ہایئر ایجوکیشن کمیشن کا بحران اور قومی اداروں کی زبوں حالی


چند دن قبل وفاقی حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے وفاقی ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کو ان کی مقررہ مدت ملازمت ختم ہونے سے قبل فارغ کر دیا تھا۔ اب تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ ایک اور آرڈیننس کے ذریعے ایچ ای سی کی خودمختار حیثیت ختم کر کے اسے وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ اب ہایئر ایجوکیشن کمیشن بہت سے دوسرے اداروں کی طرح محکمۂ تعلیم کا ماتحت ادارہ بن کر رہ جائے گا۔ سچ یہ ہے کہ جب قومی اداروں کی ساکھ پر حرف آتا ہے، ان کی آزادی اور خود مختاری میں مداخلت بے جا شروع ہوتی ہے، تو ان کی کارکردگی پر انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں۔

یوں بھی کسی ادارے کو کسی وزارت کے ماتحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سرکاری بابوؤں کے ماتحت آ جائے۔ کوئی بھی سیکشن افسر نہایت آسانی سے متعلقہ ادارے کے سربراہ پر حاوی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا آئندہ ملک کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں کی نگرانی کرنے والے ادارے (ایچ ای سی) کی اپنی حیثیت اتنی بھی نہیں ہو گی جتنی کسی خود مختار یونیورسٹی کی ہوتی ہے۔

دنیا بھر میں قومی ادارے قائم ہوتے ہیں۔ نشوونما پاتے ہیں۔ مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں مگر الٹی گنگا بہتی ہے۔ نہایت محنت اور جانفشانی سے ادارے بنتے ہیں۔ قدم قدم آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن پھر کسی نہ کسی وجہ سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے بجائے ڈھلوان کی جانب لڑھکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایچ ای سی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی آمریت اور غیر جمہوری اقدامات کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ مگر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس دور میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جگہ ہایئر ایجوکیشن کمیشن کا قیام ایک اچھا فیصلہ تھا۔

ڈاکٹر عطاء الرحمان کی زیر نگرانی اس ادارے نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ شعبۂ تعلیم میں بہت سی اصلاحات ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب کو جنرل مشرف کا اعتماد اور سرپرستی حاصل تھی۔ فنڈز کی کمی تھی نہ اختیارات کی۔ اس زمانے میں ہزاروں افراد ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لئے بیرون ملک گئے۔ پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل افراد کے لئے نوکریوں کے راستے کھلے۔ البتہ پیپلز پارٹی کے دور میں ایچ ای سی مشکلات و مصائب میں گھرا رہا۔

فنڈز کی شدید کمی ( بلکہ قلت) رہی۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں ایک مرتبہ پھر کمیشن کے حالات میں بہتری آئی۔ اگرچہ سیاسی مخالفین (ن) لیگی حکومت کو سڑکوں، شاہراہوں، موٹر ویز اور میٹروز بنانے کے طعنے دیا کرتے تھے۔ سچ مگر یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ اس دور میں اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ ہوا۔ احسن اقبال ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے معاملات پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر مختار احمد نے بھی کمیشن کی اصلاح احوال میں حصہ ڈالا۔

خوبی ڈاکٹر مختار کی یہ تھی کہ وہ ہر ایک سے روابط قائم رکھتے۔ وائس چانسلر صاحبان کو ہمہ وقت دستیاب رہتے۔ ڈاکٹر بنوری کی بدقسمتی کہ انہیں اعلیٰ تعلیم کے حکومتی بجٹ میں زبردست کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا۔ راکٹ کی رفتار سے بڑھتی مہنگائی کے برعکس، تعلیمی بجٹ سکڑتا چلا گیا۔ جامعات اور وائس چانسلر صاحبان خفا رہنے لگے۔ جامعات کے سربراہان کے ساتھ ایک رسمی ملاقات میں ڈاکٹر بنوری نے یہ مشورہ تک دے دیا کہ جامعات چندے سے اپنے اخراجات پورے کرنے کا اہتمام کریں۔

نتیجہ اس سب کا یہ نکلا کہ گزشتہ دو برس کے دوران ملک بھر کی بیشتر جامعات مالی بحران کا شکار رہیں۔ نامور جامعات دیوالیہ ہونے کے قریب جا پہنچیں۔ کچھ نے بنکوں سے قرضے مانگے، لیکن ناکام رہیں۔ جامعہ پشاور جیسا اہم تعلیمی ادارہ بھی بدحالی کی تصویر بن گیا۔ حالت یہ ہو گئی کہ اس کے پاس ملازمین کو دینے کے لئے تنخواہیں تک نہیں تھیں۔ لاہور کی نامور یونیورسٹی آف انجینئرنگ ایند ٹیکنالوجی بھی دیوالیہ ہو گئی۔ بلوچستان اور سندھ میں بھی جامعات کا حال ابتر رہا۔ اب نہ جانے نئے انتظام کار کے تحت ایچ ای سی کس کارگزاری کا مظاہرہ کرے گا۔

بدقسمتی سے یہ فقط ایچ ای سی کا المیہ نہیں ہے۔ بیشتر قومی اداروں کا یہی حال ہے۔ پی آئی اے کی مثال لیجیے۔ یہ قومی ایئر لائن دنیا بھر میں ہماری پہچان اور قابل فخر حوالہ تھی۔ سارے ایشیا میں اس کے نام کی گونج تھی۔ برسوں پہلے دبئی کی ایمریٹس ایئر لائن نے پی آئی اے سے دو طیارے لیز پر لے کر کام کا آغاز کیا تھا۔ ہمارے پائیلٹوں اور انجینئروں نے ایمریٹس کے عملے کی تربیت کی تھی۔

آج امارات (Emirates) ایئر لائن کئی سو طیاروں پر مشتمل فلیٹ کی مالک ہے۔ دنیا بھر میں بہترین ایئر لائن سمجھی جاتی ہے۔ عمدہ کارکردگی کے درجنوں ایوارڈز جیت چکی ہے۔ اربوں ڈالر کماتی ہے۔ جبکہ پی آئی اے بدترین کارکردگی کی مثال بن کر رہ گئی ہے۔ ہم فقط بہ امر مجبوری اس کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ چند ماہ پہلے ستم یہ ہوا کہ وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کی ایک تقریر، دنیا میں ہمارے طیاروں اور پائیلٹوں پر پابندی لگوانے کا باعث بن گئی۔ کل ایک انگریزی اخبار کی خبر کے مطابق، یورپی یونین کی طرف سے لگنے والی پابندی کی وجہ سے پی آئی اے کو گزشتہ نو ماہ میں انیس ارب روپے کا نقصان بھگتنا پڑا ہے۔

یہی زبوں حالی سرکاری نشریاتی اداروں پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ ایک زمانے میں ان اداروں کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ پی ٹی وی میں بننے والے ڈرامے بھارت سمیت دنیا بھر میں مقبول تھے۔ بھارت کے تعلیمی اور تربیتی اداروں میں ان ڈراموں کو دکھا کر اداکاری کی تربیت دی جاتی تھی۔ ریڈیو پاکستان کی بھی دھوم تھی۔ آج ریڈیو پاکستان کے اسٹوڈیوز ویران ہیں۔ فنکاروں کو دینے کے لئے فنڈز دستیاب نہیں۔

پاکستان ٹیلی ویژن بھی بجلی کے بلوں سے حاصل ہونے والے اربوں روپے ملنے کے باوجود اپنا بوجھ اٹھانے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔ محدود سرمائے اور وسائل سے شروع ہونے والے پرائیویٹ ٹی وی چینلز، چند برسوں میں کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔ جبکہ پی ٹی وی کسی دوڑ میں شامل ہونے کا متمنی ہے نہ متحمل۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ماضی کا یہ شاندار ادارہ پیچھے کی طرف لڑھک رہا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں، روس کے تعاون سے لگنے والی اسٹیل ملز بھی عبرت کا نشان بن گئی ہے۔ سنتے ہیں کہ برسوں یہ ادارہ منافع بخش رہا۔ آج یہ اسٹیل مل سفید ہاتھی بن چکی ہے۔ ہر سال عوام کے ٹیکس منی کے اربوں روپے ڈکارنے کے باوجود، ایک قدم چلنے سے قاصر ہے۔ کبھی اس کے ملازمین کو فارغ کرنے کی باتیں ہوتی ہیں، کبھی اونے پونے بیچنے کی۔ یہ جملے لکھ رہی ہوں تو مجھے شہباز شریف کے دور حکومت میں بننے والے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (PKLI) خیال آ رہا ہے۔

اربوں روپے کی لاگت اور کئی ماہ کی محنت سے بننے والا ادارہ اس وقت کے تشہیر پسند چیف جسٹس ثاقب نثار کی ڈاکٹر سعید اختر کے ساتھ ذاتی رنجش کی نذر ہو گیا تھا۔ گزشتہ برس کوویڈ کی وبا پھوٹی تو پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد ہر جگہ نہایت فخر سے اس ہسپتال میں موجود جدید ترین سہولیات کا ذکر کیا کرتی تھیں۔ اس ملک کی بدقسمتی دیکھیے کہ گزشتہ دور حکومت میں محض سیاسی مخالفت کی وجہ سے اس اچھے ادارے کو کرپشن کا گڑھ بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔

تباہی کی کیا کیا داستانیں ہیں جو میرے ملک میں بکھری پڑی ہیں۔ کیسے کیسے شاندار ادارے سیاست زدگی کی نذر ہو کر کھنڈر میں تبدیل ہو گئے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست صرف سیاست دان نہیں کرتے، کم و بیش تمام شعبوں میں ذاتی اور گروہی مفادات کے لئے سیاست ہوتے نظر آتی ہے۔ ایچ ای سی کے معاملے میں بھی، کچھ تعلیمی حلقے اور پروفیسر صاحبان، ڈاکٹر بنوری کو ہٹائے جانے کی خبر پر خوشی کے شادیانے بجاتے رہے۔ اسے کامیابی کے طور پر پیش کرتے رہے۔

کل کلاں جب ایچ ای سی کے معاملات افسر شاہی کے ہاتھ لگ جائیں گے تو یہی اساتذہ تنظیمیں واویلا کرتی پھریں گی۔ اللہ پاک اس ملک پر رحم فرمائے۔ اس ملک کے شعبہ تعلیم پر رحم فرمائے۔ اس حکومت کے ارباب اختیار کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ جس طرح جلسوں اور دھرنوں میں تعلیم کی اہمیت بیان کیا کرتے تھے، آج اسی جوش اور جذبے کے ساتھ شعبہ تعلیم کی بہتری کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments