نیا دیوتا، احتساب کا فریب اور تیسری نسل


1947 میں ہم آزاد ہوئے، ہمارے بڑے انہی برسوں کے اردگرد اس دنیا میں تشریف لائے۔ جب انہوں نے ہوش سنبھالا دور ایوبی تھا اور تازہ بہ تازہ زمینی فتح اور میز پر شکست کا شور و غوغا تھا۔ نوجوان بھٹو کے دیوانے تھے۔ ’اسلام ہمارا دین اور سوشلزم ہماری معیشت ہے‘ کا نعرہ مستانہ عروج پر تھا۔ روٹی کپڑا مکان والی ٹرک کی بتی روشن تھی جو سب کے لئے مشعل راہ تھی۔

اس نسل نے بھٹو کو منزل کا راہبر سمجھ لیا اور چل پڑے، مگر آدھا ملک گنوانے (باقی بچا ہوا جس کے متعلق بھٹو نے کہا ”شکر ہے پاکستان بچ گیا“ کیونکہ اس کے لئے تو مغربی پاکستان ہی اصل پاکستان تھا جہاں اس کی اکثریت تھی) کے باوجود اس نسل نے اپنی امید زندہ رکھی۔ لیکن 1973 کے متفقہ آئین میں پہلی ترمیم 1974 میں ہی کر دی گئی اور اس کے بعد سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ اختلاف کرنے والوں کی ٹانگیں اور پیروکاروں کی امیدیں دم توڑتی رہیں۔ حکمرانوں کو عقل آئی اور نہ ہی ان کے ہرکاروں کو۔ کچھ وفاداروں کے علاوہ سب پیچھے ہٹ گئے۔

اور پھر اسلام والے آ گئے۔ نفاذ اسلام کے نام پر ایک لمبی چوڑی بساط بچھائی گئی۔ مگر حاصل وہی صفر۔

1985 کے الیکشن تک دوسری نسل تیار ہو چکی تھی، یعنی ہم لوگ۔ مرد مومن کے نعرے دلوں کو گرماتے رہے، اسلام کے ساتھ ساتھ 85 میں جمہوریت کا تڑکا بھی لگ گیا۔ جونیجو صاحب نے کوشش کی مگر آمریت وار کر گئی۔ 88 میں جب تاحیات صدارت اللہ کے بلاوے پر ختم ہوئی تو ہم سے انتقام لینے جمہوریت آ گئی اور ایسا انتقام لیا کہ آج تک یہ ملک اور اس کے عوام اس عبرتناک دور کو یاد کرتے اور آہیں بھرتے ہیں۔ جمہوریت کا میوزیکل چئیر والا کھیل چلتا رہا، سربازار عزتیں اچھلتی رہیں۔ نفرت کا کاروبار بام عروج کر چھونے لگا، مگر ابھی تک یہ صرف پارٹیوں کے ممبران اور انتہا پسند پیروکاروں تک محدود تھا۔ عوام اس سے دور ہی رہے۔

اور ایک دن جس کو خود چنا گیا تھا ، اس نے ان کو چن دیا۔ وہی مارشل لاء اور وہی عزیز ہم وطنو!

ملک کا دفاع کرنے والے ایک بار پھر اپنے ہی ملک کو فتح کرنے پہنچ گئے۔ ’ڈرتا ورتا نہیں‘ ایک ہی کال پر سب کچھ ہار گیا اور ملک کو عجیب و غریب جنگ میں جھونک دیا۔ دہشت گردی عروج پر تھی اور ہماری فوج اپنے ہی ہم وطنوں سے منہ چھپانے لگی۔ 1971 کے بعد ایک اور ذلت و رسوائی کا سامنا تھا۔ مرد مومن کی طرح کمانڈو نے بھی اپنی ایک سیاسی حکومت بھان متی کا کنبہ اکٹھا کر کے بنائی ، جس نے اسے 10 بار وردی میں صدر منتخب کروانے کی قراردادیں اسمبلیوں سے منظور کروائیں۔ لیکن وقت کا دھارا بدلا، قدرت کا ایجنٹ حرکت میں آیا اور ’بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘ کے مصداق کمانڈو رخصت ہو گیا۔

جمہوریت کا کھیل دوبارہ رچایا گیا، جی بھر کر لوٹا کھسوٹا گیا۔ ہم کڑھ کڑھ کر بڑھاپے کی طرف رواں دواں تھے کہ اچانک ایک اور مرد میدان اس سیاسی کارزار میں اترا۔

ہماری تیسری نسل جوانی کی حدود میں داخل ہو چکی تھی اور ان کے لئے وہ پہلے ایک ہیرو کھلاڑی تھا اور پھر سماجی خدمت کا دیوتا۔ اب دیوتا نے اس ملک کا درد پال لیا تھا اور کرپشن کے خلاف ایک ننگی تلوار بن چکا تھا۔

اب ٹیکنالوجی کا دور تھا اور معلومات کا سیلاب تھا کہ تھمتا نہیں تھا۔ نئی نسل اس ٹیکنالوجی سے آشنا تھی۔ انہوں نے دیوتا کو لیڈر بنا لیا اور اس کے سہانے خواب دیکھنے لگے۔ لیکن ایک اڑچن تھی کہ اس پیروکاروں کے سیلاب میں آدھی تعداد کم تعلیم یافتہ تھی لیکن ٹیکنالوجی کے سب ماسٹر تھے۔ موبائل فونز، فیس بک، ٹویٹر ہر جگہ یہ لوگ موجود تھے۔

سوشل میڈیا طوفان نے نئی نسل کو بہت زیادہ اور ہماری نسل کے لوگوں کو حصہ بقدر جثہ بدتہذیبی اور تضحیک و تحقیر کا نشہ لگا دیا۔ آپ کسی کو اس کے منہ پر تو کچھ نہیں کہہ سکتے مگر سوشل میڈیا ایسا پلیٹ فارم تھا جس پر جو مرضی آئے کہیں، جس کو چاہیں جی بھر کے لتاڑیں۔ یعنی مادر پدر آزاد سنا کرتے تھے اب اس کا تجربہ ہو رہا تھا۔

لگتا تھا کہ دیوتا کے پاس جادو کی چھڑی ہے جس سے وہ سب کچھ لمحوں میں نہیں تو کم از کم مہینوں میں کچھ نہ کچھ بدلاؤ لے آئے گا۔

بہرحال اس پرجوش کرپشن کے خلاف جہاد عظیم میں دیوتا کو کامیابی ملی اور وہ ملک کے سربراہ کی کرسی تک پہنچ گئے۔ ہماری نسل کے وہ لوگ جنہوں نے مثبت امیدیں باندھ رکھی تھیں اور پرجوش نوجوان طبقہ اب آس لگائے بیٹھا تھا کہ کرپشن کا تیا پانچہ بس ہوا ہی چاہتا ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اقتدار کے لوازمات کچھ اور ہوتے ہیں۔ اس کی اقدار اپوزیشن والی نہیں ہوتیں۔ اب دیوتا کو احساس ہو رہا تھا کہ جو کچھ وعدے کیے تھے ، ان کا پورا کرنا دور کی بات ، ان کو چھیڑنا بھی دوبھر ہے۔ کیونکہ اپوزیشن کرتے وقت اس کی پوزیشن کچھ اور تھی مگر اب وہ اقتدار کی اس دیوار پر بیٹھا تھا جہاں سے اسے دونوں اطراف صاف صاف نظر آ رہا تھا۔

اب اسے ان لوگوں کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی جن کے خلاف جہاد کا اعلان کر کے وہ اقتدار تک پہنچا تھا۔ اب اسے کچھ تکلیف دہ سمجھوتے کرنا تھے۔ ہر وہ کام کرنا تھا جس کے خلاف اس نے جہاد کیا تھا۔ اقتدار کے ابتدائی ماہ گزرے تو ادراک ہوا کہ دیوتا تو خالی ہاتھ ہے ، بغیر کسی جادوئی چھڑی کے، اب کیا ہو گا؟ کچھ مایوس ہوئے تو کچھ حوصلہ ہار بیٹھے، مگر کچھ ابھی بھی امید کا دامن پکڑے ہوئے ہیں۔

دیوتا کے اقتدار تک پہنچنے کے سفر کے دوران ایک انتہائی خطرناک رجحان پروان چڑھتا رہا، جس کو کسی نے محسوس نہیں کیا۔ یہ تھا انفرادی و شخصی نفرت کا پرچار۔

سوشل میڈیائی جنگ اب گلی محلوں تک پہنچ چکی ہے۔ اس سیاسی نفرت نے نوجوان نسل کو ہسٹریائی بنا دیا ہے۔ برداشت اور تنقید کا کوئی تصور نہیں۔ گالم گلوچ، بد تہذیبی، تضحیک و تحقیر عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ اب ہم سیاست نہیں کر رہے، نفرت کا ایک کاروبار ہے جو چہارسو پھیلتا جا رہا ہے، مگر کسی کو اس کا احساس نہیں۔

رہی بات کرپشن اور احتساب کی، تو وہ ہماری پہلی نسل والے ٹرک کی بتی کی طرح ہو چکی ہے۔

سید تصور عباس، باکو - آذربائیجان
Latest posts by سید تصور عباس، باکو - آذربائیجان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments