درویش کی کٹیا، زرتشت اور گاتھاز


مجھے نوجوانی کا وہ دور اچھی طرح یاد ہے جب میں اپنی محبوب کتابوں کے عشق میں گرفتار ہو گیا تھا۔ میں پشاور صدر کی آرٹس کونسل کی لائبریری میں باقاعدگی سے جاتا اور ہر ہفتے دو چار کتابیں لے آتا۔ جب وہ کتابیں واپس کرنے جاتا تو چند اور کتابیں لے آتا۔ ہر کتاب پر خفیہ نشان لگاتا تا کہ پتہ چلے کہ میں نے کون سی کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ ہر دفعہ لائبریری کے کسی اور حصے کے شیلف سے کتابیں لیتا

کبھی ادب کبھی فلسفے کے شیلف سے
کبھی مذہب کبھی روحانیات کے شیلف سے
کبھی نفسیات کبھی سماجیات کے شیلف سے
کبھی شاعری کبھی افسانوں کے شیلف سے

یہ وہ دور تھا جب میرا میر اور غالب، فیض اور فراز، منٹو اور عصمت، مودودی اور پرویز، مارکس اور ماؤ، فرائڈ اور ینگ کی کتابوں سے تعارف ہوا۔ ان دنوں میں اپنے گھر سے زیادہ وقت لائبریری میں گزارتا۔ کئی برسوں بعد جب ارجنٹینا کے لکھاری بورخیز سے تعارف ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میرا جنت کا تصور باغ نہیں لائبریری ہے۔

کتابوں سے عشق وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا گیا۔

اب جبکہ بالوں میں چاندی اتر آئی ہے اور زندگی کی شام آ گئی ہے تو اندازہ ہوا کہ میرا آخری عشق بھی پہلے عشق کی طرح کتابیں ہی ہیں۔ کتابیں پڑھنا بھی اور کتابیں لکھنا بھی۔ میری ایک غزل کے چار اشعار ہیں

؎ ہ
ماری ذات کے جب در کھلے ہیں
کبھی اندر کبھی باہر کھلے ہیں
ہمارے گھر میں وہ اپنائیت ہے
یہاں آ کر کئی بے گھر کھلے ہیں
بظاہر جو بہت ہی کم سخن تھے
کتابوں میں مگر جوہر کھلے ہیں
جو بالوں میں سفیدی آ گئی ہے
تو پھر جا کر کہیں خود پر کھلے ہیں

چار سال پیشتر جب میں نے اپنا بڑا گھر بیچا، جس کی بیسمنٹ کی لائبریری میں دو ہزار کتابیں تھیں، اور درویش اپنی کٹیا میں آ گیا تو جگہ کی کمی کی وجہ سے میں اپنے ساتھ صرف دو سو کتابیں لا سکا۔ باقی کتابیں یا دوستوں کو یا لائبریریوں کو تحفے کے طور پر دے دیں۔

اگر آپ کبھی درویش کی کٹیا میں مہمان بنیں گے تو آپ کو نہ صرف گرم چائے ملے گی بلکہ وہ منظر بھی دکھائی دے گا کہ چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں ہیں۔

چند کتابیں میزوں پر چند کرسیوں پر
چند کتابیں لونگ روم میں چند بیڈ روم میں
چند شیلفوں میں اور چند قالینوں پر پہاڑیوں کی صورت میں ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہی ہیں۔

یہ میری خوش بختی ہے کہ کووڈ وبا کی وجہ سے جہاں بہت سے لوگ احساس تنہائی کا شکار ہیں مجھے پچھلے چار ہزار برسوں کے دو سو شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی قربت میسر ہے۔ یہ ان کتابوں اور دانشوروں کی صحبت کا ہی ثمر ہے کہ میں نے لکھا تھا کہ خاموشی، تنہائی اور دانائی پرانی سہیلیاں ہیں۔

چونکہ آپ کا درویش کی کٹیا میں مہمان بننا ناممکن نہ سہی دشوار ضرور ہے اس لیے میں نے سوچا کہ میں آپ کا ان کتابوں اور دانشوروں سے مختصر تعارف کرواؤں جن کے ساتھ میں صبح و شام ہمکلام رہتا ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ کو بھی اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری بنانے کا شوق ہو اور ایک دن آپ کے بچے اور بچیاں بھی ان کتابوں سے استفادہ کر سکیں۔

اس لیے میں نے آج آپ کے لیے جس پہلی کتاب کا انتخاب کیا اس کا نام گاتھاز ہے اور جس دانشور کا نام چنا ہے وہ زرتشت ہیں۔

انسانی تاریخ اور مذاہب عالم کے بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ زرتشت وہ پہلے انسان تھے جنہوں نے آج سے چار ہزار سال پیشتر

ایک خدا MONOTHEISM۔
قیامت۔ DAY OF JUDGMENT۔
نیکی بدی۔ SIN AND VIRTUE۔
اور
جنت دوزخ۔ HEAVEN AND HELL۔
کا تصور پیش کیا تھا۔

میرے سامنے جو گاتھاز کی کتاب موجود ہے اسے خسرو خازائی پردیس نے مرتب کیا ہے اور ایرانی پیغمبر زرتشت کی زندگی اور گاتھاز کی تاریخ کے حوالے سے تفصیلی دیباچہ بھی لکھا ہے۔

جب ہم زرتشت کی سوانح کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک ذہین بچے اور قابل نوجوان تھے۔ وہ زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے غور و خوض کیا کرتے تھے۔ وہ انسانیت کے مستقبل کے بارے میں فکرمند رہتے تھے اور بہت سا وقت زندگی کے راز جاننے میں صرف کرتے تھے۔

جب زرتشت کی عمر تیس برس ہوئی تو انہوں نے دعوی کیا کہ انہیں خدا کی طرف سے وحی ہوتی ہے۔ زرتشت نے اپنے خدا کو ”آہورا مزدا“ کا نام دیا۔ جس کے معنی تھے دانائی کا خدا۔

زرتشت نے فرمایا کہ انہیں دانائی کے خدا نے کہا ہے کہ
میں تمہیں ایسا علم دینا چاہتا ہوں
جو اس سے پہلے
میں نے کسی کو نہیں دیا تھا
اس علم میں زندگی کے راز مضمر ہیں۔
اس وحی میں انسانوں کے لیے چند احکام ہیں

جو انسان ان پر عمل کریں گے وہ اس دنیا میں بھی سکھی رہیں گے اور مرنے کے بعد بھی جنت میں جائیں گے۔ جو ان احکام کی نافرمانی کریں گے وہ اس دنیا میں بھی دکھی ہوں گے اور مرنے کے بعد بھی دوزخ میں جائیں گے۔

زرتشت کا الہام اور پیغام ایران کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں بھی بہت مقبول ہوا۔ ہمیں یہودیت عیسائیت اور اسلام کی روایات میں زرتشت کے فرمودات کی گونج سنائی دیتی ہے۔

زرتشت نے اپنے پیغام میں یہ راز بتایا کہ
آہورا مزدا خدا نے کہا ہے کہ
اس دنیا میں وہ انسان خوش رہیں گے
جو دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گے۔
زرتشت نے یہ بھی فرمایا کہ وہ انسان جو
اچھا سوچتے ہیں
اچھی باتیں کرتے ہیں
اور اچھے اعمال کرتے ہیں
وہ سکھی رہتے ہیں۔

زرتشت اپنے پیروکاروں کو مشورہ دیتے تھے کہ وہ ان سے سوال کریں تا کہ وہ انہیں جواب دے سکیں کیونکہ ان کی نگاہ میں مکالمہ دانائی تک پہنچنے کا ایک احسن راستہ ہے۔

زرتشت نے یہ بھی فرمایا کہ نیک انسان صرف دوسرے انسانوں کا ہی نہیں جانوروں، پرندوں، مچھلیوں اور پودوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔

زرتشت نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ
ہر انسان کے سامنے دو راستے ہیں
سچ کا راستہ
اور
جھوٹ کا راستہ
اور ہر انسان کو اختیار ہے
کہ وہ کس راستے کا چناؤ کرتا ہے۔

اگر کوئی دوست مجھ سے پوچھے کہ زرتشت اور گاتھاز کی وہ کون سی دانائی کی بات ہے جسے میں نے اپنے دل کی گہرائی میں بڑے احترام اور اہتمام سے سنبھال کر رکھ لیا ہے تو میں کہوں گا کہ وہ فرماتے ہیں

HAPPINESS IS FOR THE ONE
WHO MAKES OTHERS HAPPY
اسی خدمت خلق میں انسانی خوشحالی، کامیابی اور سکون کا راز مضمر ہے۔

انسان دوست ہونے کے ناتے میں سمجھتا ہوں کہ انسانی ارتقا کا راز یہ ہے کہ ہم سب رنگ، نسل، مذہب اور زبان سے بالاتر ہو کر یہ سمجھیں اور جانیں کہ ہماری بنیادی شناخت انسان ہونا ہے۔ ساری دنیا کے انسان ایک دوسرے کے دور کے رشتہ دار ہیں کیونکہ ہم سب دھرتی ماں کے بچے ہیں۔

اکیسویں صدی میں زندگی گزارنے والے انسان ہونے کے ناتے میں سمجھتا ہوں کہ میں پچھلی تمام صدیوں کی تمام تر دانائی کی روایات کا وارث ہوں۔

میں اپنے آپ کو زندگی کا ایک سنجیدہ طالب علم سمجھتا ہوں۔ مجھے دانائی کی بات جہاں بھی ملے میں اسے گلے لگا لیتا ہوں۔

اگر آپ کو درویش کی کٹیا کی چاروں طرف بکھری لائبریری کی پہلی کتاب کا تعارف پسند آیا تو میں آپ کا آئندہ دیگر کتابوں اور دانشوروں سے بھی تعارف کرواتا رہوں گا۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments