کیا آپ کا بڑھاپا آپ کی زندگی کا سنہرا دور ہے؟


یہ ان دنوں کی بات ہے جب کینیڈا کی گلیوں ’بازاروں اور چوراہوں میں چہل پہل ہوا کرتی تھی اور چاروں طرف زندگی کی گہما گہمی کے آثار دکھائی دیتے تھے۔ لوگ ہنستے کھیلتے مسکراتے ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے تھے اور بڑے تپاک سے گلے ملتے تھے۔ ان دنوں نہ تو کرونا وبا کا خوف و ہراس تھا اور نہ ہی لوگ دو دو ماسک پہنے چھ چھ فٹ کے فاصلے سے ڈرتے گھبراتے ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے تھے۔

ایک شام میں اور میرے بزرگ دوست عبدالغفور چودھری نیاگرا فالز کے قریب ایک چھوٹے سے شہرNIAGARA ON THE LAKE کے ایک خوبصورت رستورانٹ میں ڈنر کھا رہے تھے اور خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ چودھری صاحب نے مجھ سے سوال پوچھا

’ڈاکٹر صاحب آپ بخوبی جانتے ہیں کہ نہ میں شاعر ہوں نہ ادیب ہوں اور نہ ہی دانشور پھر بھی آپ پینتیس سال سے مجھ سے دوستی نبھائے جا رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟‘

میں نے کہا ’چودھری صاحب آپ ایک مخلص دوست اور ایک سخی انسان ہیں۔ میں آپ کا تہہ دل سے احترام کرتا ہوں۔‘

پھر میں نے کچھ سوچ کر کہا ’ہماری دوستی کا ایک راز ہے؟‘
’ وہ کیا ہے؟‘ چودھری صاحب متجسس تھے۔

’ جب 1986 میں میرا شاعری کا پہلا مجموعہ۔ تلاش۔ چھپا تھا تو آپ وہ پہلے دوست تھے جنہوں نے نہ صرف دوستوں کو جمع کر کے میری کتاب کی پہلی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا تھا بلکہ میری بیس کتابیں بکوائی بھی تھیں‘

چودھری صاحب کی آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوئی اور کہنے لگے
’ آپ نے ایک راز بتایا ہے تو میں بھی ایک راز بتاتا ہوں‘
’فرمائیں میں ہمہ تن گوش ہوں‘
’ اس شام دس کتابیں بکی تھیں میں نے دس کتابیں خود خرید لی تھیں‘
’یہ تو ایک اور ثبوت ہے کہ آپ مجھ پر شروع سے مہربان رہے ہیں۔‘

اس شام چودھری صاحب نے بتایا کہ ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے کینیڈا کی CHILDREN AIDS SOCIETYکی خدمات سے جب وہ ریٹائر ہوئے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کی سب جمع پونجی خدمت خلق میں صرف کر دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے پہلے بھمبھر آزاد کشمیر میں اپنے والدین اور اپنی مرحومہ شریک حیات کی یاد میں ایک سکول بنوایا اور پھر دیر پختون خواہ میں ایک ہسپتال تعمیرکروایا۔ اس خدمت خلق کے لیے انہوں نے مخلتلف فلاحی اداروں کو تین لاکھ ڈالر کے تحفے دیے۔

چودھری صاحب نے یہ بھی بتایا کہ وہ کینیڈا کی MAINSTREAMکے بہت سے اداروں کے ساتھ وولنٹیر ورک کرتے ہیں۔

میں چودھری صاحب کی کینیڈا اور پاکستانی عوام کے لیے خدمات سے اتنا متاثر ہوا کہ میں نے پچھلے مہینے فیمیلی آف دی ہارٹ کے ممبروں سے مشورہ کیا کہ ہم ایک زوم کی میٹنگ کا اہتمام کریں اور چودھری صاحب کی پچاس سالہ خدمات کو سراہیں۔

چنانچہ SUNDAY 4 TH APRIL 2021 کو ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں چودھری صاحب کے بچوں ’دوستوں اور مداحوں نے شرکت کی۔ اپنے پیار اور محبت کا کھل کر اظہار کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس تقریب کے لیے

MAYOR MARIANNE MEED WARD CITY OF BIRLINGTON
MEMBER OF PARLIMENT BURLINGTN JANE MCKENNA
MEMBER OF PARLIMENT HON KARINA GOULD
نے خصوصی پیغام اور پھولوں کا گلدستہ بھیجا۔

چودھری صاحب کی پر مزاح ’شگفتہ اور سدا بہار شخصیت کو دیکھ کر جو چھیاسی برس کی عمر میں بھی ہمیشہ مسکراتے اور خدمت خلق کرتے رہتے ہیں مجھے وہ سب سینئر سیٹیزن یاد آئے جو 3 D کا شکار رہتے ہیں

DESPAIRکچھ سینئر سیٹیزن زندگی سے مایوس ہو چکے ہیں اور موت کا انتظار کر رہے ہیں
DEPRESSION کچھ سینئر سٹیزن اداسی کا شکار ہیں اور خود کشی کا سوچتے رہتے ہیں اور

DEMENTIA کچھ سینئر سٹیزن ڈیمنشیا کا شکار ہیں اور زندگی کے آخری دن کسی نرسنگ ہوم میں گزار رہے ہیں۔ ان کے بچے کبھی کبھار ملنے آ جاتے ہیں اور بعض دفعہ وہ بچوں کو بھی نہیں پہچانتے۔

بڑھاپا زندگی کا وہ دور ہے جب انسان اپنے ماضی کی طرف نگاہ کر کے اپنے آپ سے پوچھتا ہے۔ کیا کھویا اور کیا پایا؟

خوش قسمت ہیں وہ بزرگ جنہیں اپنے ماضی کے بارے میں سوچ کر کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا۔

میں چودھری صاحب کو ایک خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں جنہوں نے پاکستان اور امریکہ سے سوشل ورک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کیا اور اپنے بچوں کے لیے قربانیاں دیں۔ اپنی بیگم کی وفات کے بعد وہ اپنے بچوں کی ماں بھی تھے اور باپ بھی اور جب بچے جوان ہو گئے اور شادیوں کے بعد خود مختار ہو گئے تو انہوں نے اپنی قابلیت اور صلاحیت انسانیت کے لیے وقف کر دی۔ انہوں نے کینیڈا اور پاکستانی عوام کے لیے وہ خدمات سرانجام دی ہیں جو ان کی موت کے بعد بھی صدقہ جاریہ بن کر قائم و دائم رہیں گی۔

چودھری صاحب کی تقریب کے دوران ایک دوست نے بتایا کہ چودھری صاحب سے انسپائر ہو کر بہت سے اور دوستوں نے بھی پاکستان میں سکول اور ہسپتال بنوائے ہیں۔ تقریب میں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ جو لوگ ایک سکول نہیں بنوا سکتے وہ کم از کم اپنے بچپن کے سکول جا کر کوئی اور خدمت کر سکتے ہیں چاہے بچوں کے سکول میں پنکھے لگوائیں یا واش روم بنوائیں۔

مجھے اس بات کی حیرانی ہے کہ چودھری صاحب 86 برس کی عمر میں بھی 46 برس کے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان کا جسم بوڑھا سہی دل جوان ہے اور وہ جوانوں کو انسپائر کرتے ہیں۔ مجھے کسی انجانے دانشور کا جملہ یاد آ رہا ہے

WE ONLY GROW OLD WHEN WE STOP GROWING

میں آخر میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے چودھری صاحب کی دوستی پر فخر ہے۔ کاش ہمارے ارد گرد چودھری صاحب جیسے بہت سے سینئر سٹیزن ہوتے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments