ایک ہیرو کئی ٹوپیاں


عمران خان کی کابینہ میں ہمارے سب سے زیادہ پسندیدہ وزیر جناب فواد چوہدری نے گزشتہ دنوں انڈیا سے تجارت کھولنے اور یکلخت بند کر دینے کے معاملے پر حسب معمول ایک حقیقت پسندانہ بیان دیا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم مختلف طرح کی ٹوپیاں پہنتے ہیں، بطور وزیر تجارت انہوں نے انڈیا کے ساتھ تجارت کی سمری سائن کی مگر جب انہوں نے وزیراعظم کی ٹوپی پہنی تو انہوں نے سمری مسترد کر دی۔ خیر سیاست تو کبھی ہماری سمجھ میں نہیں آئی اس لیے اس پر تبصرہ نہیں کریں گے مگر انڈیا اور مختلف ٹوپیاں پہننے کے حوالے سے ہمیں بعض بھارتی فلمیں یاد آ گئیں جن میں ہیرو ہدایتکار کے کہنے پر بہت سی ٹوپیاں پہنتے تھے۔ آئیے ان کی بات کرتے ہیں۔

سب سے عام فلمی ٹوپی تو یہ ہے کہ ہیرو پہلے باپ کی ٹوپی پہنتا ہے۔ اس کے بعد وہ دو بیٹوں کی ٹوپیاں پہن لیتا ہے۔ ان میں سے عموماً ایک بیٹا بہت اچھا ہوتا ہے اور دوسرا بہت برا۔ اس قسم کی ٹوپیاں شاہ رخ خان نے فلم ”انگلش بابو دیسی میم“ ، امیتابھ بچن نے ”مہان“ ، دلیپ کمار نے ”بیراگ“ میں پہنیں۔ لیکن باپ بیٹے کی ٹوپیوں کے علاوہ بھی اداکار ایک ہی فلم میں کئی مختلف ٹوپیاں پہنتے رہے ہیں۔

یہاں ہم اداکاراؤں کا ذکر نہیں کرتے ورنہ پریانکا چوپڑا یاد آ جائیں گی جنہوں نے ”وٹس یور رشی“ میں بارہ مختلف ٹوپیاں پہنیں۔ ہم ان کی بجائے رجنی کانت کی ”جون جانی جنادھن“ یاد کر لیتے ہیں جس میں انہوں نے تین ٹوپیاں پہنیں۔ متھن چکرورتی نے ”رنگباز“ میں تین سے بھی زیادہ ٹوپیاں پہنیں، گووندا نے تو ”حد کر دی آپ نے“ میں پورے خاندان کی ٹوپیاں اور آنچل اپنے سر پر لیے اور ایک گھر کے نہ صرف مردوں بلکہ خواتین کے کردار بھی ادا کیے۔

کشور کمار نے ”بڑھتی کا نام داڑھی“ میں پانچ ٹوپیاں پہنیں۔ مگر اصل کام تو سنجیو کمار نے کیا۔ انہوں نے فلم ”نیا دن نئی رات“ میں نو مختلف ٹوپیاں پہنیں۔ یہ کردار دلیپ کمار کو آفر ہوا تھا مگر انہوں نے یہ ٹوپی سنجیو کمار کو پہنا دی۔ اس میں سنجیو کمار نے ہندوستانی آرٹس کے ”نو رس“ میں اپنا لوہا منوایا۔ یہ نو رس محبت، ہنسی، غم، غصہ، بہادری، خوف و دہشت، تنفر، حیرت اور سکون کے جذبات کا اظہار ہیں۔

فلم کی کہانی یوں ہے کہ ایک کنواری کنیا سشما نامی کا ابا اس کی شادی کرنا چاہتا ہے سشما کا خیال ہوتا ہے کہ وہ ابھی بہت کم عمر ہے۔ وہ گھر سے بھاگ جاتی ہے اور مختلف ٹوپیوں والے سنجیو کمار سے ملتی ہے۔ سنجیو کمار کی پہلی ٹوپی ایک رنڈوے باپ کی ہے، دوسری چکلے پر ایک مدہوش گنوار کی، تیسری ایک نفسیات دان کی جو سشما کو اپنے پاگل خانے میں داخل کر لیتا ہے، چوتھی ایک خوفناک ڈاکو کی جو اپنے دشمن کے ٹکڑے کر کے انہیں چیل کووں کو کھلا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑے گا، پانچویں ایک برگزیدہ مذہبی انسان پنڈت گورکھ ناتھ کی جو درحقیقت ایک سمگلر ہوتا ہے، چھٹی ایک امیر شخص کی جو جذام زدہ ہونے کی وجہ سے اب ہر جگہ دھتکارا جاتا ہے، ساتویں ایک مخنث اداکار کی، آٹھویں ایک شکاری کی جو سشما کو ایک آدم خور شیر سے بچاتا ہے۔ اور نویں ظاہر ہے کہ ایک محبت کرنے والے ہیرو کی جو سشما کو شادی کے لیے پسند آ جاتا ہے۔

اس فلم میں خاص طور پر بظاہر نہایت نیک اور مذہبی پنڈت گورکھ ناتھ کی ٹوپی میں سنجیو کمار کی پرفارمنس کو خوب سراہا گیا۔ ایک طرف وہ بہت مذہبی اور خوف خدا رکھنے والا شخص بنتا تھا جسے دنیا کی مال و دولت میں کوئی دلچسپی نہیں اور دوسری طرف درحقیقت وہ پیسے کا لالچی تھا۔ دوسرا اہم کردار اس خوفناک ڈاکو کا تھا جو بہت خوفناک انداز میں غرا کر کہتا تھا کہ وہ اپنے دشمنوں کو نہیں چھوڑے گا اور بدلہ لے کر رہے گا۔

بہرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فلم میں ان کئی ٹوپیوں والے کرداروں سے جان پڑ جاتی ہے۔ ایک اداکار بیک وقت کئی مختلف کردار ادا کر کے اپنے جوہر دکھاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسے یہ سب ٹوپیاں ہدایت کار پہناتا ہے اور اس کی سکرین پر نظر آنے والی پرفارمنس کا کریڈٹ پس پردہ موجود ہدایت کار کو جاتا ہے۔ ختم شد۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments