رانچا مایا کا بھوت بنگلہ


ایک روز میں اپنے موبائل کیمرے کی تصاویر دیکھ رہا تھا۔ ایک تصویر پر آ کر میری نظر رک گئی۔ وہ ایک معمولی سی تصویر تھی۔ میں درمیان میں کھڑا تھا، میرے دائیں جانب میرے دو کولیگ تھے اور بائیں جانب ایک انڈونیشی جوڑا تھا۔ ہم ایک بڑے سے کمرے میں موجود تھے۔ تصویر میں انتہائی دائیں جانب، ہم سے کچھ فٹ پیچھے، ایک چھوٹی سی بچی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ تصویر مجھے میرے ماضی میں لے گئی۔

کچھ سال پہلے کی بات ہے۔ میں ایک کشادہ ہال میں اپنے لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا کام کر رہا تھا۔ باہر موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ وہ انڈونیشیا کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا ٹریننگ سینٹر تھا۔ کچھ روز میں ہماری ٹیم اس کے صارفین کو ایک ماہ کی ٹریننگ دینے آ رہی تھی۔ مجھے ابتدائی معائنے کے لیے وہاں بھیجا گیا تھا۔

بریک کے وقت میں لنچ کے لیے کیفے میں آ گیا۔ وہ ٹریننگ سینٹر وسیع رقبے پر جدید ڈیزائن سے بنایا گیا تھا۔ کیفے اس کے قلب میں واقع تھا۔ وہاں بیٹھ کر میں کھانے کے ساتھ ساتھ آس پاس کے قدرتی مناظر سے بھی لطف اندوز ہو سکتا تھا۔ میں نے پلیٹ میں تھوڑے سے ابلے ہوئے چاول ڈالے، اس پر چکن کا فرائیڈ پیس رکھا، کچھ انڈونیشی سپائس ڈالے اور گلاس میں اورینج جوس لے کر ایک کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ بارش اب تھم چکی تھی۔ دور جنگلات سے پرے ایک خوبصورت پہاڑ کی چوٹی نظر آ رہی تھی۔ جس کا آتش فشاں اب ٹھنڈا ہو چکا تھا۔

میں کھانا کھا کر ہال میں واپس آ گیا۔ کمپنی کی پروجیکٹ مینیجر تیز قدموں سے کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے خوش آمدید کہا۔ ٹریننگ سینٹر میں سب انتظامات ٹھیک تھے۔ اب مجھے مینیجر کے ساتھ گاڑی میں ولا کے انٹرنیٹ کی سپیڈ چیک کرنے جانا تھا۔ وہ ولا ہمارے قیام کے لیے ایک ماہ کے لیے بک کیا گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر عملے نے ہمارے لیے گیٹ کھولا اور ہم ایک نیم تاریک کمرے میں داخل ہوئے۔ ایک طرف نماز پڑھنے کی مخصوص جگہ بنی ہوئی تھی۔ میں نے اس کے پاس کھڑے ہو کر جلدی سے اپنا کام نمٹایا۔ میں نے مینیجر کو ’سب اچھا ہے‘ کی رپورٹ دی اور خدا حافظ کہا۔ پھر ڈرائیور کے ساتھ جکارتہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ جہاں میری ٹیم کے باقی لوگ موجود تھے۔

اس رات میں نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا۔ اگلی صبح میں نے آفس میں سب کو اپنا خواب سنایا۔ میں نے دیکھا کہ میں ایک بڑے سے گھر میں موجود تھا۔ جہاں عبادت کے لیے ایک مخصوص کمرہ بنایا گیا تھا۔ میں اس میں داخل ہوا تو مجھ پر تاریکی میں ایک غیر مرئی شے نے حملہ کیا۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ سب نے میری طرف حیرت سے دیکھا اور بس یہی کہا کہ آگے اللہ سب خیر رکھے۔

دراصل ان میں سے کچھ لوگ کئی سال پہلے اس ٹریننگ سینٹر میں رہ چکے تھے۔ انہوں نے اس وقت بتایا تھا کہ ٹریننگ سینٹر کے ہوسٹلز کے عقب میں عیسائیوں اور چینیوں کے قبرستان تھے۔ کچھ ملحقہ عمارات آسیب زدہ شمار کی جاتی تھیں۔ انہوں نے وہاں جنوں، بھوتوں کی بہت سی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ میرے خواب پر ان کے تاثرات سن کر مجھے اچانک ان کی باتیں یاد آ گئیں۔ اور میں نے دل میں بار بار یہی دوہرایا کہ آگے اللہ سب خیر رکھے۔

ہم جکارتہ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ ہم وہاں کمپنی کے ہیڈ کوارٹرز میں کام کر رہے تھے۔ کچھ میل کے فاصلے پر ہمارا ہوٹل تھا۔ اس شہر میں اب ہم ایڈجسٹ ہو چکے تھے۔ مگر ہمارے کلائنٹ کی بھی مجبوری تھی۔ ملک کے طول و عرض سے آنے والے صارفین کا بندوبست اس ٹریننگ سینٹر میں کیا گیا تھا۔ جو شہر کے جنوب میں رانچامایا کے صحت افزا مقام پر تعمیر کیا گیا تھا۔ سو ہم نے ہامی بھر لی۔

ٹریننگ شیڈول کے اعلان کے بعد ہمارے ذہنوں میں ایک ہی سوال گھوم رہا تھا کہ ہم رہیں گے کدھر؟ ہم نے تین ممکنہ آپشنز پر غور کرنا شروع کر دیا۔

1۔ ہم جکارتہ کے ہوٹل میں رہیں۔ روز صبح گاڑی میں رانچامایا کے ٹریننگ سینٹر جائیں اور شام کو فارغ ہو کر واپس آ جائیں۔ یوں روزانہ ہمارے دو سے تین گھنٹے سفر میں صرف ہوں۔ مجھے وہ آئیڈیا بالکل پسند نہیں آیا۔ میرے خیال میں ہم وہ وقت کسی اور مثبت سرگرمی میں صرف کر سکتے تھے۔

2۔ اس کے برعکس میں نے ٹریننگ سینٹر کے ہوسٹلز میں رہنے کی تجویز پیش کی۔ اس پر میرے ایک سینئر نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا اور بس یہی کہا کہ ایک مہینہ اس بور جگہ پر رہنا آسان نہیں ہو گا۔ مگر میں بضد رہا کہ میں جکارتہ کی بجائے ہوسٹل میں رہنے کو ترجیح دوں گا۔

3۔ رانچامایا میں کوئی اچھا ہوٹل ہو جہاں کلائنٹ ہماری بکنگ کرا دے۔ ہم جکارتہ کے ہوٹل سے وہاں شفٹ ہو جائیں اور ہمیں رہنے کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔ مگر سوال یہ تھا کہ اپنے ہوسٹلز کی موجودگی میں کلائنٹ مہنگے ہوٹل کا خرچہ کیوں اٹھائے گا؟

ہم اسی تذبذب میں تھے کہ کلائنٹ نے اپنی تجاویز پیش کر دیں۔ اس نے بتایا کہ صارفین کی زیادتی کی وجہ سے ہوسٹلز بھر گئے ہیں۔ رانچامایا میں ایک ہوٹل ہے جہاں چار افراد کی بکنگ کی گنجائش ہے۔ باقی تین کے لیے ایک ولا کرائے پر حاصل کیا جائے گا۔

پہلی دو آپشنز سے چھٹکارے پر ہم نے سکون کا سانس لیا۔ اب ہمیں آپس میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کون رانچامایا کے ہوٹل میں رہے گا اور کون ولا میں؟ میں نے ولا کے حق میں ووٹ دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم کئی عرصے سے جکارتہ کے ہوٹل میں رہ رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ رانچامایا میں کسی نئی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔

پھر کچھ روز بعد مجھے ٹریننگ سینٹر میں ابتدائی معائنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ پھر میں ولا میں انٹرنیٹ کی سپیڈ چیک کرنے گیا تھا۔ اور اس رات میں نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا تھا۔ جس میں مجھ پر کوئی شے حملہ آور ہوئی تھی۔ اور وہ خواب سن کر میری ٹیم نے بس یہی کہا تھا کہ آگے اللہ سب خیر رکھے۔

اتوار کے روز دن میں ہمارا قافلہ جکارتہ سے تین گاڑیوں میں روانہ ہوا۔ ہم سب ہوٹل کی لابی میں چیک آؤٹ کے لیے آ گئے۔ اس سے پہلے میں نے اپارٹمنٹ پر آخری نظر ڈالی کہ کہیں کچھ رہ تو نہیں گیا۔ میری کوئی چیز وہاں موجود نہیں تھی۔ میرا سارا لگیج پیک ہو چکا تھا۔ اپارٹمنٹ میں ایک طرح کی اداسی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا کہ اس جگہ پر میں نے کافی وقت گزارا ہے۔ اس سے اب مجھے ایک اپنائیت سی محسوس ہو رہی تھی۔ اس اپنے پن کو میں وہیں چھوڑے جا رہا تھا۔ اس کا رشتہ میرے حال سے ٹوٹ چکا تھا اور اب وہ میرا ماضی بننے جا رہا تھا۔ محض ایک یاد جسے کسی بھی وقت فراموش کیا جا سکتا تھا۔ اور شاید وہ اسی چیز کی اداسی تھی۔

ہم ولا والے ایک گاڑی میں سوار تھے۔ ہماری گاڑی اب مین روڈ پر آ چکی تھی۔ جکارتہ کے آسمان پر آج سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ اتوار کے روز معمول کے مطابق کافی رش تھا۔ ہم اردگرد کی بلند و بالا عمارات اور ٹریفک سے گزرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ کچھ دیر بعد ٹول پلازہ آ گیا۔ پھر شہر کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔ مضافات کے دیہات اور جنگلات شروع ہو گئے۔ دور افق پر پہاڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ دھوپ کی شدت میں کافی حد تک کمی واقع ہو چکی تھی۔

گاڑی نے کچھ موڑ کاٹے اور ہم بوگور شہر کی حدود میں داخل ہو گئے۔ روڈ کی چوڑائی اور پختگی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی اور آبادی اچانک کئی گنا بڑھ گئی۔ ہم بوگور کے بازار سے گزر رہے تھے۔ لوگ معمول کی خرید و فروخت میں مصروف تھے۔ بازار ختم ہوا تو ہم شہر کے نسبتاً خاموش حصے میں آ گئے۔ ہماری گاڑی ایک بڑے سے گیٹ کے سامنے آ کر رک گئی۔ دیوار پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا: رانچامایا گالف اینڈ کنٹری کلب۔ ہم سیکورٹی چیک کے بعد اندر داخل ہو گئے۔

ایسا لگا کہ ہم ایک نئی دنیا میں داخل ہو گئے ہیں۔ موسم ابر آلود تھا۔ فضاء میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ گالف کے ہرے بھرے میدانوں کے بیچ گھر لڑی کی طرح پروئے نظر آرہے تھے۔ خوش نما تالاب اور جھیلیں تھیں۔ عمارات جدت اور روایت کا حسین امتزاج تھیں۔ دور آسمان کے بادلوں کو چھوتا سرد آتش فشاں پہاڑ نظر آ رہا تھا۔ ہماری گاڑی مین روڈ پر رواں دواں تھی۔ کچھ دیر بعد رانچامایا کا ہوٹل آ گیا۔ دو گاڑیاں وہاں مڑ گئیں۔ ہم گیٹ پر سجی گالف کی ایک بڑی سی گیند کے آگے سے گزر گئے۔ ہمیں رستے میں بہت کم لوگ ملے تھے۔ پھر ہماری گاڑی ایک ذیلی سڑک پر مڑ گئی۔ آگے مین روڈ ٹریننگ سینٹر کے پاس جا کر ختم ہو جاتا تھا۔ جس کے عقب میں قبرستان تھے۔ اور ان کے بعد پہاڑ تک جنگلات کا سلسلہ تھا۔

رانچامایا میں سیکورٹی بہت سخت تھی۔ ہم نے پھر اپنی شناخت کرائی۔ آگے گلی میں ایک قطار میں بہت سے گھر تھے۔ جن میں سے پہلا ہمارا تھا۔ گھروں کے عقب میں گالف کا میدان نظر آ رہا تھا۔ ولا کا گیٹ کھلا ہوا تھا۔ ڈرائیور نے گاڑی کو گھر میں ڈال کر بریک لگائی۔ دو انڈونیشی میاں بیوی ہمارے استقبال کے لیے آ گئے۔ وہ دونوں گھر کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ وہی اس کا سٹاف بھی تھے اور وہی ملازم بھی۔ وہ ولا سے منسلک ایک سرونٹ کوارٹر میں رہتے تھے۔

ہم نے ہال کمرے میں داخل ہو کر اپنا سامان ایک طرف رکھا اور سستانے کے لیے صوفوں پر بیٹھ گئے۔ ہم تین کولیگ تھے : سعود بھائی، حسین اور میں۔ اب ہمیں کمروں کا انتخاب کرنا تھا۔ وہ ہال کمرہ گھر کے مرکز میں واقع تھا۔ ہم فرنٹ لان سے ہال میں داخل ہوئے تھے۔ ایک طرف دو کمرے تھے: ایک کا انتخاب سعود بھائی نے کر لیا اور دوسرا کمرہ بند تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس میں ولا کے مالک کا سامان رکھا ہوا ہے۔ وہ ایک بڑا بزنس مین اور صنعت کار تھا۔ دوسری طرف عبادت گاہ، کچن اور اوپر جانے کی سیڑھیاں تھیں۔ گھر کے عقبی حصے میں ایک اور لان تھا۔ اس سے ملحق ایک گیسٹ روم تھا۔ ہم میں سے کسی نے اس کا انتخاب نہیں کیا۔

پھر ہم سیڑھیوں سے اوپر چلے گئے۔ وہاں ایک اور ہال کمرہ تھا۔ جس کے ایک طرف تین بیڈ روم تھے۔ حسین نے پہلے اور میں نے تیسرے کمرے کا انتخاب کیا۔ غالباً لاشعوری طور پر ہم تینوں نے ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ دوری پر رہنے کا فیصلہ کیا۔ بالکل گھر کے کناروں پر۔ ہمارے درمیان گھر اپنے اتھاہ خالی پن کے ساتھ موجود تھا۔ گویا ہم اس میں ہوتے ہوئے بھی نہیں تھے۔ شاید ہم اسے آباد کرنے میں ناکام ثابت ہوئے تھے۔

میں سامان لے کر اپنے کمرے میں آ گیا۔ ایسا لگا کہ وہ ایک نامعلوم وقت سے ابھی ابھی حال میں آیا تھا۔ اور میں نے اسے طویل نیند سے جگا دیا تھا۔ میں نے الماری میں کپڑے رکھے اور کھڑکیوں سے پردے ہٹا دیے۔ پھر بیڈ پر ٹانگیں سیدھی کر کے لیٹ گیا۔ دیواروں پر ہلکے سبز رنگ کا پینٹ ہوا ہوا تھا۔ ایک کونے میں ڈریسنگ ٹیبل رکھی تھی۔ میں کھڑکی سے باہر عقبی لان کے درخت دیکھنے لگا۔ اب شام ہو رہی تھی۔ کمرے میں ایک ٹیلی ویژن سیٹ بھی موجود تھا۔ میں اسے آن کر کے غیر ارادی طور پر چینل آگے کرنے لگا۔ کوئی کام کی چیز نہیں ملی۔ ایسا لگا اس سیاہ ڈبے میں کئی دہائیوں پرانا وقت چل رہا تھا۔ جو بیرونی دنیا سے بے خبر اپنی ڈگر پر چلا جا رہا تھا۔

میں باہر ہال کمرے میں آ گیا۔ سائیڈ پر باتھ روم اور ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ میں نے دروازہ کھول کر کمرے میں جھانکا۔ میں نے سوچا کہ وہاں میں اپنے کپڑے سکھانے کے لیے ڈال سکتا ہوں۔ سامنے ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ میں اس کے پاس جا کر باہر دیکھنے لگا۔ میرا استقبال ہوا کے ایک تیز جھونکے نے کیا۔ میں نے فوراً کھڑکی بند کر دی اور نیچے آ گیا۔ اب ہمیں ڈنر کی تیاری کرنی تھی۔

کچھ دن بعد انڈونیشیا میں سرکاری تعطیل تھی۔ سو ہمیں دفتر سے چھٹی مل گئی۔ سب نے بوگور شہر جانے کا منصوبہ بنایا۔ میں نے بہانہ بنا دیا اور گھر میں اکیلا رہ گیا۔ میری دلچسپی کا محور گھر کی دیواروں پر جا بجا لٹکی پینٹنگز تھیں۔ سب کا سٹائل ایک سا تھا۔ مختلف قدرتی مناظر کو روغنی رنگوں سے پینٹ کیا گیا تھا۔ مزید چھان بین کے بعد مختلف الماریوں اور خانوں سے مجھے رنگوں، برشوں اور خالی کینوس کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بھی مل گیا۔ اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ ولا کا مالک ایک پارٹ ٹائم آرٹسٹ بھی ہے۔ اور اس نے اپنا آرٹ اپنے ہی گھر میں آویزاں کیا ہوا ہے۔ سو وہ گھر ایک آرٹ گیلری کی مانند معلوم ہوتا تھا۔

میں اپنے اردگرد سامان پھیلا کر بیٹھ گیا۔ ان دنوں میں مصورانہ خطاطی میں تجربات کر رہا تھا۔ باہر موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ میرا برش بیرونی آوازوں کے ردھم میں کینوس پر رنگ بکھیر رہا تھا۔ میں اپنے کام میں محو تھا کہ مجھے پیچھے کی دیوار سے کچھ بجنے کی آواز آئی۔ میں نے نظرانداز کر دیا اور کام میں مگن رہا۔ کچھ دیر بعد آواز پھر آئی۔ میں نے شش کیا کہ ہو سکتا ہے کوئی جانور ہو تو بھاگ جائے۔ پھر آواز تواتر سے آنے لگی اور اس میں شدت آ گئی۔

جیسے کوئی گھٹن میں ہو اور ہاتھ پاؤں مار رہا ہو۔ میں گھبرا سا گیا۔ میرا کام اب مکمل ہو چکا تھا۔ میں نے پینٹنگ ایک سائیڈ پر رکھ دی اور دیوار کی جانب بڑھا۔ اس کے ساتھ وہ چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں میں کپڑے سکھانے کے لئے رکھ دیتا تھا۔ میں نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔ کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر بند کر دی اور باہر آ گیا۔ پھر کوئی آواز نہیں آئی۔

کچھ دیر بعد باقی سب آ گئے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ کسی کو وہ بات بتاؤں یا نہیں۔ سب ڈائننگ ٹیبل پر ڈنر کے لئے آ گئے۔ سعود بھائی بولے: کیا بات ہے۔ چپ چپ ہو۔ کیا کیا سارا دن؟ میں نے پینٹنگ لا کر انہیں دکھائی اور ہال کمرے میں رکھ دی۔ انہوں نے بہت پسند کی۔ میں اسی کشمکش میں تھا کہ کچھ بتاؤں یا نہیں۔ کوئی اور بات؟ انہوں نے تھوڑی دیر بعد پھر پوچھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں پھٹ پڑا۔ میں نے ساری روداد سنا ڈالی۔ انہیں ذاتی طور پر کوئی فکر نہ ہوئی۔ بس میری تسلی کے لئے سٹاف کو بلا بھیجا۔ وہ ہمارے ساتھ اوپر گئے اور مختلف چیزوں کا معائنہ کیا۔ پھر بولے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ یہاں اکثر چوہے آ جاتے ہیں۔ مگر میری تشفی نہ ہو سکی۔ میں یہی سوچتا رہا کہ وہ کسی چیز کی آواز تھی؟

اگلے دن شام کو میں اکیلا گلی میں واک کرنے نکل کھڑا ہوا۔ میں گھروں کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ ہر گھر اپنی طرز تعمیر میں مختلف تھا۔ کوئی چھوٹا تھا اور کوئی بڑا۔ کوئی نیا تھا اور کوئی پرانا۔ مگر ایک چیز سب میں مشترک تھی: سب خالی تھے۔ دو گھروں کے بیچ سے ایک واکنگ ٹریک نکل رہا تھا۔ میں اس پر چلتا ہوا ایک بہت بڑے جنگل نما میدان میں آ گیا۔ ٹریک گولائی کھاتا دور نظروں سے اوجھل ہو رہا تھا۔ میں واپس گھر آ گیا۔ ویسے بھی اب اندھیرا ہو رہا تھا۔

کچھ روز بعد ہمارے ایک انڈونیشی کولیگ ولا میں رہنے آ گئے۔ ہم نے ان کو گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا دیا۔ ڈنر کے بعد ہم سب اپنے اپنے کمروں میں آ گئے۔ اب میں آوازوں سے چوکنا ہو گیا تھا۔ میں نے لیپ ٹاپ کھول کر مووی دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ میں اپنے آپ کو مصروف رکھنا چاہتا تھا تاکہ میرا ذہن ادھر ادھر نہ بھٹکے۔ میں نے رنبیر اور دیپیکا کی ’تماشا‘ فلم لگا لی۔ مووی مجھے بہت پسند آئی اور یوں کچھ وقت گزر گیا۔ پھر میں نے کتاب اٹھا لی۔ ان دنوں میں ’سوفی کی دنیا‘ کا مطالعہ کر رہا تھا۔ چند صفحوں سے زیادہ نہیں پڑھ سکا۔ میں نے لائٹ آف کر دی اور بیڈ پر آ کر لیٹ گیا۔ کھڑکی سے باہر گیسٹ ہاؤس کا روشن دان نظر آ رہا تھا۔ جہاں ہم نے اپنے کولیگ کو ٹھہرایا ہوا تھا۔ کمرے کی لائٹ جلی ہوئی تھی۔ نہ جانے کب مجھے نیند آ گئی۔

اگلے روز دفتر میں ہم سب ٹیبل کی ایک جانب بیٹھے کام کر رہے تھے۔ ہمارے کولیگ نے ٹوٹے لفظوں میں ہمیں کچھ بتانے کی کوشش کی۔ ہم نے اسے کہا کہ ہمیں کھل کر پوری بات بتائے۔ وہ زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ سے بھی اشارے کر رہا تھا۔ جیسے کچھ بتانا چاہ رہا ہو اور بتا نہ پا رہا ہو۔ تھوڑی دیر بعد ہمیں اس کی بات سمجھ آ گئی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ رات کو جب وہ سویا ہوا تھا تو دروازے پر دستک سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ دروازہ اندر سے لاک تھا اور اس نے نہیں کھولا۔ کافی دیر تک دستک ہوتی رہی اور پھر اچانک رک گئی۔ اس کے بعد اسے نیند نہیں آئی۔ اس نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ آج سے وہ ٹریننگ سینٹر کے ہوسٹل میں رہے گا۔ ہمارے ساتھ ولا نہیں جائے گا۔

ہم نے رات کو گھر آ کر پھر سٹاف کو بلایا اور ساری کہانی سنائی۔ وہ ہماری بات سن کر مسکرانے لگے۔ جیسے ان کے لئے وہ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ پھر بتایا کہ اکثر رات کو چوکیدار آتا ہے اور گیسٹ روم میں سو جاتا ہے۔ سو گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ وہ چلے گئے اور ہمارے لئے کچھ معمے چھوڑ گئے : عقبی لان اور گیسٹ روم تک آنے کا کوئی آزاد رستہ نہیں تھا۔ وہاں جانے کے لئے ہال کمرے سے گزرنا پڑتا تھا۔ جسے ہم اچھی طرح لاک کر کے سوتے تھے۔ اور فرض کیا کہ اگر کسی طرح چوکیدار وہاں پہنچ گیا تھا تو جب اسے معلوم ہوا کہ دروازہ اندر سے بند ہے تو اس نے بار بار اس پر دستک کیوں دی؟ ان سوالوں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

اس رات مجھے ٹھیک سے نیند نہیں آئی۔ آنکھ لگتی رہی اور کھلتی رہی۔ طرح طرح کے خیال آتے رہے۔ میں بار بار آیت الکرسی اور قل پڑھتا رہا۔ بلکہ جتنی بھی سورتیں مجھے یاد تھیں سب بار بار پڑھ کر خود پر پھونکتا رہا۔ کچھ دیر کے لئے ہمت بندھ جاتی۔ میں سوچتا کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ اگر کوئی چیز مجھے نظر آ گئی تو میں اس سے پوچھ لوں گا کہ اسے مجھ سے کیا مسئلہ ہے؟ مگر پھر سوچنے لگ جاتا کہ اس دن دیوار سے کس چیز کی آواز آ رہی تھی؟ گیسٹ ہاؤس کے دروازے پر کون دستک دے رہا تھا؟ کمرے میں مکمل خاموشی تھی اور لائٹ آن تھی۔ کیا پتہ ہلکی سبز رنگ کی دیواروں سے وہ آوازیں پھر آنے لگیں۔ یا آج میرے کمرے کے دروازے پر کوئی دستک ہو جائے۔ اسی اثناء میں باہر روشنی ہو گئی۔

ویک اینڈ پر ہم اپنے کولیگز سے ملنے ان کے ہوٹل چلے گئے۔ ہم سب نے کیفے میں ناشتہ کیا۔ پھر انہوں نے ہمیں ہوٹل کی سیر کرائی۔ وہ ایک بڑا، مہنگا اور دیدہ زیب ہوٹل تھا۔ زیادہ تر گیسٹ مغربی تھے۔ جو غالباً چھٹیاں گزارنے اور گالف کھیلنے یہاں آئے ہوئے تھے۔ وہ اپنے آپ میں گم ادھر ادھر آجا رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ہم ولا واپس آ گئے۔ ہم بجھے بجھے اور تنہا محسوس کر رہے تھے۔ شام کو ہم نے ہفتے بھر کی گروسری کی خریداری کے لیے سپر اسٹور جانے کا منصوبہ بنایا۔ اس خاموش سوسائٹی کے اندر رہ رہ کر ہم گھٹن محسوس کرنے لگے تھے۔ ہمیں باہر کھلی ہوا میں جانا چاہیے تھا۔ ہم نے ڈرائیور کو کال کی۔ اب رات ہو چکی تھی۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ ہم نیم اندھیرے میں دھندلے مناظر کو دیکھتے ہائی وے پر آ گئے۔

اگلے روز رانچامایا کو ایکسپلور کرنے کا پروگرام بنا۔ گیراج میں ایک بائیک کھڑی رہتی تھی۔ ہم نے اجازت لے کر اسے نکالا۔ سعود بھائی نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ میں اور حسین ان کے پیچھے بیٹھ گئے۔ ہم سڑک کنارے درختوں کے سائے میں مین روڈ پر آ گئے۔ آج موسم صاف تھا۔ چمک دار دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ ہم گالف کے میدانوں میں مخصوص ٹریک پر ادھر ادھر بے مقصد بائیک دوڑا رہے تھے۔ اور اردگرد کے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کہیں کہیں لوگ گالف کھیل رہے تھے۔ کچھ معمول کی واک کرنے باہر آئے ہوئے تھے۔ وہ ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ گویا سوچ رہے ہوں: دیکھو، تین ایڈیٹ جا رہے ہیں!

کچھ روز بعد ہم اپنے ڈرائیور کے ساتھ آفس سے گھر جا رہے تھے۔ ہم نے اسے ایک کام بتایا۔ اس نے معذرت کر لی۔ اور بتایا کہ وہ رات کو اکیلے روڈ پر گاڑی نہیں چلا سکتا۔ ہم نے وجہ پوچھی تو اس نے ہنس کر بات ٹال دی۔ ہم نے بہت زور لگایا تو اس نے اپنی زبان کھول دی۔ اس نے بتایا کہ کل وہ ہوسٹل کے کمرے سے اپنے گھر بیٹی سے بات کر رہا تھا کہ اچانک وہ رونے لگی۔ اس سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ بابا کے پیچھے کوئی ڈراؤنی چیز تھی۔

جبکہ وہ اس وقت کمرے میں اکیلا تھا۔ اس نے باہر آ کر گارڈ کو بتایا۔ وہ لاپروائی سے بولا کہ یہاں پاس ایک قبرستان ہے۔ لوگوں کو کبھی کبھی ایسی چیزیں نظر آ جاتی ہیں۔ اس نے یہ بھی تاکید کی کہ وہ آئینے اور موبائل کیمرے کے زیادہ استعمال سے گریز کرے۔ کیونکہ وہ چیزیں ان میں زیادہ نظر آتی ہیں۔ اور رات کو اکیلے سڑک پر نہ نکلے۔ ہم نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا اور اسے جانے دیا۔

وہ رات ولا میں ہماری آخری رات تھی۔ اب ہماری ہمت جواب دے چکی تھی۔ ہم نے ولا چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور پروجیکٹ مینیجر کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ اس نے ہم سے درخواست کی کہ وہ رات کسی طرح گزار لیں۔ کل ہمارا کوئی مناسب بندوبست کر دیا جائے گا۔ اور وہی رات ہم پر بھاری تھی۔ ہمارا سونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ سب سے پہلے ہم تینوں نے باجماعت نماز ادا کی۔ پھر سب اپنا ضروری سامان لے آئے۔ اور ہم نے ہال کمرے کے صوفوں پر ڈیرے ڈال دیے۔

ہم جو شروع میں ایک دوسرے سے دور دور رہ رہے تھے۔ آج سمٹ کر ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے تھے۔ سعود بھائی نے مٹر پلاؤ تیار کی۔ میں نے لیپ ٹاپ پر اونچے والیم میں ہنگر گیمز مووی لگا دی۔ حسین ساتھ صوفے پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ آج پہلی بار ہال کمرہ پررونق نظر آ رہا تھا۔ آج پہلی بار وہ گھر ہم سے آباد ہوا تھا۔ اور وہ رات اس گھر میں ہماری آخری رات تھی۔

اگلے روز بریک میں ہم اپنا سامان اٹھانے ولا پہنچ گئے۔ میں اپنے کمرے میں آیا اور جلدی جلدی چیزیں پیک کرنے لگا۔ پھر ساتھ والے کمرے میں کپڑے لینے چلا گیا۔ آج بھی وہ کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ آج میں نے اسے بند کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور نیچے آ گیا۔ سب جانے کے لئے تیار تھے۔ اچانک میری نظر اپنی پینٹنگ پر پڑی۔ میری پینٹنگ؟ نہ تو وہ کینوس میرا تھا، نہ وہ رنگ اور نہ برش۔ وہ پینٹنگ مجھے پرائی لگی۔

پھر میری نظر نیچے دستخط پر پڑی۔ وہ میرے ہی تھے۔ میں نے وہ پینٹنگ وہیں چھوڑ دی۔ وہ اس گھر کی امانت تھی اور وہیں رہی۔ آج میں وہ ولا چھوڑ رہا تھا مگر اپنی ایک چیز وہاں چھوڑے جا رہا تھا۔ جو دوسری پینٹنگز کے ساتھ ہمیشہ وہاں رہے گی۔ کیا معلوم کسی دن گھر کے مالک کی نگاہ اس پینٹنگ پر پڑ جائے۔ میری نظریں تو پہلے ہی اس پر ثبت ہو چکی تھیں۔ اور جب وہ اس کی طرف دیکھے گا تو گویا ہماری غائبانہ ملاقات ہو جائے گی۔ آج مجھے وہ گھر اداس نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کے دروازوں اور کھڑکیوں سے داخل ہونے والی روشنی اور تیز ہوا اس کے انبساط کی نوید سنا رہی تھیں۔ اور یوں ہم نے ولا کو خیرباد کہہ دیا۔

کلائنٹ نے ہماری بکنگ پھر جکارتہ کے ہوٹل میں کرا دی۔ ٹریننگ کے باقی دن ہم روز جکارتہ اور رانچامایا کے درمیان سفر کرتے رہے۔ مگر اب وہ ہمیں قبول تھا۔ ولا میں رہنے سے بہتر تھا کہ ہمارے کئی گھنٹے یوں سڑک پر ضائع ہو جائیں۔ کئی روز تک یقین نہیں آیا کہ ہم وہ ولا چھوڑ چکے ہیں۔ کبھی کبھی اچانک یوں لگتا کہ ابھی تک ہم وہیں موجود ہیں۔ یا پھر ہوٹل کی دیواریں ہلکے سبز رنگ کی ہو جاتیں اور ٹیلی ویژن میں دہائیوں پرانا وقت چلنا شروع ہو جاتا۔ پھر آہستہ آہستہ حالات معمول پر آ گئے۔

جکارتہ میں واپس آنے سے کلائنٹ کو انتظامات کے حوالے سے پریشانی تو ہوئی مگر وہ ہماری سچویشن دیکھ کر محظوظ بھی ہوا۔ اس نے سوچا ہو گا کہ ساری دنیا میں ایک سے انسان بستے ہیں : کہانیوں پر یقین رکھنے والے، جنوں بھوتوں سے ڈرنے والے۔ پھر ایک دن ہم ان کے ایک سینئر مینیجر کے ساتھ بیٹھے تھے۔ وہ بڑے مزاحیہ انسان تھے۔ انہوں نے بظاہر سنجیدگی سے میرا نام پکارا اور پوچھا: کیا یہ کام اگلے ہفتے تک ہو سکتا ہے؟ میں نے وضاحت پیش کی کہ مجوزہ تبدیلیاں بہت بڑی ہیں۔ ہمیں ٹیسٹنگ کے لیے زیادہ وقت درکار ہو گا۔ انہوں نے سنجیدگی سے پھر میرا نام پکارا اور بولے : اگر یہ کام اگلے ہفتے تک نہ ہوا تو وہ مجھے پھر رانچامایا کے بھوت بنگلے میں چھوڑ آئیں گے۔ سارا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ میں سر جھکائے اپنے کولیگز کی طرف دیکھ رہا تھا۔

کئی سال بعد اس روز میں موبائل میں کیمرے کی وہ مخصوص تصویر دیکھ رہا تھا۔ میرے ایک جانب سعود بھائی اور حسین کھڑے تھے اور دوسری جانب ولا کی دیکھ بھال کرنے والے میاں بیوی تھے۔ وہ ہمارے اچانک ولا چھوڑنے پر بہت رنجیدہ ہوئے۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ ہم مزید وہاں ٹھہرنے والے نہیں تو انہوں نے بس اس گروپ فوٹو کی فرمائش کی۔ تصویر میں انتہائی دائیں جانب ایک چھوٹی سی بچی بھی موجود تھی۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور وہ اداسی سے کیمرے کی طرف دیکھ رہی تھی۔

او ہو، میں نے سوچا کہ اب مجھے کیمرے کے اس ٹیکنیکل مسئلے کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔ اس سے بہتر ہو گا کہ، میرے ذہن میں اچانک ایک خیال کوندا، کیوں نہ میں اس بچی کو تصویر سے کروپ کر دوں؟ ویسے بھی وہ مرکز سے خاصا دور تھی اور تصویر میں اس کا وجود اضافی محسوس ہو رہا تھا۔ ہاں یہ ٹھیک رہے گا، اور میں نے بچی کو تصویر سے نکال دیا۔

ایک منٹ، میرے منہ سے اچانک یہ لفظ نکلے۔ جیسے میں نے کچھ غلط کر دیا ہو۔ وہ بچی کون تھی؟ مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اس گھر میں کسی بچی کو دیکھا ہو۔ پھر وہ بچی کون تھی؟ وہ بچی کون تھی؟ سرخ آنکھیں، اداس چہرہ۔ مجھے لگا کہ ایک سرد آندھی موبائل کی سکرین سے نکلی اور میرے وجود سے تیزی سے گزر گئی۔ میں منجمد بیٹھا رہا۔ ٹھٹرا ہوا، کچھ بھی نہ کرنے کے قابل۔ میں نے تصویر کو ایسے ہی چھوڑ دیا۔ کیا میں اس تصویر کو کروپ کر کے اس ٹیکنیکل مسئلے کو چھپا رہا تھا؟ یا ایک ڈراؤنی یاد کو اپنے ذہن سے ہمیشہ کے لئے فراموش کر دینا چاہتا تھا!

فرحان خالد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 39 posts and counting.See all posts by farhan-khalid

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments