حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے


استاد ذوق کا یہ شعر مختلف مواقع پر بروقت استعمال کی وجہ سے ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اگر آپ قبرستان جائیں تو کئی کتبوں پر یہ شعر کندہ نظر آئے گا۔ ویسے تو کتبے پڑھنا کوئی دلچسپ امر نہیں مگر پڑھتے رہنا چاہیے کہ غلام عباس کا ’کتبہ‘ کتنی ہی قبروں پر ایستادہ دعوت فکر دیتا ہے۔ اسی طرح طنز و مزاح نگاروں کے ہاں بھی یہ مصرعہ خاص پسندیدگی کا حامل رہا ہے۔ تاہم مقصد ہمارا اس شعر کی خوبیوں اور خامیوں کا بیاں نہیں کہ یہ کام ناقدین ادب کو زیب دیتا ہے۔ میں تو فقط ان غنچوں اور خوشوں کا نوحہ بیان کرنا چاہتا ہوں جن کے ساتھ کسان کی آس اور امید بھی دفن ہو جاتی ہے۔

کسان جب تک کھیت میں رہتا ہے مزدور ہی رہتا ہے مگر جب کھلیان میں پہنچتا ہے تو شہنشاہ ہوتا ہے۔ مگر صد افسوس کہ گزشتہ سال کسان کو کھلیان تک پہنچنا نصیب نہ ہوا۔ امسال بھی حالات کچھ زیادہ امید افزا نظر نہیں آتے۔ وجہ اس کی بدلتے موسمی حالات ہیں۔ گزشتہ سال بھی گندم کی زیادہ تر فصل شدید اور بے وقت بارش کے باعث تباہ ہو گئی تھی اور بالکل یہی حال مونگ کی تیار فصل کا ہوا۔ امسال بھی جب کہ گندم کی فصل تقریباً آخری مراحل میں ہے، طوفانی بارشوں کا سلسلہ ملک بھر میں شروع ہو چکا ہے۔

یقیناً آپ کو بھی خوب اچھی طرح یاد ہو گا کہ نوے کی دہائی کے اوائل میں ہی ماہرین موسمیات نے خبردار کرنا شروع کر دیا تھا کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں بہت تیزی سے آپ کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ہیں مگر ہم تجسس کے مارے لوگ اس تنبیہہ کو اس شرارتی بچے کی طرح نظرانداز کرتے رہے جو یہ جاننے کے لیے کہ پٹرول واقعی آگ پکڑتا ہے یا محض قیاس آرائیاں ہیں، پٹرول کو آگ دکھا کر خود کو نقصان پہنچا لیتا ہے۔

یہی حال ہمارا ہوا اور مزید بھی ہونے والا ہے کہ اس ’آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا‘ کے چکر میں ہم بڑی سرعت سے تباہی کے گڑھے کی جانب محو سفر ہیں۔ اس تباہ کن تبدیلی کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ کسان پر بہت بڑی ذمہ داری تھی کہ وہ اس موسمیاتی تبدیلی کو قابو کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا مگر وہ اپنا کردار ادا نہ کر سکا۔ تاہم کسی قدر رعایت اسے دی جا سکتی ہے کہ اس حوالے سے اس کی کسی قسم کی ذہن سازی نہیں کی گئی اور یہ کام تھا بھاری بھر کم مراعات لینے والے حکومتی محکموں کا۔ تاہم اب ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمۂ زراعت سے برلب سڑک چند درختوں پر ٹوٹکے درج کروانے کی بجائے اسے سنجیدہ نوعیت کے اہداف فراہم کیے جائیں اور اس کی کارکردگی کو مانیٹر کیا جائے۔ محکمہ پٹوار کو حکومتی جلسہ گاہوں کو بھرنے کی بجائے تعمیری سرگرمیوں میں استعمال کیا جائے۔

شاید ہمارے ہاں حکومتیں محض یہ سمجھتی ہیں کہ حکومت کا کام محض حکومت کرنا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یقینی طور مستقبل کی کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی کی جاتی۔ یہاں محض یہ رٹوا دیا جانا کافی و شافعی سمجھا جاتا ہے کہ ہم زرعی ملک ہیں۔ زراعت کے شعبہ میں حکومتی سنجیدگی کا جائزہ لینا ہو تو ابتدائی جماعتوں میں زراعت کے اختیاری مضمون کی ورق گردانی کر لیجیے۔ اس سے آپ کو دوہرا فائدہ ہو گا اور آپ جان پائیں گے کہ عہد وسطیٰ کا انسان کس طرح کھیتی باڑی کیا کرتا تھا۔

موجودہ حکومت اس حوالے سے تو لائق تحسین ہے کہ عوامی سطح پر شجر کاری کے حوالہ سے شعور پیدا کیا ہے جس کے یقیناً مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور آنے والے برسوں میں مزید بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ تاہم اس ستم کا کیا کیجیے کہ کبھی کھاد دستیاب نہیں ہوتی اور کبھی بلیک پر خرید کر ضروریات پوری کرنی پڑتی ہیں۔ حال کا احوال یہ ہے کہ راتوں رات بجلی کے بلوں میں صد فیصد اضافہ کر کے کسان کو کاشت کاری ترک کر کے کشکول اٹھانے کی ترغیب دلائی جا رہی ہے۔

کھاد ڈیلر، زرعی ادویات سے متعلقہ افراد اور آڑھتی حضرات تو ایک ہی سیزن کے اندر اندر قصر امراء میں مسند نشین نظر آتے ہیں جب کہ خون جگر دے کے فصلوں کو سینچنے والے کسان کے لیے کھیتوں میں فقط بھوک ہی اگا کرتی ہے اور بقول شاعر ’کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے‘ کسان اس گھن چکر میں پستا ہی چلا جا رہا ہے۔

ہمارا قابل کاشت رقبہ روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ آبادی بے ہنگم بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ موسمیاتی تغیر نے ربیع و خریف کا دورانیہ کم تر کر دیا ہے۔ موسم شدید تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ نئی سے نئی بیماری پیداوار میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ گزشتہ تین چار سال سے (Rust) نامی بیماری نے گندم کی پیداوار پر نہایت برا اثر ڈالا مگر پروا کسے ہے؟ کسی نہ کسی ملک سے پیکچ مل ہی جائے گا۔

اب جب کہ صنعت کا جنازہ تو دھوم دھام سے اٹھا ہی چکے ہیں ، کم از کم دو وقت کی روٹی کے لیے تو کسی امدادی پیکج کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔ چور، ڈاکو اور پچھلی حکومتوں کی گردان کو ترک کر کے درست سمت میں آگے بڑھنا ہوگا۔ زراعت کے شعبہ میں خاطر خواہ سنجیدگی نہ دکھائی گئی تو جلد ہی غذائی قلت کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے اشارے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ بجائے دوسرے ممالک سے مچھلی مانگنے کے ان سے جال بنانا سیکھنا ہو گا اور اس میں کوئی عار بھی نہیں ہو گی۔

قدرتی آفات اپنی جگہ مگر قدرت نے ان سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت بھی حضرت انساں کو ودیعت کی ہے۔ کیا دوسرے ممالک اپنے طبعی حالات کو دیکھتے ہوئے ایسے بیج نہیں بنا رہے جو موسمیاتی اثرات کا مقابلہ نسبتاً بہتر طور پر کر سکتے ہیں؟ انتہائی قلیل رقبہ سے کہیں زیادہ پیداوار حاصل نہیں کی جا رہی؟ یہاں بھی یہ سب ممکن ہے مگر اس کے لیے سنجیدگی ضروری ہے۔

از حد ضروری ہے کہ زراعت کے شعبہ کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور استحصالی مافیا کے شتر بے مہار پر قابو پا کر کسان کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب پر بھی اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آنے والی نسلوں کو کشکول کی بجائے روشن مستقبل دے کر جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments