سندھ ہائی کورٹ سکھر کے سینئر جج صاحب کو راکٹ لانچر سے قتل کرنے کی دھمکی کس نے دی؟


کل سندھ ہائی کورٹ سکھر میں سینئر جج جناب جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے بھری عدالت، پیپلز پارٹی کے کے وکیلوں فاروق اے نائک اور ضیا لنجار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کے ایک وزیر ان کو راکٹ لانچر سے مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں جبکہ ایک اور وزیر ان کی تنخواہ بند کرانے کی باتیں کر رہے ہیں، اس کو یہ بھی پتہ نہیں کہ میں سندھ حکومت کا ملازم نہیں ہوں۔ جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے بلند آواز میں یہاں تک کہہ دیا کہ میں لاڑکانہ میں ان کے گھروں کے سامنے سے گزرتا ہوں جس کو مارنا ہے راکٹ مارنے کا شوق پورا کرے باقی عدالت سندھ حکومت کی مرضی سے نہیں چلے گی۔

یہ ساری گفتگو مشہور، کتا مار کیس کے سلسلے میں آج کی شنوائی پر ہوئی۔ کچھ دن پہلے، اس کیس میں جسٹس آفتاب احمد گورڑ اور جسٹس فہیم احمد صدیقی نے، سندھ میں کتوں کے کاٹنے سے مرنے والے بچوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر ایک آئینی درخواست کے سلسلے میں اپنی اس وارننگ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایم پی ای فریال ٹالپر اور ایم پی ای گیان چند کی ایم پی ای شپ معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس حکم پر سندھ حکومت نے احتجاج کرتے ہوئے ایڈوکیٹ جنرل سندھ کے توسط سے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ایک درخواست جمع کروائی تھی کہ جسٹس آفتاب احمد گورڑ صاحب کا یہ حکم غیر قانونی ہے اور آئندہ سندھ کا کوئی سرکاری ملازم ان کی عدالت میں پیش نہیں ہوگا۔

سندھ حکومت اور ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو تو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ ان کی یہ درخواست غیر قانونی اور غیر آئینی ہے کیونکہ، آئین کی شق 199 کے تحت ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جب مفاد عامہ کو کسی بھی متعلقہ فورم سے رلیف نہ ملے تو عدالت اس معاملے میں اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ، کاٹیں کتے؟ کام میونسپلٹیوں کا، پھر ایم پی ایز معطل کیوں ہوں؟ حکومت سندھ کے حامی صحافیوں اور اہل قلم نے یہ سوال اٹھایا ہے۔ مگر یہ سوال اٹھاتے ہوئے وہ اس کیس کی مکمل تفصیل سے بالکل نا آشنا رہے ہیں۔

اصل میں کاٹیں کتے، کام میونسپلٹیوں کا، پھر ایم پی ایز معطل کیوں ہوں؟ کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ سندھ میں ایم پی ایز اپنے اپنے علاقے میں ہر سرکاری آفس کے سیاہ اور سفید کے مالک ہیں اس لیے وہ ہی اپنے علاقوں کے ذمے دار بھی ہیں، مگر اس سے ہٹ کر بھی مگر اس فیصلے کا ایک مکمل بیک گراؤنڈ ہے۔ یہ کیس کئی سالوں سے اسی عدالت میں چل رہا ہے، مختلف وقتوں پر مختلف جسٹس صاحبان کے بینچ میونسپلٹیوں، ضلعی انتظامیہ، سندھ حکومت کے سیکریٹری سطح کے افسران کو بلا کر ہدایتیں دیتے رہے، مختلف عدالتی حکم نکلتے رہے مگر نتیجہ صفر ہی رہا۔

بیورو کریسی اور سرکاری ملازمین عدالت کو گمراہ کرتے رہے اور دبے لفظوں بتاتے رہے کہ ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نھیں، پورے کا پورا میونسپل نظام ایم پی ایز چلا رہے ہیں، ان کے پاس تو زہر کے بجٹ کے پیسے بھی نہیں بچتے۔ اصل میں یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں ہر دفتر، ہر محکمہ اور خاص کر میونسپلٹیوں کا نظام مکمل طور پر مقامی ایم پی اے، ایم این اے کے ہاتھ میں ہے۔ ایک جھاڑو دینے والے جمعدار سے لے کر 20 گریڈ تک کے افسر کی پوسٹنگ، تبادلہ، اختیار سب ان کے پاس ہے، بجٹ ہو یا ٹھیکے، ترقیاتی کام ہو یا گٹر بنانے کا کام، یہ لوگ ہر چیز کے سیاہ اور سفید کے مالک ہیں جبکہ قانونا یہ ان کا حق بالکل نہیں۔

ان کا کام قانون سازی ہے مگر یہ لوگ سندھ کے ہر چھوٹے بڑے شہر کے انتظامی اور مالی معاملات کے سیاہ اور سفید کے مالک ہیں۔ اس لیے جب یہ سندھ کے میونسپل کے مالک ہیں تو پھر ذمے داری بھی ان ہی پر عائد ہوتی ہے۔ ہائی کورٹ جیسا بڑا عدالتی ادارہ تین سال سے ہر شنوائی پر کھتا رہا کہ اس معاملے کو حل کیا جائے، کیونکہ کتے سندھ کے ہر شہر و گاؤں میں معصوم بچوں کو نوچ نوچ کر مار رہے ہیں مگر جواب ہمیشہ مایوس کن رہا اور عدالت میں بات یہاں تک آئی کہ ان اداروں کے پاس تو کتے مارنے کا بجٹ بھی نہیں چھوڑا جاتا، وہ بھی اوپر اوپر سے اڑا لیا جاتا ہے۔

اس پر آخر کار جسٹس آفتاب احمد گورڑ اور جسٹس فہیم احمد صدیقی کی ڈبل بینچ نے سندھ میں ایم پی ایز کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں اس سنگین معاملے کی نظر داری کریں ورنہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی، مگر عدالت کا یہ حکم بھی ہوا میں اڑا دیا گیا جس کے کچھ عرصے بعد سندھ میں جن حلقوں میں کتوں کے نوچنے سے سب سے زیادہ بچے جاں بحق ہوئے ان حلقوں کے ایم پی ایز لاڑکانہ سے فریال ٹالپر اور جام شورو سے گیان چند کو معطل کرنے کے احکامات عدالت نے جاری کیے۔

جس کو پہلے تو ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت ہی میں چیلنج کیا پھر ان کو اس معاملے کے قانونی نقاط سمجھ میں آئے تو جلد ہی وہ درخواست واپس لے لی اور اب یہ نئی بات سامنے آئی ہے کہ جسٹس صاحب کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اصل میں سندھ ہائی کورٹ سکھر میں سینئر جج جناب جسٹس آفتاب احمد گورڑ صاحب کی عدالت نے مفاد عامہ کے کیسز میں عوام کے حق میں کافی فیصلے دیے ہیں جس پر سندھ حکومت اور نوکر شاہی پہلے ہی ان سے نالاں ہیں۔

انکروچمنٹ مافیا کے خلاف فیصلے جس میں سندھ حکومت کے وزیروں تک کے بنگلے ڈھا دیے گئے جو سرکاری زمین پر قبضہ کر کے بنائے گئے تھے۔ قبرستانوں پر قبضے ختم کروانے، اسپتالوں کی حالت زار، پارکوں پر قبضے، ہزاروں بے پہنچ لوگوں کی روکی گئی پینشن کو ارجنٹ بنیاد پر حل کروانا ان کے ایسے فیصلے ہیں جن سے سندھ حکومت کے وزیروں کو تکلیف ہے۔ جبکہ سکھر لیول پر ہائی کورٹ کی اسی بینچ نے سکھر نمائش گراؤنڈ کو بحال کرانے، لب مہران پارک سے ایک صوبائی وزیر کے غیر قانونی بار بی کیو ہوٹل ختم کروانے، اربوں روپے کی پراپرٹی فور اسٹار ہوٹل انٹر پاک ان کی لیز کینسل کرنے جو کہ صرف ایک سو روپیہ ماہوار پر سالوں سے پرائیویٹ پارٹی کو الاٹ کیا گیا تھا، شہر کے مرکز میں واقع غازی عبدالرشید پارک جس کا قبضہ بھی حال ہی میں واپس لیا گیا ہے اور جو جنرل ضیا نے ایک مذہبی گروپ کو الاٹ کیا تھا جو اس پر فرنیچر مارکیٹ بنا کر کروڑوں روپے کما چکے، اس پارک کی بحیثیت پارک فوری بحالی کا حکم دینے، سکھر بیراج سے نکلنے والے کینالز کی بیچ ولی زمین جو کہ سینکڑوں کینال ہے پر سے قبظہ ختم کروانے اور وہاں پر اربن اوریسٹ بنانے کا حکم دینے اور اس کے علاوہ کئی مفاد عامہ کے فیصلے اسی ڈبل بینچ نے دیے ہیں جس کی سربراہی جسٹس آفتاب احمد گورڑ کر رہے ہیں، تو ظاہر ہے یہ باتیں ان زمینی خداؤں سے کیسے ہضم ہوں گی۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اب ان جسٹس صاحب کو ڈائریکٹ دھمکیاں دی گئی ہیں۔ اب یہ پاکستان اور سندھ کے چیف جسٹس صاحبان کی ذمے داری ہے کہ وہ جسٹس صاحب کو دھمکیاں دینے والے صوبائی وزیروں کو قانون کے شکنجے میں لائیں۔ بار ایسوسی ایشنز کو بھی چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور اعلی عدالت کے جج صاحب کو سنگین دھمکیاں دینے والوں کی گرفتاری کا مطالبہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments