توپ ڈاکٹر، چیتا سرجن اور تاریخ کی سب سے بڑی طبی غفلت


دوست سرجن نے باتوں باتوں میں بتایا کہ وہ شام کو کراچی میں پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے سب سے بڑے سرجن کے پاس جا رہے ہیں تاکہ سندھ کی ایک اہم سرکاری شخصیت کے آپریشن کی تاریخ لے سکیں۔ یہ آپریشن جسم کے ایک مخصوص حصے میں کینسر سے متعلق ہے۔ میں خود بحیثیت انیستھیسٹ ان سب سے بڑے سرجن کی جراحانہ مشاقی کا شاہد رہا ہوں۔ چنانچہ میں نے پوچھا: ”وہ عظیم سرجن تو جسم کے اس حصے کی جراحی میں مہارت نہیں رکھتے؟“

دوست کا جواب بڑا بے ساختہ تھا:

” ہمارے سائیں کو اپنے لئے ایک توپ ڈاکٹر درکار ہے۔ ویسے بھی بڑے سرجن چیتا آدمی ہیں۔ بلا خوف کسی بھی آپریشن میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ پورے صوبہ میں ایک بھی وی آئی پی مریض ایسا نہیں جسے ان کا نشتر نہ لگا ہو“

واضح رہے کہ جدید طبی اخفائے راز کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی یہ گفتگو محض خیالی ہے۔

بڑھی ہوئی شاہی تلی

اپریل 1974ء کو جب شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے پیٹ کے بائیں طرف سوجن محسوس کی تو ان کے ذاتی طبیب ڈاکٹر عیادی نے شاہی تلی بڑھ جانے کی تشخیص کی۔

اس ماہ کے اواخر میں ویانا میں روٹین کے چیک اپ کے دوران آسٹریا کے سب سے بڑے فزیشن پروفیسر کارل فیلنگر نے بتایا کہ شاہ کو ”لمفوما“ ہے۔ پروفیسر کارل فیلنگر کے مریضوں میں سعودی شاہ عبدالعزیز ابن سعود، افغان بادشاہ ظاہر شاہ اور پاکستانی فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق بھی شامل رہے۔

اگلے مہینے دو بہت بڑے فرانسیسی اطباء پروفیسر برنارڈ اور پروفیسر جارجیس فلانڈرن نے تہران میں شاہ کا معائنہ کیا اور مرض کا نام لیوکیمیا بتایا۔ لمفوما اور لیوکیمیا دونوں ہی خون کے سرطان کی اقسام ہیں۔ ڈاکٹر عیادی نے بین الاقوامی ڈاکٹروں سے درخواست کی کہ لفظ کینسر کا ذکر شاہ سے نہ کیا جائے۔ شاہی خاندان کے دیگر افراد بشمول ملکہ فرح دیبا اور شاہ کی جڑواں بہن شہزادی اشرف کو بھی اس تشخیص کی ہوا نہیں لگنے دی گئی۔ اس دوران خون کے متعدد نمونے فرانس بھیجے گئے۔

ستمبر میں شاہ کی تلی نے پھر تکلیف دی اور درج بالا ڈاکٹروں نے کلورمبیوسل سے کیمو تھراپی کا آغاز کر دیا۔ معاملے کو راز رکھنے کے لئے کلورمبیوسل کو ملیریا کی دوا کوئنرسل کی پیکنگ میں چھپا کر شاہ تک پہنچایا جاتا رہا۔ اس دوران تیار کی گئی ایک رپورٹ میں شاہ کو مکمل صحت مند لکھا گیا۔ اس رازداری کا مقصد غالباً شاہ کے سیاسی مخالفین اور امریکی سرپرستوں سے شاہ کی بیماری کو چھپانا تھا۔

کلورمبیوسل کی مقدار میں اضافہ سے تلی کا سائز سکڑنا شروع ہو گیا۔ لیکن اگلے سالانہ معائنے پر تلی ایک دفعہ پھر بڑھی ہوئی ملی اور خون میں ابنارمل خلیے بھی پائے گئے۔ تحقیق کرنے پر عقدہ کھلا کہ شاہ کے اہلکاروں نے غلط فہمی میں کلورمبیوسل کی بجائے کوئنرسل آرڈر کر دی تھی۔

رفتہ رفتہ ایران کے سیاسی حالات دگرگوں ہوتے گئے، عوامی انقلاب برپا ہو گیا ، شاہ اپنے خاندان سمیت ایران چھوڑ کر مصر، مراکش، بہاما، امریکہ اور میکسیکو کی خاک چھاننے پر مجبور ہو گئے۔ شاہ کی تکلیف بڑھتی گئی۔ میکسیکو سکونت کے دوران شاہ کو بخار اور یرقان ہو گیا۔ میکسیکن ڈاکٹرز جو اس بات سے قطعاً ناواقف تھے کہ رضا پہلوی کینسر کے مریض ہیں ہیپاٹائٹس اور ملیریا سمجھ کر ان کا علاج کرتے رہے۔ کچھ عرصے میں ایک نئی تشخیص آبسٹرکٹو یرقان یعنی صفرا کے بہاؤ میں مسدودی بتائی گئی۔ اس دوران شاہ کی حالت بگڑتی گئی۔

ایران کی نئی انقلابی حکومت اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے سبب صدر جمی کارٹر سابق شاہ ایران کی امریکہ آمد اور علاج کے حق میں نہیں تھے لیکن امریکی ارب پتی ڈیوڈ راک فیلر اور دانشور ہنری کسنجر کے دباؤ پر بالآخر اکتوبر 1979 کے اواخر میں رضا پہلوی کو نیویارک اسپتال میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی جہاں سی ٹی سکین سے ظاہر ہوا کہ شاہ کی تلی بڑھی ہوئی ہے اور ان کے پِتّہ میں موجود پتھری نے صفرا کا بہاؤ مسدود کر رکھا ہے۔

اسپتال کے سب سے بڑے سرجن جورن تھورب جارنسن نے پتہ نکالنے کا آپریشن کیا۔ آج کل یہ آپریشن لیپراسکوپی سے کیا جاتا ہے لیکن 1979 میں جب شاہ کی دائیں پسلیوں سے ذرا نیچے چیرا لگایا گیا تو اس وقت لیپراسکوپی کا وجود نہیں تھا۔ یہ آپریشن کرنے سے پہلے سرجن نے شاہ کے امریکی ماہر سرطانیات (آنکولوجسٹ) مورٹن کول مین کو مطلع کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ خبر ملنے پر جب کول مین نے جورن سے رابطہ کیا تو آپریشن شروع ہو چکا تھا۔ کول مین نے سرجن سے التجا کی کہ لگے ہاتھوں بیماری کا مرکز تلی بھی نکال دی جائے لیکن سرجن نے صاف انکار کر دیا۔

سرجری کے بعد پہلی مرتبہ شاہ کے کینسر میں مبتلا ہونے کی خبر عوام کو بتائی گئی ۔ غالباً اس کا مقصد عوامی ہمدردی حاصل کرنا تھا۔

کچھ ہی دنوں بعد شاہ کو ایک دفعہ پھر بخار اور پیٹ میں درد ہوا تو معلوم ہوا کہ کچھ پتھریاں ابھی تک صفرا کے بہاؤ کو مسدود کر رہی ہیں ، جنہیں نکالا گیا۔

ہم شاہ کی مشکلات اور تکلیف کی کہانی کو مختصر کرتے ہوئے 1980 تک آ جاتے ہیں ، جب شاہی اطباء کی ساری ٹیم اس فیصلے پر قائل ہو گئی کہ تلی کو آپریشن کر کے نکال دینے سے شاہ کی صحت سنبھل جائے گی۔

امریکہ میں سابق حکمران کی موجودگی کو جواز بناتے ہوئے ایرانی انقلابی طلبا نے تہران میں واقع امریکی سفارتخانے پر قبضہ کر لیا۔

دوسری طرف شاہی تلی نکالنے کے لئے بہت بڑے اور نامور سرجن کی تلاش شروع کی گئی ۔ اور تو اور شاہ کے پتہ کا آپریشن بگاڑنے والے جورن تھورب جارنسن سے بھی اس سلسلہ میں رابطہ کیا گیا۔ بالآخر قرعۂ فال لبنانی نژاد امریکی مائیکل ڈی بیکی کے نام نکلا جو بلاشبہ اپنے عہد کے سب سے نامور کارڈیوتھوریسک سرجن تھے اور جو دل اور سینہ کی جراحی میں کئی اختراعات کر چکے تھے۔ کچھ ماہرین نے دبی دبی آواز میں یاددہانی کرائی کہ ڈی بیکی کی عظمت اپنی جگہ لیکن وہ جنرل (پیٹ کے) سرجن نہیں۔

تاہم اس پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے گورگاز اسپتال پاناما میں 14 مارچ 1980 کو شاہ کو آپریشن کی غرض سے داخل کر لیا گیا۔ ڈی بیکی آئے لیکن آپریشن معینہ تاریخ کو نہیں کیا جا سکا۔ اسی اثناء میں یہ خبر عام ہوئی کہ ایران پاناما سے معزول شاہ کو گرفتار کر کے وطن بھیجنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انقلابی حکومت کے وزیر خارجہ صادق قطب زادہ نے جمی کارٹر کے خصوصی معاون سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ خود سی آئی اے شاہ کو ٹھکانے لگا دے۔ ان حالات میں شاہی جوڑے نے جان بچا کر مصر نکل بھاگنے کو ترجیح دی۔

چھ دن بعد قاہرہ کے المعادی ملٹری اسپتال میں ڈی بیکی کی چھ رکنی ٹیم نے شاہ کا آپریشن کیا۔ آپریشن میں ڈی بیکی کی معاونت مصری جنرل سرجن فواد نور کر رہے تھے۔ آپریشن کے دوران نور نے ڈی بیکی سے کہا: ”کیا یہ لبلبہ (پینکریاس) کی دم نہیں جو ہمارے شکنجۂ جراحت میں غلطی سے پھنس چکی ہے؟“ ڈی بیکی نے مصری سرجن کی بات رد کرتے ہوئے شکنجہ کے نیچے پھنسے عضو کو بڑے سے ٹانکے سے سی دیا۔ نور نے تجویز دی کہ کم از کم ایک نلکی اس مقام پر لگی چھوڑ دی جائے۔ ڈی بیکی نے اس احتیاط کو بھی غیر ضروری سمجھا۔ تلی نکالی گئی جس کا وزن 1900 گرام تھا۔ ایک صحت مند انسان میں تلی کا وزن 200 گرام سے کم ہوتا ہے۔ بعد میں خوردبینی مطالعہ سے ظاہر ہوا کہ تلی کینسر زدہ تھی۔ لبلبہ کے کچھ ٹکڑے بھی نمونے میں پائے گئے۔

آپریشن کے کچھ دن بعد شاہ کو جب بائیں شانے کے نیچے درد محسوس ہونے لگا تو اس وقت تک ڈی بیکی ہیوسٹن واپس جا چکے تھے جہاں ایک بہت بڑے ہیرو کے طور پر اخبارات ان کے انٹرویوز کر رہے تھے۔

ہزاروں میل دور وی وی آئی پی مریض کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی۔ اس کا بخار کسی طرح کم نہیں ہوتا تھا۔ امریکی ڈاکٹروں کے غول آتے اور انتقال خون، اینٹی بایوٹکس وغیرہ کی ہدایات جاری کرتے۔ ڈی بیکی نے ہیوسٹن سے ہی شاہ کے ایکسرے کا معائنہ کر کے نمونیا کا خدشہ ظاہر کیا۔ شاہ کی سانس کی نالی کا معائنہ برانکوسکوپی کیا گیا جو کافی تکلیف دہ عمل ہے۔

جون کی ابتدا میں شاہ کے جگر کے پاس پھوڑے (سب فرینک ایبسس) کی تشخیص کی گئی۔ یہ وہی تشخیص تھی جس کا اظہار ڈاکٹر نور اور فلانڈرن پہلے دن سے کر رہے تھے۔ فرانس سے بلائے گئے مایہ ناز سرجن فاگ نیئز نے 30 جون کو ایک دفعہ پھر شاہ کا پیٹ چاک کیا۔ ڈیڑھ لیٹر پیپ جس میں لبلبہ کے گلے سڑے ٹکڑے نکالتے ہوئے مصری اور فرانسیسی سرجنز کی شادمانی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ عظیم سرجن ڈی بیکی کی غلطی اور حد سے زیادہ خود اعتمادی سے زخمی شدہ لبلبہ سے رسنے والے مواد نے شاہ کی شکم کو تہس نہس کر دیا تھا۔

اس آپریشن کے بعد شاہ کی حالت سنبھل نہ سکی 26 جولائی کو وہ اندرونی طور پر خون بہہ جانے سے بے ہوش ہو گئے اور 27 جولائی کو جہان فانی سے کوچ کرگئے۔

اپنے دور اقتدار میں شاہ ایران مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اتنے ہی اہم اثاثے تھے جتنے پاکستان کی تاریخ میں ایوب، یحییٰ، ضیاء اور مشرف جیسے فوجی ڈکٹیٹر رہے۔ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد ان کی مسلسل بیماری، بحیثیت مریض ان کے حقوق کی پامالی، غیر معیاری علاج، طبی غفلت، امریکی بے اعتنائی سب کچھ ایک عبرت ناک داستان ہے۔

جدید طب اور غیر معمولی ڈاکٹر کا تصور

غیر معمولی طبیب کا تصور عہد وسطیٰ کا ورثہ ہے۔ شواہد پر مبنی جدید طب میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔ پچھلے ایک سو سال سے طب کی کتنی ہی نئی شاخیں وجود میں آ گئی ہیں جن میں تسلیم شدہ سند، معیاری تربیت اور مطلوبہ تجربہ حاصل کر کے ہر طبیب دوسرے ہم رتبہ طبیب کے ہم پلہ ہو جاتا ہے۔ جدید طب ایک فن نہیں بلکہ سائنس ہے۔ ہر ملک کی میڈیکل لائسنسنگ ادارے پر فرض ہے کہ وہ جدید ترین طبی اخلاقیات کا سخت نفاذ یقینی بنائے۔ یہ اخلاقیات مریض کی خودمختاری کو یقینی بناتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان اصولوں سے طبیب کو شفافیت کے ساتھ پریکٹس کرنے میں مدد ملتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments