اور پی ڈی ایم کی کشتی ڈوب گئی


لگ رہا تھا کہ جوش وجذبے سے بھری پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یا پی ڈی ایم ایسا طوفان اٹھانے والی ہے کہ حکومت کا سنبھلنا مشکل ہو جائے گا، طوفان تو اٹھا لیکن پی ڈی ایم کے اندر ہی، جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کی کشتی بھنور میں پھنسی اور ڈوبتی نظر آتی ہے۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف قائم ہونے والے اس سیاسی اتحاد کا مستقبل کیا ہے، لیکن اس کا جو حال ہمارے سامنے ہے وہ تقاضا کرتا ہے کہ اس کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قیام کی محرک پیپلز پارٹی تھی، جس کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ زرداری صاحب کا طرز سیاست ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے یکسر الگ ہے۔ وہ مزاحمت اور ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ شطرنج کے کھلاڑی کی طرح چالیں چلتے ہیں اور مہروں کے ذریعے ہرانے پر یقین رکھتے ہیں، ان کے لیے جیت بس یہ ہے کہ وقت، پیسے اور لوگوں کا صحیح استعمال کر کے ایسی پوزیشن پر آ جائیں کہ حکم راں ہوں یا مقتدر قوتیں ان کے ساتھ سمجھوتے اور سودے بازی پر راضی ہو جائیں۔

آصف زرداری نے یہی کیا، جس پر کسی کا بھی حیران ہونا حیرت انگیز ہے۔ حیرانی تو نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن پر ہے کہ انھوں نے یہ کیسے سمجھ لیا تھا کہ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی ان کے سخت گیر موقف اور تندوتیز بیانیے کے ساتھ چل پائیں گے۔ شاید یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ عدالتوں کے مقدمات نیب کے اقدامات کا گھیرا حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیے ایسی زنجیر ثابت ہو گا جس میں وہ بندھی رہیں گی، لیکن اب لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے لیے راستہ نکال لیا ہے اور وہ جس گرفت میں تھی وہ خاصی ڈھیلی ہو چکی ہے۔

پی ڈی ایم کی اہم ترین رکن جماعتوں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی میں فاصلوں کی بات تو بہت دنوں سے کی جا رہی تھی، لیکن گزشتہ چند روز میں یہ فاصلے اتنی تیزی سے سامنے آئے اور اس اتحاد کی جماعتیں یوں ایک دوسرے کے مقابل آئیں کہ وہ تجزیہ کار بھی حیران رہ گئے جو پی ڈی ایم میں دراڑیں پڑنے کا امکان بار بار ظاہر کر چکے تھے۔ سینیٹ کے انتخابات تک لگتا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتیں دیوار کی طرح ایک دوسرے سے جڑی کھڑی ہیں۔

یوسف رضا گیلانی کا سینیٹ کی اسلام آباد کی نشست پر کام یاب ہونا پی ڈی ایم کے باہمی اتحاد کا مظہر بن کر سامنے آیا، اور کہا جانے لگا کہ یہ پی ڈی ایم میں آصف زرداری کے اس بیانے کی جیت ہے جس کے مطابق حکومت کے خلاف جنگ پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے اور اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکرائے بغیر لڑی جائے۔ تاہم چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جب حزب اختلاف اپنے زیادہ ووٹ رکھنے کے باوجود اپنے سات ووٹ مسترد ہونے کی وجہ سے ہار گئی تو اس سے ایک بار پھر نواز شریف کے بیانے کو تقویت ملتی نظر آئی، اور یہ خیال زور پکڑ گیا کہ اب پیپلز پارٹی پوری شدت کے ساتھ نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی۔ لیکن جوا ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔

پی ڈی ایم کے اجلاس میں جو لانگ مارچ کی تاریخ اور تفصیلات طے کرنے اور ایوانوں سے مستعفی ہونے کے ایجنڈے پر منعقد ہوا تھا، آصف زرداری نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ تکرار اور اصرار پر انھوں نے نواز شریف کو پاکستان واپس آ کر تحریک کی قیادت کرنے کا مشورہ دیا تو وہ طعنہ بن کر نون لیگ کے دل کو لگا۔ اس کے بعد دونوں طرف ایک دوسرے سے ناراضگی گرماگرم بیانات کے ذریعے سامنے آئی۔ مولانا فضل الرحمٰن ابھی اس حدت کو کم کرنے اور نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو دوبارہ قریب لانے کے لیے جتن کر ہی رہے تھے کہ پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو اے این پی، جماعت اسلامی اور دو آزاد ارکان کی مدد سے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف منتخب کروا کر واضح کر دیا کہ اسے اب پی ڈی ایم کی ضرورت نہیں رہی۔

یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف مقرر کروانے کے لیے درخواست اسی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو دی جسے پیپلز پارٹی حقیقی معنی میں منتخب چیئرمین نہیں مانتی اور اس کا موقف ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کی کام یابی کو چرایا گیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنوانے کے لیے صادق سنجرانی کو درخواست دے کر پیپلز پارٹی نے اپنے مذکورہ موقف پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف اپنی اخلاقی پوزیشن کھودی ہے، لیکن آصف زرداری نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی سیاست میں سیاسی گروں اور حربوں کا ان سے بڑا ماہر کوئی نہیں۔

یوں بھی ہماری سیاست میں اخلاقی اصول، دیانت اور صداقت کی کیا حیثیت ہے , اس سے سب واقف ہیں۔ اس حوالے سے نون لیگ کا موقف سامنے آ چکا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اس اقدام سے پی ڈی ایم کے اتحاد کو دھچکا لگا ہے۔ واقعی یہ ایک دھچکا ہے، بہت زور کا دھچکا، جس نے پی ڈی ایم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

ہمارے ملک میں سیاسی اور انتخابی اتحادوں کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ جگتو فرنٹ سے ایم آر ڈی تک اور پھر نواز شریف اور بے نظیر کے ادوار حکومت میں قائم ہونے والے حزب اختلاف کے اتحادوں تک۔ یہ سارے اتحاد جس حکومت کے خلاف بنے اس کے خاتمے کے بعد ہی ٹوٹے، لیکن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا معاملہ مختلف لگ رہا ہے۔ لگتا ہے یہ اتحاد قائم رہا بھی تو پیپلز پارٹی جیسی بڑی اور نمایاں جماعت کی رخصتی یا اس کے اخراج کے باعث بہت کم زور ہو جائے گا۔

اور اگر پیپلز پارٹی جس راہ پر گامزن ہے ، اس کے ہوتے ہوئے اسے اتحاد میں شامل رکھا گیا تو یہ عمل پی ڈی ایم اخلاقی طور پر ہی شکست خوردہ نظر نہیں آئے گی ، اسے اندرونی خلفشار بے عمل رکھنے کے ساتھ کم زور بھی کرتا رہے گا۔ لیکن سندھ کی نمائندہ جماعت پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے ناتا توڑ لیا تو یہ اتحاد سندھ میں غیرمؤثر ہو جائے گا اور اس کی قومی حیثیت بھی برقرار نہیں رہ پائے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نون لیگ کی قیادت اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن خون کے گھونٹ پی کر پیپلز پارٹی کو برداشت کر رہے ہیں اور اس سے تصفیے کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔

اسی لیے خبروں کے مطابق شہباز شریف نے اپنے فرزند اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کو پیپلز پارٹی کے خلاف بیان بازی سے روک دیا ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ تو اونٹ کے بیٹھنے کے بعد ہی پتا چلے گا، لیکن یہ پتا چل گیا کہ ذاتی مفادات اور اپنے بچاؤ کے لیے بنائے جانے والے کسی اتحاد کا زیادہ دیر چلنا ممکن نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments