رمضان کی آمد اور مہنگائی



رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ اپنے جلو میں رحمتیں، برکتیں، سمیٹے ہوئے یہ ماہ مقدس ایک مرتبہ پھر سے ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ رمضان کی آمد سے قبل ہی قلبی روحانیت محسوس ہونے لگتی ہے اور دل میں کچھ اس طرح کی اضطرابی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے جیسے مدتوں سے کسی اپنے بہت پیارے مہمان کا انتظار ہو۔

یقیناً ہر مومن کی یہی قلبی کیفیت ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو یہ مہینہ ہے ہی سراپا رحمت و برکتوں اور نیکیوں کو سمیٹنے کا۔ اس ماہ مقدس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ”جس نے رمضان کے روزے کو فرض سمجھ کر ثواب کی نیت سے رکھا وہ بخشا گیا“ (بخاری)

دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان ممالک نہ صرف رمضان کا احترام اور اہتمام کرتے ہیں بلکہ غیر مسلم ممالک بھی اس ماہ مقدس کے احترام میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں۔ خصوصی رمضان ڈسکاؤنٹ پیکیج متعارف کروائے جاتے ہیں۔ مسلم بھائیوں کے لئے بڑے بڑے افطار۔ دستر اخوان سجائے جاتے ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے عالم اسلامی کی واحد ایٹمی قوت اور اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان میں رمضان جیسے با برکت اور رحمت کے مہینے کو باعث زحمت بنا دیا جاتا ہے۔

رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ گوشت سے لے کر دالوں، سبزیوں، پھلوں سمیت ہر چیز کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہو گیا ہے۔ موجودہ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں نے عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنایا ہوا تھا۔

ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ کورونا وائرس نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ سفید پوش طبقے کو اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں بیس لاکھ کے قریب لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔

ان حالات میں موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کرے۔ خاص طور پر ذخیرہ اندوزوں کو لگام ڈالی جائے اور ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ ضلعی سطح پر ہر ڈی سی اوز اور اسٹنٹ کمشنرز کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ حکومت کی جانب سے مقرر کی گئی ریٹ لسٹوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں اور ذخیرہ اندوزوں کو بھی نکیل ڈالی جائے۔ مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجہ یہی ذخیرہ اندوز ہوتے ہیں جنہیں نہ تو رمضان جیسے مقدس مہینے کا کوئی خیال ہوتا ہے اور نہ ہی اس ملک کے غریب عوام کا احساس ہے۔

ہماری اجتماعی منافقت کا عالم تو یہ ہے کہ ہمیں حکمران تو حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے عادل اور صالح چاہئیں لیکن خود ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ جس کا جہاں داؤ لگتا ہے وہ ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتا۔ یقین جانیں بطور پاکستانی قوم جو ہمارا طرز عمل ہے کسی امریکہ بھارت یا اسرائیل کو ہمارے خلاف سازش کرنے یا ہمیں تباہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم خود ہی کافی ہیں اپنی تباہی کا سامان پیدا کرنے کے لئے۔ اپنی انا اور خود غرضی میں ہم اتنے اندھے اور اخلاقی طور پر اتنے دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں کہ ہمیں بس اپنا مفاد عزیز ہے چاہے اس میں میرے ملک یا میرے معاشرے کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔

کیا ہوگا اگر ہم لوگ اس رمضان میں ناجائز طریقوں سے پیسے کمانے کی بجائے اپنے اللہ سے تجارت کر لیں گے۔ لیکن اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کا المیہ تو یہ ہے کہ پورے سال کا جتنا گلا سڑا پھل ہے ، وہ رمضان میں بکے گا۔ ملاوٹ دوگنا ہو جائے گی۔ اپنے اعمال اور کرتوتوں کی وجہ سے ہم نے اس رحمت کے مہینے کو اپنے لئے زحمت کا مہینہ بنا دیا ہے۔

ہم لوگ کتنے بدقسمت ہیں کہ رمضان جیسے مقدس مہینے میں بھی اپنے رب کی رحمتوں کو سمیٹنے کی بجائے الٹا اس کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں۔ اس رمضان کی قدر کریں ، اس کو غنیمت جانیں۔ ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں کتنے ہی ایسے لوگ تھے جو گزشتہ رمضان تو ہمارے ساتھ تھے لیکن اس رمضان میں ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے ۔

آئیں عہد کریں، اس رمضان میں ہم خوب رحمتیں اور برکتیں سمیٹیں گے اور مخلوق خدا کے لئے آسانیاں پیدا کریں گے۔ کیا معلوم یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments