قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹو کے اقوال


ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ بھٹو ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہی نہیں بلکہ ایک طلسماتی شخصیت کے مالک تھے۔ پاکستان کی سیاست میں ایک ہنگامہ خیز زندگی گزارنے والے بھٹو کو دنیائے سیاست میں ایک خاص شہرت اور مقام نصیب ہوا۔ اسی لیے جب 3 اپریل 1979 کو ان کو پھانسی کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے ڈپٹی جیل سپرٹنڈنٹ خواجہ غلام رسول کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی صاحب آپ لوگوں کو ایسا لیڈر کہاں سے ملے گا۔ مگر آپ کو ضرورت ہی کیا ہے ضرورت تو غریبوں کی تھی۔ تم لوگ غریبوں کا لیڈر چھین رہے ہو۔ میں انقلابی آدمی ہوں غریبوں کا حامی۔ یار مجھے مارنا ہی تھا تو دو سال خراب کیوں کیا۔ میری عزت کیوں نہیں کی جو ساری دنیا میں ہے۔ مجھے کسی ریسٹ ہاؤس یا کسی کوٹھی میں رکھتے اورعزت سے مار دیتے۔ اور یوں 3 اور چار اپریل کی درمیانی شب کو قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

آج کی تحریر میں ذوالفقارعلی بھٹو کے مختلف اقوال دیے گئے ان اقوال سے بھٹو کی شخصیت، ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر ان کی گرفت اور عوام کو درپیش مسائل کے ادراک کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے جب مزار قائد پر حاضری دی تو باباے قوم سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ

”اے میرے قائد، تو نے کیا ایسا ہی پاکستان سوچا تھا۔ کیا تو نے ایسے ہی پاکستان کا تصوردیا تھا۔“

”اے میرے قائد، آج میں احتجاج کرنے آیا ہوں، مزدوروں، کسانوں اور طالب علموں کی طرف سے۔ کیا پاکستان کی خاطر اسی لیے جدوجہد کی گئی تھی۔“

”اے میرے قائد اس قوم پر ظلم ہو رہا ہے۔ ہم آپ کے مزار پر تقریر نہیں کر سکتے۔ ہماری زبانیں بند کردی گئی ہیں۔“

”بول اے میرے قائد اعظم یہ ظلم کا سورج کب غروب ہوگا؟ میرے قائد یہ کیسا انصاف ہے کہ نوکر شاہی اور افسر شاہی نے پورے پاکستان پر اپنا کالا سایہ ڈال رکھا ہے“

”سوشلزم کاپہلا پتھر پیغمر اسلام نے نصب کیا تھا اس لیے معاشرتی انصاف پر مبنی یہ نظریہ قطعاً غیر اسلامی نہیں اور آگے کی جانب کوئی قدم پچھلی غلطیوں سے سے آزاد ہو کر ہی اٹھ سکتا ہے۔ ہمارے عوام کا مذہب اسلام ہے اور اسلام ایک ایسا رشتہ ہے جس میں مختلف علاقوں کے لوگ باہم منسلک ہیں۔ جمہوریت ایک ایسا سیاسی نظام ہے جو قائد اعظم نے اس ملک کے لیے منتخب کیا تھا اور سوشلزم ان اقتصادی برائیوں کا علاج ہے جو پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہیں۔ اس خیال میں کوئی صداقت نہیں کہ اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔“

”میں پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں ہندوستان کی ساری دولت کے بدلے میں ایک محسودی، ایک یوسف زئی یا ایک چانڈیو کو الگ کرنے پر تیار نہیں۔ میں ہندوستان کے سارے اسلحہ خانے کے عوض پاکستان کی مقدس سرزمین کا ایک ملی میٹر حوالے کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتا“

”کوئی بھی ہزاروں سال نہیں رہا۔ کسی نے بھی لاکھوں سال حکومت نہیں کی ہے۔ عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ سیزر آیا، نپولین آیا اور چلا گیا، ہٹلر ہزار سال اپنے اقتدار کی بات کرتا تھا مگر وہ دس برس میں ہی صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ اس لیے جتنی جلدی ہو سکے بحران کا حل تلاش کر لیا جائے۔“

”دنیا امیر اور غریب قوموں میں تقسیم ہو چکی ہے اور غربت کے خاتمے کے لیے غریب قوموں کا اتحاد بہت ضروری ہے“

”ہم اسلامی سوشلزم چاہتے ہیں جس میں خدا کے خوف کے ساتھ انسانوں کی معیشت، صحت، تعلیم اور رہائش کی ضمانت ہو“

”دنیا کے جس حصے میں اور جتنی چاہو دولت لے لو اور ہماری راہ سے ہٹ جاو، صدر جانسن ہم بکاو مال نہیں ایک غیرت مند قوم ہیں۔“

”ہم عوام کو زیادہ دیر تک انتظار میں نہیں رکھ سکتے۔ اس ملک کو نیا ملک بنانا ہوگا کوئی ہماری پارٹی کو روکنے کی کوشش نہ کرے ہم انشا اللہ نیا ملک بنائیں گے“

”وقت کے حساب سے مسائل کا صحیح حل تلاش کیا جاتا ہے ورنہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ سب کچھ بیکار ہو کررہ جائے گا۔ مثلاً جنرل یحییٰ نے پاکستان ٹوٹنے کے بعد آئین دیا اس طرح وقت گزرنے کے بعد کوئی حل بھی قابل عمل نہیں رہتا۔ مجھے شبہ ہے کہ پنڈت نہرو نے اپنی کتاب ہندوستان کی دریافت میں پاکستان اپنے قیام کے بیس پچیس سال بعد ختم ہو جائے گا کا جو حوالہ دیا ہے وہ صحیح ثابت نہ ہو جائے۔ مارشل لا نے قوم سے جنگ کرنے کی صلاحیت چھین لی ہے قوم کو بددل کر دیا ہے۔“

”ہمارے امریکی دوستوں نے شروع ہی سے میرے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی کہ پاکستان کو ایٹمی توانائی حاصل کرنا چاہیے، لیکن میں تہیہ کرچکا تھا کہ ایسا کرنا ضروری ہے۔ ہم عنقریب ایٹمی دھماکہ کر سکتے ہیں، میرے ملک کی خواہش تھی کہ میری حکومت ایٹمی دھماکہ کرے۔ پاکستان ایک نہ ایک دن ایٹمی دھماکہ ضرور کرے گا۔“

”دنیا میں اس وقت بہت سے ہاتھی ہیں اور ان کی یاداشت بھی بہت تیز ہے۔ یہ ہاتھی نہ بھولنے والے ہیں اورنہ ہی معاف کرتے ہیں۔ ہاتھی یہ نہیں بھول سکتا۔ اس نے دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کو بھی ناپسند کیا تھا۔ ترکی، کوریا اور یونان کے حل کے لیے پاکستان سے جو امداد گئی تھی ہاتھیوں نے اس پر بھی غصے کا اظہار کیا تھا۔“

”میں چند روزہ اقتدار کے لیے اپنے خیالات اور فلسفے کو قربان نہیں کر سکتا۔ مجھے اپنے خیالات اور نظریات سے محبت ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے عوام سے الگ نہیں کرسکتی۔ اگر کبھی قوم کو میری ضرورت پڑی اور اس نے مجھے مدد کے لیے پکارا تو میں یقیناً آوں گا۔ سیاست دان کے مقدر کا انحصار عوام کی خواہشات پر ہوتا ہے۔ مجھ عہدوں سے دلچسپی نہیں میں با اصول آدمی ہوں میرے خیالات کی وجہ سے لوگ مجھے پسند کرتے ہیں۔ میں کسی قیمت پر بھی یہ خیالات قربان نہیں کر سکتا۔“

”ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ملک میں عوام کا راج، غریبوں کا راج، کسانوں اور مزدوروں کا راج قائم نہیں ہوجاتا“

”آخری فیصلہ قیامت کے دن ہوگا۔ تاریخ میں آخری فیصلہ نہیں ہوتا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments