کینیڈا میں ایک نئی دماغی بیماری



بہزاد لکھنوی کی لکھی اور مشہور مغنیہ نیرہ نور کی گائی ہوئی غزل ”اے جذبۂ دل“ کا ایک شعر ہے کہ ”میں چاہتا ہوں اے جذبۂ دل مشکل پس مشکل آ جائے“ ۔ شاید کورونا وائرس سے نمٹنے اور اس پر قابو پانے والے سائنس دانوں کے ذہنوں میں بھی نہ ہو گا کہ ابھی وہ اس خوفناک عالمی وبا سے نمٹ بھی نہ پائے ہوں گے کہ ایک اور نئی پراسرار بیماری ان کے سامنے آ کھڑی ہو گی۔ اور یہ نئی بیماری دماغ کی ایک پراسرار بیماری کی شکل میں کینیڈا میں سامنے آئی ہے۔

کینیڈا کے صوبے ”نیوبرنزوک“ میں چالیس سے زائد افراد کو یہ اپنا شکار بنا چکی ہے۔ اس بیماری کی علامات میں یادداشت کی کمی اور خیال و خواب جیسی کیفیت کا مسلسل طاری رہنا، نظر کے مسائل اور چال ڈھال میں تبدیلی آ جانا ہے۔ اس بیماری کے شکار فرد کی حالت بظاہر ”کریوٹز فیلڈٹ جیکب ڈیزیز“ یا مختصراً سی جے ڈی کے شکار مریض جیسی نظر آتی ہے۔

یہ ایک کم یاب لیکن اپنے شکار کے لیے موت کا پروانہ بننے والی بیماری ثابت ہوتی ہے۔ اپریل کی ابتداء میں کینیڈین حکام نے نیو برنزوک کے علاقے کے ڈاکٹروں کو آگاہ کیا ہے کہ وہ اس صوبے میں ایسے تینتالیس مریضوں پر نگاہ رکھ رہے ہیں کہ جن میں بغیر کسی واضح وجہ کے دماغی تنزلی کی علامات (نیورولوجیکل ڈیزیز) سامنے آئی ہیں۔

ویسے تو اس قسم کی بیماری کا پہلا مریض دو ہزار پندرہ میں سامنے آیا تھا لیکن حکام کو تشویش اس وجہ سے لاحق ہوئی کہ صرف دو ہزار اکیس میں اس مرض کے چوبیس مریض سامنے آ چکے ہیں جبکہ کم از کم پانچ اموات کی بھی تصدیق ہو چکی ہے۔ زیادہ تر مریض جزیرہ نما آکیڈین کے علاقے سے سامنے آئے ہیں جو کہ نیو برنزوک کے جنوب مشرقی حصے میں واقع آٹھ لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹروں کو پہلے تو ان مریضوں میں سی جے ڈی کا ہی شبہ ہوا تھا جو کہ دماغ میں خاص پروٹین ”پرائی اونز“ کے غیر معمولی طور پر مڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

مگر جب اس شبے پر مریضوں کا مروجہ طریقوں کے مطابق معائنہ اور جانچ پڑتال کی گئی تو سی جے ڈی کے کوئی آثار نہ ملے۔ برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر نیل کیشمین نے بتایا کہ مجھے خود بھی بڑی حیرت ہوئی کہ ان مریضوں میں سی جے ڈی کے کوئی آثار نہیں ملے مگر ان میں علامات ویسی ہی ہیں۔ تین مریضوں کی وفات کے بعد پوسٹ مارٹم میں بھی ہر طرح سے جانچ پڑتال کی گئی مگر ”پرائی اون“ بیماری کے کوئی آثار نہیں مل پائے۔

نیوبرنزوک میں اس حوالے سے تفتیش کرنے والے اعصابی امراض کے ماہر (نیورالوجسٹ) ڈاکٹر علیئر مرریرو نے بتایا کہ مریضوں نے ابتداء میں درد، کھنچاؤ، اور رویوں میں تبدیلی کی شکایت کی۔ ابتداء میں ان کی علامات کو اضمحلال یا دباؤ سمجھا گیا لیکن ابتدائی علامات کے اٹھارہ تا چھتیس ماہ بعد مریضوں میں واضح دماغی کمزوری، پٹھوں کی کمزوری، دانت بجنے اور خیالات میں کھو جانے جیسی علامات سامنے آئیں۔ بہت سوں کو اس طرح کا احساس ہونے لگا جیسے ان کے جسم کی جلد پر کیڑے رینگ رہے ہوں۔

ان مریضوں کی علامات میں سی جے ڈی کی علامات کے علاوہ منہ کھر کی بیماری جیسی علامات بھی نظر آئیں۔

پہلے سے معلوم بیماریوں کو جیسے کہ ڈیمنشیا، امینیاتی بیماریوں اور کسی قسم کے تعدیے ہونے کے شبے میں ڈاکٹر ماریرو اور ان کے ساتھیوں نے مریضوں کی کئی طرح سے جانچ پڑتال جیسے کہ دماغ کے سکین، مختلف اقسام کے زہر کی موجودگی کی جانچ، اور مریضوں کی ریڑھ کی ہڈی سے لیے گئے پانی کی ہر معلوم طریقے سے جانچ پڑتال کی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا۔

کینیڈا میں سی جے ڈی کی بیماری کے حوالے سے نظر رکھنے کے شعبے کے سربراہ مائیکل کول ہارٹ نے بتایا کہ ہمیں گزشتہ بیس سالوں میں ایسی کوئی دماغی بیماری نہیں نظر آئی کہ جس کی شناخت نہ ہو سکے مگر یہ پراسرار بیماری اس حوالے سے بہت ڈھیٹ ثابت ہو رہی ہے۔

اس وقت محققین کے کئی وفود اس بیماری کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کر رہے ہیں جو کہ ایک نئی بیماری بھی ثابت ہو سکتی ہے یا کئی بیماریوں کا مجموعہ ۔ پروفیسر نیل کیشمین نے مزید کہا کہ یہ محققین کے لیے ایک مدد کی پکار ہے کہ ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس ہو کر اس بیماری کی وجوہات کی کھوج میں جت جائیں۔

جبکہ جامہ البرٹا کی محقق ویلری سم نے بتایا کہ محقق اب تک اس حوالے سے متفق نہیں ہو پائے ہیں کہ اس بیماری کی کیا تعریف (تشریح) کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments