نظریاتی نون لیگ، مفاہمتی پیپلز پارٹی، ڈگمگاتی حکومت اور اپوزیشن


سابق وزیراعظم میاں نواز شریف جب سے نظریاتی ہوئے ہیں۔ اور ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے دل پذیر نعرے کو لے کر عوام کے درمیان آئے ہیں، کم از کم صوبہ پنجاب میں ان کی مقبولیت میں جہاں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، وہیں ان حلقوں میں ان کی قبولیت کے درجات میں شدید کمی دیکھنے میں نظر آ رہی ہے، جو میاں صاحب کو اقتدار کی سیڑھی پر چڑھاتے اتارتے رہے ہیں۔ اس ناکامی کے بعد ہی جناب زبیر عمر، بڑے میاں صاحب اور محترمہ مریم صاحبہ کے ترجمان مقرر ہوئے۔

میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف پیپلز پارٹی کی گزشتہ وفاقی حکومت کے خلاف اور خصوصی طور پر سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف جس طرح اور جن کے اشاروں پر سرگرم عمل رہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔

2013 میں جب میاں صاحب وزیراعظم بنے، تو حسب سابق و معمول دھاندلی کا شور سنائی دیا۔ اس شور میں سب سے نمایاں آواز جناب عمران خان کی تھی۔ دھاندلی کے خلاف احتجاج اور دھرنے کے اندرون و بیرون ملک تانے بانے بنے گئے اور جناب علامہ طاہر القادری انقلاب کے لیے گھن گرج اور طمطراق کے ساتھ پاکستان وارد ہونے کے لیے پر تولنے لگے۔

علامہ صاحب کی آمد پر جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ اور وطن عزیز میں ایسے ابواب پر پردے پڑے رہنے اور ایسے ابواب میں ملوث افراد کو بچانے، بلکہ عہدوں سے ترقی دینے کا رواج ہے، سو ایسا ہی ہوا۔ 2014 کے دھرنے میں قریباً ساری جماعتیں، سوائے متحدہ اور ق لیگ میاں صاحب کی پشت پر نظر آئیں اور میاں صاحب کو جمہوری و سیاسی حمایت کا یقین دلاتی رہیں۔ جب کہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے رہنما نیب کیسز سے نمٹ رہے تھے۔

دھرنے کے اختتام پر میاں صاحب کے اعتماد میں اس قدر اضافہ ہوا کہ ان قوتوں سے ٹکر لینے کی ٹھانی، جنہوں نے ستر سالوں سے ملک کا بیڑا، بیڑا غرق کرنے کے لیے اٹھایا ہوا ہے۔ نتیجتاً، جہاں وزراء کی قربانی دینی پڑی، سابق صدر زرداری سے طے شدہ ملاقات سے انکار کرنا پڑا، وہیں ایک بار پھر سازش کے تحت اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔

تیسری دفعہ اقتدار سے ہاتھ دھونے کے بعد میاں صاحب نے فرمایا، کہ وہ نظریاتی ہو گئے ہیں۔ میاں صاحب کے نظریاتی ہونے کا پیپلز پارٹی نے میاں صاحب کی سابقہ سیاسی روش کو مدنظر رکھتے ہوئے، کوئی نوٹس نہیں لیا اور بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کا باعث بنی۔ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں جو کچھ ہوا، ان سب کی پشت پر بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تھیں۔

2018 کے عام انتخابات میں طے شدہ منصوبے کے تحت تحریک انصاف کو وفاق اور پنجاب میں حکومت ملی۔ تبدیلی کے دعوے دار وزیراعظم نے سال ڈیڑھ سال میں ہی جہاں عوام کی چیخیں نکلوا دیں، وہیں ان پر اعتماد کرنے والی قوتوں کو بھی چکرا کر رکھ دیا اور وہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ ہم کیا کر بیٹھے؟

ایسی صورت حال میں پیپلز پارٹی نے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اور کانفرنس میں شامل جماعتوں کے قائدین نے سیاسی اتحاد پر اتفاق کیا اور پی ڈی ایم کی تشکیل ہوئی۔ جس کی قیادت کا ذمہ مولانا فضل الرحمان کو سونپا گیا۔ پی ڈی ایم نے ملک گیر جلسے جلوس کیے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی بات بھی کی گئی، ڈیڈ لائنز بھی دی گئیں۔

عام سیاسی بصیرت رکھنے والا صحافی اور سیاسی کارکن بھی اس امر سے واقف تھا، کہ اسمبلیوں سے اجتماعی طور پر مستعفی ہونا ممکن نہیں۔ چونکہ پیپلز پارٹی جلسے جلوسوں اور دھرنوں کی تو بطور اتحادی حامی رہی، لیکن استعفے دینے کی کامل ہامی کبھی پیپلز پارٹی نے نہیں بھری، ہاں ایک آپشن ضرور رکھا۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے قائدین سیاسی و جذباتی تقاریر جلسوں میں کرتے رہے۔

بالآخر پیپلز پارٹی نے اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے پر راضی کر لیا۔ 2008 کے عام انتخابات سے قبل بھی جناب زرداری صاحب نے محترم میاں صاحب کو انتخابات میں حصہ لینے پر راضی کیا تھا۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو نے فرمایا تھا ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ ۔ دل چسپی اور حیرت کا مقام ہے، کہ جب 2008 میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو نون لیگ ساتھ تھی۔ نون لیگ سے اتحاد ختم ہوا، تو ق لیگ ساتھ تھی۔ اور چوہدری پرویز الٰہی تو نائب وزیر اعظم بھی بن گئے۔

ملک قیوم جو ٹیلیفون سن کر فیصلے سنایا کرتے تھے۔ وہ اٹارنی جنرل بنائے گئے اور حسین حقانی نے جو کچھ مرحومہ بے نظیر بھٹو کی اولین حکومت کے دور میں کیا تھا۔ اس کے باوجود وہ بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ دکھائی دیے۔جس سے ثابت ہوا کہ واقعی جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ بد ترین سیاسی و غیر سیاسی مخالف جو ہمیشہ پیپلز پارٹی اور اس کے قائدین کے خلاف گھناؤنی سیاسی سازشیں، بے ہودہ زبان استعمال کرتے، بے سر و پا الزامات لگاتے اور کردار کشی کی مہم چلاتے رہے۔ بالآخر پیپلز پارٹی کی حکومت کا دم بھرتے رہے۔

حالیہ سینیٹ انتخابات میں بھی جناب یوسف رضا گیلانی کی بطور سینیٹر کامیابی میں بھی نون لیگ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ایسا محسوس ہی نہیں ہوا کہ کبھی میاں صاحب گیلانی صاحب کے خلاف کورٹ تشریف لے گئے تھے۔ لیکن پی ڈی ایم میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے معاملے میں اختلاف اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ ایک طرف نظریاتی مسلم لیگ نون ہے، تو دوسری طرف مفاہمتی پیپلز پارٹی۔

پی ڈی ایم میں اختلافات کے باوجود بھی حکومتی قدم ڈگمگائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن بھی کمزور ہوئی ہے۔ اور پی ڈی ایم اتحاد بھی ڈگمگا رہا ہے۔ جو حکومت اور اپوزیشن کی ڈگمگاہٹ کی پشت پر قوتیں ہیں، جن کا جادو ستر سال سے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ان کے لیے یہ صورت حال دل چسپ اور خوش کن ہے۔ مقابلہ نظریاتی اور مفاہمتی سیاست میں ہے۔ کون سا فریق کب نظریاتی سے مفاہمتی ہو جاتا ہے اور کون سا مفاہمتی سے نظریاتی۔ آئندہ عام انتخابات سے قبل پتا چل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments