گولڈن گرلز: ڈیجیٹل بہن چارہ


عزیز از جان رابعہ،

آپ کی تحریر نے اس سیریز کو ایک واضح رخ دے دیا ہے۔ آپ نے اپنی تحریر میں کئی مشکل باتیں بہت آسانی اور خوبصورتی سے لکھ ڈالیں، ایسے جیسے وہ کتنی ہی آسان سی باتیں تھیں۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ سیریز ہم دونوں کے لیے ہی انتہائی مشکل ہے۔ آنے والے ہفتوں میں یہ مشکل مزید بڑھ جائے گی۔ خیر، ہم نے اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات دیکھی ہیں، ایک یہ بھی دیکھ لیں گے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہیں۔ بہت سوں کے دلوں ہر یہ ساتھ بہت بھاری پڑ رہا ہے، پڑنے دیجئیے۔

ڈاکٹر خالد سہیل نے بھی ہمارے نام ایک دوست نامہ لکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سراپا محبت ہیں۔ انہوں نے میری کئی مواقعوں پر ایک ہمدرد دوست اور نفسیات دان ہونے کے ناتے بہت مدد کی۔ میں ان کی اس محبت کا قرض شاید ہی کبھی چکا پاؤں۔

ڈاکٹر صاحب اپنے تعارفی کالم میں لکھتے ہیں کہ ’نفسیاتی طور پر ہمارے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عورتوں میں غصہ آتا کہاں سے ہے۔ کوئی بھی بچی غصہ لے کر پیدا نہیں ہوتی لیکن اس کے بچپن اور نوجوانی کے تجربات اسے غصیلا بنا دیتے ہیں۔‘

میں ان کی اس بات سے متفق ہوں۔ عورت مارچ نے عورتوں کو اپنا یہی غصہ باہر نکالنے کا موقع دیا۔ ہمارے معاشرے سے ان کے یہ ایک دن کا اظہار بھی برداشت نہیں ہوا۔ پدر شاہی معاشرے میں عورت کو صرف رونے کی آزادی حاصل ہے۔ وہ ہنس بھی سکتی ہے لیکن کچھ مخصوص حالتوں میں اور کچھ مخصوص شرائط کے ساتھ۔ ہاں، غصہ نہیں کر سکتی۔ غصہ کرنا صرف اور صرف مرد کا حق ہے، بلکہ حق کیا اس کی شان ہے۔

رابعہ، عورتوں کے اسی غصے کا اظہار وہ گروپ ہے جہاں آپ کی سہیلیاں اور آپ ’فرشتوں‘ کے نمونے شیئر کر کے انہیں اکٹھے بلاک کیا کرتے تھے۔ عورتیں اب مردوں کی ایسی حرکتیں برداشت نہیں کرتیں۔ انہوں نے انٹرنیٹ پر اپنے لیے سپورٹ گروپ بنا لیے ہیں جہاں وہ ایک دوسرے کو مردوں سے خبردار کرنے کا کام کرتی ہیں۔ میں اسے ڈیجیٹل بہن چارہ کہتی ہوں۔ ایک گروپ تو خاصا بڑا ہے۔ اس میں لڑکیاں ایسے مردوں کی پروفائلز شیئر کرتی ہیں جن کی طرف سے انہیں دوستی، محبت یا شادی کی دعوت آئی ہوتی ہے، وہ دوسری عورتوں سے پوچھتی ہیں کہ کیا وہ انہیں جانتی ہیں۔

دیسی مردوں کا حال کچھ ایسا ہے کہ یہ سونے کے بن کر بھی آ جائیں تو ان پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ کب کس کے لیے سنجیدہ ہو جائیں، کب کس کے ساتھ کھیل جائیں، کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ میں اس گروپ میں اکثر دیکھتی ہوں کہ کوئی لڑکی کسی آدمی کی پروفائل پوسٹ کرتی ہے اور تھوڑی دیر بعد اس مرد کو جاننے والی کوئی خاتون وہاں کمنٹ کر دیتی ہے۔ یہ بھی تو ایک طرح کا بہن چارہ ہے نا۔ وہ اپنے تجربے کے مطابق اس مرد کے بارے میں گواہی دیتی ہے۔ باقی ہر ایک کا اپنا معاملہ ہے۔ یہ مرد جہاں وفا کرنا چاہیں کرتے ہیں، جہاں نہیں کرنا چاہیں وہاں نہیں کرتے۔

ملیحہ مینگل میری بہت اچھی دوست ہیں۔ انہوں نے فیس بک پر ’پاکستانی فرینڈ شپ بوائز (ہال آف شیم) کے نام سے ایک فوٹو البم بنا رکھی ہے۔ مجھ سمیت نو خواتین اس البم میں انباکس میں موصول ہونے والے شاہکار اپلوڈ کرتی ہیں۔ رابعہ، ان تمام میسجز کا ایک ہی پیٹرن ہے۔ ہیلو، ہائے، لسن، ڈئیر، آپ کی آنکھیں، آپ کے گال، مجھے آپ بہت پسند ہیں، آپ مجھ سے دوستی کر لیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عورت کا نام دیکھ کر ہی میسج کے بٹن پر کلک کر دیتے ہیں۔

نہ وہ اس عورت کو جانتے ہیں، نہ اس کی پروفائل پڑھتے ہیں، بس دو چار تصویریں دیکھیں اور میسج کر دیا۔ ان کے لیے بس اس کا عورت ہونا ہی کافی ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ کوئی بھی انسان بغیر احساسات کے کسی سے کس طرح بات کر سکتا ہے، رشتہ بنانا تو خیر اس سے کہیں آگے کا مرحلہ ہے۔ رابعہ، مرد اپنا اور اپنے احساسات کا احترام کیوں نہیں کرتے؟

رابعہ، ہماری عمروں میں کئی برسوں کا فرق ہے پھر بھی ہمارے ایک سے تجربات ہیں۔ آپ اور میں ہی کیا، اس ملک میں ہر عورت کے تجربات ایک سے ہیں۔ پھر بھی ہم آزادی کا نعرہ لگائیں تو بری کہلاتی ہیں۔ اس ملک کی سڑکوں پر چلنے والی ہر عورت ہراساں ہوئی ہے، دوسری طرف جس مرد سے پوچھ لو اس نے آج تک پرائی عورت کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ عورتیں اس حوالے سے لکھیں تو یہ جواب میں ’دو چار مرد، دو چار مرد‘ کرتے رہتے ہیں۔ رابعہ، ایک طرف یہ ’دو چار مرد‘ ہیں تو دوسری طرف ملک کی آدھی آبادی ہے۔ اب ہم کسے سچا مانیں اور کسے جھوٹا ٹھہرائیں؟

رابعہ، آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اس منحوس لمس سے بچ گئیں۔ آپ کے والد نے آپ کو جو اعتماد دیا وہ ہر والد کو اپنی بیٹی کو دینا چاہیے۔ یہ باتوں سے سمجھنے والے لوگ نہیں۔ جب اپنا جسم اور اپنی روح خطرے میں پڑے تو اس خطرے سے جیسے ہو سکے نمٹنا چاہیے۔ چیخ سکو تو چیخو، مار سکو تو مارو۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ آپ نے اپنے والد کی طرف سے ملنے والی اس اجازت کا کبھی استعمال بھی کیا یا نہیں؟

میرے گھر یہ ایک ایسا موضوع تھا جس پر بات کرنی کسی کو نہیں آتی تھی۔ حالانکہ میری امی بہت محتاط تھیں۔ انہوں نے گھر کے اندر ہماری خوب حفاظت کی لیکن گھر کے باہر وہ کہاں تک ہمارے ساتھ جا سکتی تھیں۔ میں نے گندا لمس اور گندی نظریں پاکستان کی سڑکوں پر محسوس کیں۔ ان گندے لمسوں کا خوف مجھ پر اتنا حاوی ہوا کہ میں کبھی اچھے لمس کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکی۔ ان برے تجربات نے میرے ساتھ ہونے والے اچھے تجربات کو ان کے ہونے سے پہلے ہی نگل لیا۔

رابعہ، آپ اپنے تخیل کو حقیقت سے بہتر پاتی ہیں۔ آپ اسے اپنے من میں پوجتی ہیں۔ اس کی خوشبو آپ کو اپنے اندر اترتی محسوس ہوتی ہیں۔ ایک راز بتاؤں، میں نے اپنا تخیل حقیقت میں دیکھا۔ ایک خوبصورت حقیقت، بالکل ویسی جیسی میں چاہتی تھی۔ مجھے اس کی آنکھوں میں اپنی پرچھائی دکھائی دی۔ پھر اچانک کہیں سے اندھیرا آیا اور اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ میں اس کے بعد خود کو اندھیرے میں پاتی ہوں۔ ایسے لگتا ہے جیسے میں اپنی حقیقت بھی بھول بیٹھی ہوں۔ رابعہ، میں خود کو اس اندھیرے سے کیسے نکالوں؟ میں اپنی حقیقت کہاں تلاش کروں؟

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم
اس سیریز کے دیگر حصےگولڈن گرلز- ایک بے گھر آدمی اور ہمدرد عورتجعلی ریاست مدینہ اور اس کی حقیقت

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

گولڈن گرلز کے عنوان کے تحت رابعہ الربا اور تحریم عظیم بتا رہی ہیں کہ ایک عورت اصل میں کیا چاہتی ہے، مرد اسے کیا سمجھتا ہے، معاشرہ اس کی راہ میں کیسے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے اور وہ عورت کیسے ان مصائب کا سامنا کر کے سونا بنتی ہے۔ ایسا سونا جس کی پہچان صرف سنار کو ہوتی ہے۔

golden-girls has 28 posts and counting.See all posts by golden-girls

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments