ضرور ہیں لیکن بات نہیں کرتے۔ یعنی یک طرفہ طور پر بہت کچھ کہہ سکتے ہیں جو ضروری نہیں کہ بامعنی ہو، لیکن لفظوں کا باہمی تبادلہ نہیں کرتے۔

لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ محسوس نہیں کر سکتے یا سمجھتے نہیں، یا آپ ان کے ساتھ حیوانات والا سلوک روا رکھیں اور وہ چپ رہیں گے۔ وہ سب کچھ سنتے اور سمجھتے ہوئے بھی جواب نہیں دے پاتے۔

اشارے کی سمت میں نہ دیکھنا اور اشارہ نہ کر پانا، مخاطب سے نظریں نہ ملانا اور اکیلے رہنا بھی اوٹسٹک بچوں کا خاص رویہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments