خواجہ سرا اور ہمارا بیمار معاشرہ


\"\"خواجہ سرا معاشرے کا فعال رکن بن سکتے ہیں۔ انہیں جس سپورٹ کی ضرورت ہے وہ ہمارا معاشرہ دینے کو ابھی تیار نہیں۔ اور نہ جانے کتنا وقت لگے ہمارے معاشرے کو بالغ ہونے میں۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ امید دلانے والا بھی کوئی ہو تو امید بنتی ہے۔ ورنہ تو مایوس ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ایسی ہی مایوس گھڑیوں میں امید کی کرن عظمیٰ یعقوب ہیں۔ ڈگنٹی انیشیایٹو فورمDignity Initiative Form کی بانی عظمیٰ یعقوب دکھنے میں خاصی فربہ ہیں۔ حقیقتاً خواجہ سرا کہ ساتھ چلنے کے لئے بندے کا تگڑا اور جرات مند ہونا ضروری ہے۔ مس عظمیٰ نے فورم شروع کیا تو انہیں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کیونکہ معاشرے کے لئے تیسری جنس کو قبول کرنا ایسا ہی ہے کہ شیر کے سامنے ہرن رکھا جائے اور اسے ہرن کے ساتھ دوستی پر مجبور کیا جائے۔ یہ معاشرہ شیر ہے اور خواجہ سرا ہرن۔ جنہیں نوچنے کو گھات لگائے صرف شیر نہیں دوسرے جنگلی جانور بھی ہیں۔

میرا مقصد آپ کو جنگل کی سیر کرانا یا اس کے قوانین دہرانا نہیں۔ میرا مقصد تو ایک اچھے کام کو سراہنا ہے۔ مجھے نیلی کا انٹرویو لینے کا اتفاق ہوا۔ نیلی خواجہ سرا ہے۔ شناخت رکھتی ہے۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کے بیشتر ہنر مند خواجہ سرا کوئی شناخت نہیں رکھتے۔ جانے متھیرا اب کہاں ہو گی؟ این سی اے کی کینٹین اور سرامکس ڈیپارٹمنٹ میں گھومتی متھیرا مجھے بڑی اچھی لگتی تھی۔ این سی اے میں ایک فائدہ تو ہے۔ خواجہ سرا کو اگر مالی مدد ملے تو وہ یہاں سے تعلیم حاصل کر کے اپنی زندگی سنوار سکتا ہے۔ آرٹسٹ کی تعریف بھی یہی ہے کہ وہ خود کو نیوٹرل اور بغیر کسی جنس کے انسان سمجھتا ہے۔ متھیرا کو ملنے کا بہت دل کرتا ہے مگر وہ تو ہوا کے جھونکے کی مانند آئی اور کام سیکھ کر یہ جا وہ جا۔ ضرور ایک دن وہ اپنے کام سے جانی جائے گی۔ مجھے اسی دن کا انتظار ہے۔ خیر بات نیلی کی ہو رہی تھی۔ نیلی کا انٹرویو ہوا۔ میں نے انہیں ایک ریستوران بلایا تھا۔ ریستوران میں ویٹرز کو ہدایات میں نے خود دی تھیں کہ کسی قسم کا مذاق نہ اُڑایا جائے۔ کوشش کی جائے کہ بالکل نارمل رہا جائے۔ انہیں دیکھ کر ہنسنے اور خوش گپیاں کرنے سے گریز کیا جائے۔ چونکہ ریستوران میں میرا آنا جانا پچھلے تین سال سے ہے شاید میرے احترام میں میری ہدایات سنی اور مانی گئیں۔ اس کے لئے ریستوران کے تمام ورکرز کا بے حد شکریہ۔ نیلی کا انٹرویو کرنے کے پیچھے میرا شوق تھا۔ میں گیم آف تھرونز کے ماسٹر ویرس سے بہت انسپائر تھی۔ وہ ہیجڑہ ہو کر جغرافیہ، قانون اور سیاسیات کا ماہر کردار ہے۔ ایک بار تو اس کردار کو دیکھ کر دماغ میں سوال آتا ہے کہ دماغ تو خواجہ سراؤں کے پاس بھی ہے پھر انہیں ہم اتنے پسے ہوئے طبقے کی صورت کیوں دیکھتے ہیں؟ میں اس جنس سے پہلی بار بہت پہلے بچپن میں متعارف ہوئی مگر وہ صرف ڈر کے ساتھ رشتہ رہا۔ میں اس بازار میں قدم بھی نہیں رکھتی تھی جہاں ایک تو بکرے اور گائے بھینسوں کے گوشت کی دکانیں ہوں اور دوسری وہ جگہ جہاں خواجہ سرا مجھے مل جائے۔ چاہے بھیک مانگتے ہوئے یا صرف چلتے پھرتے۔ اپنے چھوٹے سے شہر جہلم میں بھی بہت سے خواجہ سرا ہیں۔ شاید اسی لئے مجھے کپڑے اور جیولری کی دکانوں سے زیادہ کتابوں کی دکانیں پسند تھیں کیونکہ ان دکانوں پر خواجہ سرا مجھے کبھی نظر نہیں آئے۔

خواجہ سراؤں سے ڈر جانا اور اس بازار میں قدم بھی نہ رکھنا جہاں ان کو ایک بار بھی دیکھا ہو، یہ سب میرا بچپنا تھا۔ بچپن کبھی بہت جلدی ختم ہو جاتا ہے تو کبھی ساری عمر ساتھ چلتا ہے۔ اسی بچپنے کے ساتھ لاہور آئے اور این سی اے پہنچ گئے۔ تھیسز کا وقت آیا تو میں نے موضوع کے طور پر خواجہ سرا کا ہی انتخاب کیا۔ بد قسمتی یہ رہی کہ مجھے اس موضوع پر کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اور کہا گیا یہ موضوع متنازع ہے۔ یقیناً متنازع ہے کیونکہ میں نے خواجہ سراؤں کے سودے ہوتے دیکھے ہیں۔ ہیرا منڈی میں انہیں بکتے دیکھا؟ میں نے دو گھونٹ پانی کے لئے، ایک پلیٹ دال کے لئے انہیں مزدوری کرتے دیکھا۔ لوگوں کی ان کے لئے دھتکار دیکھی ہے۔ ہنسنا اچھی بات ہے مگر ہنسی اُڑانا کوئی اچھی بات نہیں۔ میں تو مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہنستے، آوازے کستے، انہیں کے پاس سے گزرتے اور بعض اوقات ٹھوکر مار کر گزرتے دیکھا ہے۔ صرف نیلی نہیں مجھے جہاں کوئی خواجہ سرا نظر آتا ہے کھانے کی دعوت دے کر اور جگہ منتخب کر کے ایک وقت کا کھانا ضرور کھلاتی ہوں۔ حال ہی میں ایک اور خواجہ سرا سے ملی ہوں جس کا میں نے پوچھا ہی نہیں اگر انہوں نے بتایا بھی ہو تو میں نے غور ہی نہیں کیا۔ ہم نے کھانا کھایا۔ اور انہوں نے بتایا کہ وہ پانچ جگہ صفائی کا کام کرتی ہیں۔ وہ بھیک نہیں مانگتی۔ نہ ہی وہ سیکس ورکر ہیں۔ وہ عزت سے اپنا پیٹ پال رہی ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی چلو کوئی تو ہے جس کے سر پر سیکس ورکر کا تلک نہیں۔ اور وہ معاشرے کی نظر میں عزت سے روٹی کھا رہا ہے۔ اور محض اتفاق کے اگلے روز ایک آدمی نے میری آنکھوں کے سامنے اسے آوازہ کسا جس پر اس نے غور نہیں کیا۔ میں بھی انڈے لینے قریب کی دکان پر موجود تھی اور وہ بھی شاید کچھ سودا سلف لینے آئی ہوئی تھیں۔ کچھ دیر تک وہ لڑکا نما آدمی یا آدمی نما لڑکا آوازہ کستا رہا۔ جب نہیں کوئی جواب آیا تو بھرے بازار میں اپنی بائک روک ان کا ہاتھ جا پکڑا۔ میں یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ لڑکے نے کافی دیر تک کلائیاں مروڑیں اور وہ چپ چاپ نظریں جھکائے کھڑی رہی۔ پھر سودا لے کر اپنے راستے چلی گئی اور لڑکا دوستوں کی محفل میں۔

کیا کمال کی بات ہے نا۔ ایک خواجہ سرا جو کہ عزت سے کما کر کھا رہی ہے وہ صفائی والی ہے۔ تین گھروں اور پانچ پارلرز میں صفائی کرتی ہے اور اپنے اخراجات برداشت کرتی ہے، ایسے میں بجائے اس کے اسے سراہا جائے باپ کے پیسوں پر پلنے والے دوستوں کے ساتھ ان کو تنگ کرنے سے باز نہیں آتے۔ اور انہیں شہ دینے والا ہمارا معاشرہ جو دیکھ رہا ہے سن رہا ہے مگر انہیں روک نہیں رہا۔ مجھے بتایا جائے کہ ایک لڑکی سگریٹ پیتی ہے اسے تو سب یوں آنکھیں پھاڑ کر دیکھیں گے جیسے کوئی گناہ سر زد کر رہی ہے جب کہ خود کے بچے باپ اور بہ نفس نفیس پینے والے خود کو سمارٹ اور ڈیشنگ سمجھتے ہیں۔ بجائے اس کے بچوں کی تربیت کی جائے ماں باپ بچوں کو اس کے ساتھ برا سلوک کرنے پر ڈانٹتے ہیں نہ منع کرتے اور نہ سمجھاتے ہیں۔ مسئلہ ہماری تربیت میں ہے۔ مجھے بچپن میں دادی امی نے سکھایا تھا کہ خواجہ سرا کی آہ بہت اوکھی۔ آہ نہیں لینی۔ اسے دل سے خوش کرنا ہے۔
اب وہ دادیاں نانیاں بھی کہاں ہیں؟ ہم اتنے شدت پسند طبقاتی تقسیم پر کامل ایمان رکھتے ہیں کہ ایک آڑھتی کا بچہ کھلے عام ’اوئے‘ کہتا دکھائی دیتا ہے۔ خواجہ سرا اگر کسی دکان پر چلا جائے تو یہی امیر زادے اور امیر زادیاں کہتے دکھائی پڑتے ہیں :’او ویکھ! کھسرا‘‘ یعنی کہ نصاب پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں؟ جب آپ کو ادب اور تمیز ہی نہیں تو آپ کا اے لیول اور او لیول کا کیا فائدہ؟

ایک شکایت تو مجھے خواجہ سراؤں سے بھی ہے۔ وہ جو چہرے پر بے شمار فاؤنڈیشن تھپی ہوتی وہ کیوں؟ کیا وہ آپ کے مسائل چھپا سکتی؟ کیا وہ واقعی آپ کو مردوں کے معاشرے میں عزت دلا سکتی؟ نارمل رہنے میں کیا برائی ہے؟ میں نیلی سے مل کر شاید اسی لئے سب سے زیادہ خوش ہوئی کیونکہ وہ ایک دم قدرتی صورت میں مجھ سے ملنے آئی تھی۔ میں نے نیلی کو گھر کا بنا کھانا کھلایا تھا۔ جس پر وہ بہت خوش بھی تھی۔ اور میری تو گھر کے بنے کھانے کھلانے کی ہی کوشش ہوتی ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ احساس ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے ان پڑھ جاہل ماں باپ نے اس لئے قبول نہیں کیا کیونکہ ان میں ان لوگون کو قبول کرنے کی ہمت نہیں تھی، انہیں بس کچھ پل کے لئے اپنے پن کا احساس دلایا جائے۔ خدا تو ان کا بھی ہے۔ خدا تو سب کا ہے۔ بارش برستی ہے تو ان پر برسنے سے انکار تو نہیں کرتی۔ دھوپ چڑھتی ہے تو ان کو دیکھ کر کہیں چھپ تو نہیں جاتی۔ باغوں میں پھول کھلتے ہیں ان کو دیکھ کر مرجھا تو نہیں جاتے۔ قدرت ماں ہے اور ماں تو اپنے بچے سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ اسی ماں کی محبت میں تو ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔ وہ انہیں روٹی پانی سب دیتی ہے۔ رہی بات کپڑوں کی تو اترن ہی سہی، لنڈے کے کپڑے ہی سہی لیکن ننگے نہیں گھومتے۔ بہت سوں سے بہتر ہیں۔ ابتر زندگی ہم نے بنا رکھی ہے۔ سال 2016ء میں ان کے لئے آواز اُٹھانے کے لئے بہت کوششیں کی گئیں۔ آئیندہ بھی کوشش جاری ہے۔ عظمیٰ یعقوب کو جو ہر پل خواجہ سراؤں کے ساتھ ہے، میرا سلام اور مبارک کہ ہمت بندھانے کے واسطے انہیں صدر پاکستان ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ابھی تو بہت سے کام باقی ہیں۔ کامیابی تو اسی دن ممکن ہے اور حقیقی ایوارڈ بھی وہی ہے جب خواجہ سراؤں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور ان پر عمل کیا جائے گا۔ دوسرا جب خواجہ سراؤں کو کوئی آوازہ نہیں کسے گا۔ کوئی بیچ بازار میں کلائیاں نہیں پکڑے گا۔ بلکہ سب اپنے کام سے کام رکھیں گے اور خواجہ سراؤں کو بھی یونیورسٹی کالج کی تعلیم دی جائے گی۔ یہ لوگ بھی نوکریاں کر کے اپنا پیٹ پال رہے ہوں گے۔ خصوصاً عزت کی نوکری۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں ان کے ماں باپ سب سے پہلے تسلیم کریں گے۔ اور وہی محبت دیں گے جس کے یہ لوگ بھی اتنے ہی حق دار ہیں جتنا کہ ان کی باقی اولادیں۔

یہی امید دلاتی عظمیٰ یعقوب۔ خاصی تگڑی خاتون ہیں۔ خدا انہیں تگڑا اور سلامت رکھے۔ صرف ایک عورت ہی اگر امید دلاتی رہے اور کوشش کرتی رہے تو قافلہ بنتے بنتے بن ہی جائے گا۔ قافلے کے لئے سفر شرط ہے اور منزل تو کبھی نہ کبھی آ ہی جائے گی کہ
ذرا نم ہو تو۔۔۔۔۔
(شعر تبھی مکمل کہا جائے گا جب کوئی ساقی (قافلہ) زرخیز مٹی کے ساتھ منظر عام پر آئے گا۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments