مودی کا خط اور کرشن چندر کا ”غدار“


حسین اتفاق کی طرف جانے سے پہلے میں یہ بتا دینا مناسب خیال کرتا ہوں کہ ہم بہت ہی کوئی جذباتی قسم کی قوم ہیں۔ ہمارے ہاں ایک چٹکلا بولا جاتا ہے کہ ”آپ بس کھڑے ہونے کی اجازت دیں بیٹھنے کی جگہ ہم خود بنا لیں گے“ مودی کا خط آیا نہیں کہ ہم پاک بھارت مذاکرات سے ہوتے ہوئے کرکٹ میچ تک طے کر بیٹھے، اور کچھ ذرائع تو بھارتی کرکٹ لیگ (آئی، پی ایل) میں پاکستان کے کھلاڑیوں کی شمولیت کی خبر بھی دے رہے تھے، یہ وہی بات ہو گئی کہ کسی نے ہاتھ دکھایا ہو اور ہم نے پورا بازو ہی کھینچ لیا، آب آتے ہیں حسین حقانی کی طرف نہیں نہیں معاف کرنا حسین اتفاق کی طرف ہوا یوں کہ جب یہ پیار بھرا خط سرحد پار کر رہا تھا اس وقت میں کرشن چندر کا ناول ”غدار“ ہاتھ میں لئے سن 47 کی ہجرت میں کھویا ہوا تھا۔

کرشن چندر نے ”غدار“ آزادی کے بعد لکھا جب انہیں یہ معلوم ہو چکا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک نفرت ختم نہیں ہوتی، یہ نفرت کا بیج ہمارے اندر انگریزوں نے بویا، کچھ مذہبی جماعتوں نے بویا اور کچھ دھرتی ماں پر ڈالی گئی خاردار لکیروں نے بویا، چند لوگ سرحد کے اس پار سے نفرت کے کھیت میں بیج ہوتے ہیں تو کچھ ہمارے ہاں سرحد کے اس بار نفرت کے کھیت میں ہل چلاتے ہیں، اور فصل پھر ہمیں اجتماعی طور پر کاٹنی پڑتی ہے۔

یہ نفرت ہمیں آبا و اجداد سے وراثت میں ملتی ہے، بھارت کے وڈیرے اپنی جد اولاد کے دل میں پاکستان کے لئے نفرت کی آگ جلاتے ہیں اور ہمارے ہاں ہمارے وڈیرے ہمیں بھارت کے خلاف اکساتے ہیں، ہم بچپن سے ہی ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے لگ پڑتے تھے، اور جنگوں کی فلمیں بڑی شوق سے دیکھا کرتے تھے، آج جب کچھ عقل آئی تو معلوم ہوا کہ جنگیں جیتی اور ہاری نہیں جاتیں، قوم بڑی خوشی سے جنگوں کی کہانیاں سنتی ہے کبھی اس کے بعد ہونے والی تباہی کی داستانیں بھی سن کر دیکھیں، معلوم ہو گا کہ ہم جیت کر بھی ہار گئے ہیں،

ہماری کچھ مذہبی جماعتیں تو کہتی ہیں کہ جنگ ہی امن کا حل ہے، اور وہاں کے مذہبی جذبات کچھ اس طرح کے ہیں کہ جنگ کو ہی امن کے لئے ناگزیر قرار دیتے ہیں، یہ جنگ کو الف لیلا کی کہانی سمجھتے ہیں، حالانکہ کہ جرمنی، روس، امریکہ کے حالات سب کے سامنے ہیں، روس اور جرمنی تو اپنے ٹکڑے ٹکڑے کروا چکے ہیں، امریکہ ایک دہائی سے بندوق کے زور پر امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن افغانستان ہے کہ وہ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے، آخر کار مذاکرات کی میز پر سب کو آنا پڑا۔

کرشن چندر کا ”غدار“ وہ غدار نہیں جسے ہم لوگ غدار کہتے ہیں، بلکہ یہاں تو غدار امن کی بات کرنے والے کو کہا جا رہا ہے، ناول کا پس منظر ہندو مسلم فسادات ہیں جس کے نتیجے میں دونوں طرف کافی کچھ لکھا گیا، اس زمانے میں غدار اسے کہا جاتا تھا جو اپنے ملک کی طرف سے فسادات میں حصہ نہ لے، آج بھی جو امن کی بات کرتا ہے مذہبی لوگ وہاں جہاد کے نام پر لوگوں کو بھڑکا دیتے ہیں اور امن کی بات کرنے والے کو اسلام اور پاکستان کا دشمن سمجھتے ہیں، حالانکہ آج جہادیوں کو ہماری فوج وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں نشانہ عبرت بنا رہی ہے، دنیا بدل چکی ہے، آج قوم کا جہاد لڑنے کے لئے ایک باقاعدہ فوج موجود ہے، جو وطن کا دفاع بخوبی اندازہ میں کر رہی ہے، تو ہم ٹھہرے کرشن چندر کے ”غدار“ جو آگ کے اس کھیل میں تیل نہیں بلکہ پانی کا کردار ادا کر رہے ہیں، آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو مودی کے خط کا جواب بھی منظر عام پر آ گیا ہے، جس میں کشمیر کا مسئلہ سر فہرست ہے، امن دونوں ممالک کی ضرورت ہے، اور امن کے لئے ناگزیر ہے کہ ہم نفرتیں ختم کریں اور دوستی کے گیتوں میں پیار اور محبت کا بیج بوئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments