پریشان رملا


عاصم دس سال یورپ میں گزارنے کے بعد پاکستان آیا جس کے پاس سنانے کے لیے بے شمار کہانیاں تھیں۔ وہ بھی ان لوگوں میں سے ایک تھا جو اپنے روشن اور بہتر مستقبل کے لیے دیار غیر میں روزگار کی تلاش میں گیا۔ اس دوران ایک سے دوسرے ملک تک کے سفر کیے اور نہ جانے کتنی صعوبتیں برداشت کیں۔ مگر کچھ پانے کی طلب میں ایسے کٹھن مرحلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عاصم کی مشکلات کا آغاز پاکستان سے روانگی پر ہو گیا تھا۔ وہ اپنے بھائی کے پاس ڈنمارک گیا جہاں ایڈجسٹ ہونے کے لیے سب سے پہلے ڈینش زبان سیکھنا پڑی۔

اور فوری طور پر ایک پیٹرول پمپ پر نوکری کی، وہ بھی رات کی ڈیوٹی ہوتی کیونکہ غیرقانونی افراد کو ابتدا میں اسی نوعیت کے کام ملتے ہیں۔ عاصم کے لیے یہ تجربہ نیا تو تھا ہی لیکن کچھ تلخ بھی ثابت ہوا، جس میں واجبی سا معاوضہ ملتا اور گوروں کی گالیاں بھی اضافی وصول کرنا پڑتیں۔ اس وقت اپنا ملک اور اپنے یاد آتے، جہاں کم از کم اتنی آسانی سے کوئی بے عزتی تو نہیں کرتا تھا۔ عاصم کو شروع شروع میں اس ماحول سے خوف آتا وہ کئی بار اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھ کر گھر والوں کو یاد کر کے روتا اور سوتے میں آنکھ کھل جاتی۔

اسے وہ لمحے ذہن میں تازہ ہو جاتے جب بڑے فخر سے وہ دوستوں کی محفل میں اپنے باہر جانے کی تیاریوں اور وہاں جاکر بڑے بڑے تیر چلانے کے دعوے کرتا تھا۔ پیٹرول پمپ پر کام کے دوران پہلے پہلے یہ فکر بھی لاحق رہتی کہ اپنے شہر کا کوئی جاننے والا دیکھ نہ لے اور پاکستان میں کسی کو بتا نہ دے۔ وہ اپنے بھائی سے بھی پوچھتا کہ کوئی بہتر ملازمت دلا دے تاکہ اچھے معاوضے کے ساتھ ساتھ باعزت روزگار بھی مل جائے۔ جواب میں بھائی کا کہنا تھا جناب یورپ میں اپنے قدم جمانے کے لیے پیٹرول پمپ پر کام، ٹیکسی چلانا اور سٹوروں پر سیلزمین کی جاب کو عار نہیں سمجھا جاتا تم فکر نہ کرو حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔

عاصم بہتر حالات کی تگ ودو میں رہا، مشکلات پر قابو پانے کی عادت بنالی، ذہن کو بری سے بری صورتحال کے لیے تیار کر لیا۔ وہ دانستہ پاکستانیوں سے دوستی رکھنے سے اجتناب کرتا اور پوری توجہ مقامی لوگوں کی قربت حاصل کرنے پر مرکوز رکھتا اس کا مقصد خود کو ان کے ماحول میں آسانی سے ڈھالنا تھا۔ ایک سال ایسے ہی گزار دیا اس دوران گھر والوں سے رابطہ بھی کم ہی رکھا لیکن انہیں سب اچھے کی رپورٹ دیتا رہا۔ تھوڑا بہت بچا کر رقم دوسرے تیسرے ماہ پاکستان بھیج دیتا ساتھ میں یہ پیغام بھجواتا کہ وہاں ایڈجسٹ کر رہا ہوں۔

عاصم کے لیے ایک مسئلہ تکلیف دہ تھا وہ اس کی اہلیہ سے دوری تھی جسے بعض اوقات وہ فون کر کے سمجھاتا رہتا کہ جلد حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور وہ اسے بھی ساتھ لے جائے گا۔ لیکن اس عمل کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔ یہ بات کم از کم جانتا تھا کہ یہ کام کوئی آسان نہیں ہے۔

اسے بس یہی فکر رہتی کب تقدیر بدلے گی اور پیسے کی ریل پیل ہوگی۔ عاصم نے ڈنمارک سے سویڈن کا رخ کیا جہاں اس کے ایک دوست نے بلایا وہاں اسے ایک سٹور کا فلور منیجر مقرر کر دیا بظاہر سننے میں بڑا اچھا عہدہ لگتاہے، لیکن حقیقت میں یہ نگرانی کا کام تھا۔ کیونکہ اس کا ڈیل ڈول ٹھیک تھا اسی بنا پر اس کو یہ کام ملا۔ فرائض میں ہر گاہک پر نظر رکھنا ہوتا تھا اور کسی قسم کی چوری یا غیر اخلاقی سرگرمی کو پکڑنا ہوتا۔ ڈیوٹی کے دوران مسلسل آٹھ گھنٹے کھڑے رہنا بلکہ چلتے پھرتے رہنا۔

اگرچہ اس میں معاوضہ سیلز بوائے سے زیادہ ملتا مگر کام سے واپسی پر وہ کمرے میں جاکر بستر پر گر جاتا اور اسے کچھ نہ سوجھتا۔ اسی دوران کسی پاکستانی محلہ دار سے ملاقات ہو گئی پہلے وہ بڑی گرمجوشی سے ملے، جب عاصم نے اپنی روداد سنائی تو اس نے کہا کہ جو کام تم کر رہے ہو وہ محض چوکیداری یا کہہ لو گارڈ کا کام ہے۔ اس میں کوئی عزت نہیں۔ کیونکہ یورپ میں رہنے والوں کو علم ہے کہ یہ فضول جاب ہے۔ ویسے ڈنمارک میں اس کے بھائی نے بھی سمجھایا تھا کہ یہیں اچھی نوکری مل جائے گی تم پریشان نہ ہو۔

اب یہاں چھ ماہ گزر گئے صرف اتنا ہوا کہ اب وہ کچھ زیادہ رقم گھروالوں کو بھیج رہا تھا۔ اسی دوران کسی نے بتایا کہ اگر وہ ٹیکسی قسطوں پر خرید لے تو اسے چلانے میں زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس نے یہ کوشش بھی کر کے دیکھ لی۔ اس کام میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جن میں نہ صرف گوروں نے بے عزتی کی بلکہ نوبت لڑائی جھگڑے اور پولیس تھانے تک پہنچ گئی۔ ایک بار چھوٹی سی بات پر اسے دو رات لاک اپ میں گزارنا پڑے، ضمانت پر بھی اچھا خاصہ خرچ آ گیا۔ اس نے شکر کیا کہ ٹیکسی کو ضبط نہیں کیا گیا۔ اس سارے عرصے میں عاصم کو اپنی غیر قانونی شہریت کا مسئلہ بھی درپیش رہا۔ وہ اس کوشش میں رہا کہ کسی طرح قانونی حیثیت حاصل کرلے۔ کیونکہ ایسی صورتحال میں عدم تحفظ کی تلوار سر پر لٹکی رہتی ہے۔

عاصم کے لیے سب سے تکلیف دہ بات اپنی رہائش تھی اسے ایک ایسے کمرے میں رہنا پڑتا تھا جس میں چار اور افراد بھی ہوتے جن میں دو پاکستانی، ایک بھارتی اور ایک بنگلہ دیشی تھا ہر کسی کا مزاج ایک دوسرے سے نہیں ملتا تھا، اگرچہ ان لوگوں نے محض وہاں سونا ہی ہوتا تھا اس کے علاوہ زیادہ بول چال کا موقع بھی نہیں ملتا تھا۔ لیکن کوئی صفائی پسند ہے تو دوسرا انتہائی گندگی پھیلانے والا اور کوئی بالکل اردگرد سے بے پروا، ایسے میں اکٹھے رہنا کسی سزا سے کم نہیں تھا۔ عاصم کی ایک بار اپنے پاکستانی روم میٹ سے جھگڑا ہو گیا

وہ یورپ کی زندگی کو پاکستان سے بہتر قرار دیتے ہوئے اپنے ملک کو کوسنے دے رہا تھا۔

عاصم نے اسے کہا کہ یہاں تم لوگ پیٹرول پمپوں پر کام کرتے ہو، ہوٹلوں میں برتن دھوتے ہو، ٹیکسی چلاتے ہو اور ایسے کام کرتے ہو جنہیں اپنے ملک میں کبھی نہ کرو۔ کیا اس سے تمہاری عزت بڑھ جاتی ہے، محض چند ڈالروں کے لیے یہ سب کر کے کیا ہم اپنا نام روشن کر رہے ہیں۔

اس نے جواب دیا کہ ہمارے ملک نے ہمارے لیے کیا کیا ہے، جس پر فخر کریں، عاصم کا استدلال تھا کہ اس سب کے لیے کسی نے ہم پر دباؤ نہیں ڈالا یہاں ہم جائے اگر وہاں حالات اچھے ہوتے تو ہمیں یہاں خوار نہ ہوتا پڑتا۔ اپنی مرضی سے آئے ہیں۔

اس نے کہا مجبوری میں ایسا کیا ہے، وہاں رہتے تو بھوکے مر جاتے۔
عاصم نے کہا یہی ہماری خام خیالی ہے اپنی کسی چیز کو اچھا نہیں کہتے دوسروں پر نظر رکھتے ہیں۔

دونوں کی لڑائی کا یہ انجام ہوا کہ عاصم کو کمرہ چھوڑنا پڑا اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ اسے سپین جانے کا موقع ملا اور وہ بارسلونا چلا گیا۔ جہاں ایک دوست کی کمپنی میں ایک اچھے عہدے پر لگ گیا۔ اب وہ نسبتاً بہتر زندگی گزارنے لگا اور گھروالوں کو بھی ایک مناسب رقم بھیجتا کیونکہ یہی خوشحالی کا ابتدائی پیمانہ ہوتا ہے۔ اب وہ سال بعد پاکستان بھی آ جاتا اور اس دوران دوستوں کو اپنی کہانیاں سناتا۔ جس میں برے دنوں کے قصے اب کم ہو گئے تھے بلکہ جو لوگ خراب صورتحال سے دوچار رہتے انہیں قدرے مزاح کے طور پر بیان کرتا۔

جیسے پاکستانیوں کو یورپ میں رہنے کی تمیز نہیں یہ لوگ مقامی زبان سیکھنے پر توجہ نہیں دیتے، کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور پاکستانی گانے سنتے اور پنجابی رقص دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ بارسلونا کی ایک اہم شاہراہ رملا پر جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور جس حالت اور پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھا جاتا ہے اس کے پیش نظر سڑک کا نام پریشان رملا پڑگیا ہے۔ بقول عاصم درحقیقت یہ وہ پاکستانی ہیں جو ملک سے ہی پریشانی ساتھ لے کر آئے ہوتے ہیں مزید خراب صورتحال کا سامنا نہ کر پانے پر ان کے لیے اپنی پریشانی کو چھپانا ممکن نہیں ہوتا۔

مجبوراً وہ رملا سٹریٹ میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ہسپانوی زبان مفت سیکھنے کے سنٹر موجود ہیں مگر یہ لوگ کمروں میں بیٹھ کر گانے سننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حتٰی کہ جب کہیں جانا ہوتا ہے تو ایسے پاکستانی کو تلاش کرتے ہیں جسے مقامی زبان آتی ہو۔ یعنی یہاں بھی ڈنگ ٹپاؤ انداز اپنایا ہوتا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک پاکستانی سے ملا وہ سارا دن سویا رہتا تھا اس نے اپنے فریج میں بیئر کی بوتلیں رکھی تھیں میں سمجھا شاید پریشانی کے عالم میں اس کا سہارا لیتا ہے، لیکن معلوم ہوا کہ شام کو سڑکوں پر کھڑے ہو کر بیئر بیچتا ہے۔ اس دوران کئی بار پولیس چھاپے مارتی ہے اور گرفتاری کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اس طرح بیچنا غیر قانونی ہے۔ لیکن چند یورو مل جاتے ہیں دیہاڑی بن جاتی ہے اور اس کا گزارا ہوجاتا ہے۔

عاصم کو ایک بات پر بڑا اعتراض تھا کہ کامونکی، میاں چنوں، گوجرانوالہ اور دیگر چھوٹے شہروں سے گئے لوگوں کا بودوباش بڑا عجیب وغریب ہوتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ لوگ پاجامے کے نیچے چپل پہن کر باہر نکل آتے ہیں، اور اگر کبھی ان کے اپارٹمنٹس میں جانے کا اتفاق ہو جائے تو وہاں مصالحہ دار کھانوں کی بقول عاصم بو پھیلی ہوتی ہے۔ چونکہ وہ اب یورپ کی زندگی کا عادی ہو چکا ہے اس لیے یہ سب کچھ اسے خود بھی اچھا نہیں لگتا۔

لیکن ایک چیر اب بھی اسے ستاتی ہے وہ شہریت مل جانے کے باوجود نہیں پا سکا یعنی مقامی لوگوں کی جانب سے قبولیت وہ اسے اب بھی غیرملکی کے طور پر لیتے ہیں، جو یقیناً ایک حقیقت بھی ہے۔ وہ یہاں اجنبیت کا شکار ہے۔ اور اسی پریشانی میں مبتلا بھی رہتا ہے جس کے نتیجے میں اسے کبھی کبھار پریشان رملا میں بیٹھے اپنے پاکستانی بھائیوں سے جاکر اظہار یکجہتی کرنا پڑتی ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم کرچکا ہے کہ یہ اس کا دیس نہیں اور ایک نہ ایک دن اسے واپس پاکستان ہی لوٹنا ہے۔ لیکن اس مقصد کے لیے بھی وہ کسی اچھے وقت کا منتظر ہے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments