خُدا کی گمشدگی کا مقدمہ


امر جلیل ایک ہمہ جہت فنکار ہیں۔ میں اُنہیں اُردو کے کالم نگار کے طور پر ہی جانتا تھا اور برسوں اُن کی پُر مغز تحریروں سے لطف اندوز ہوتا رہا ہوں لیکن بھلا ہو یا بُرا ہو اِس پردیس کا کہ اُس نے مجھے پاکستانی صحافت کے اثرات سے دور اور محفوظ کردیا ہے۔

اب اُتنا ہی پڑھ پاتا ہوں جتنا انٹرنیٹ پر دستیاب ہو اور چونکہ پردیس اور عمر رسیدگی کے اپنے الگ تقاضے ہیں اس لیے امرجلیل کے کالم پڑھنے کا برسوں موقع نہیں ملا۔ اور اب اچانک امر جلیل ایک سندھی زبان کے افسانہ نگار کے طور پر انٹر نیٹ کے روزنوں سے جھانکے ہیں تو کھُلا کہ اُنہیں پاکستان میں بلاسفیمی کا ملزم گردانا جا رہا ہے۔ امر جلیل کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ خُدا ناشناس معاشروں میں خُدا کا نام لینا کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔ اکبر اِلہ آبادی نے کہا تھا:

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا کر یہ تھانے میں

کہ اکبر نام لیتا ہے خُدا کا اس زمانے میں

یہ اکبر ہو،ا مر ہو یا انتھونی، تینوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ خُدا کا نام ہزاروں ماؤنٹ ایورسٹوں سے بڑا ہے اور یہ وہ پہاڑ ہے جو اُٹھائے اُٹھتا ہے نہ کاٹے کٹتا ہے لیکن امر جلیل نے یہ پہاڑ اُٹھانے کی جسارت کی ہے اور اب اُس کے بوجھ کو قبول بھی کرنا نہیں چاہتے۔ بلّے اوئے شیرا! خُدا کا نام ادیبوں اور شاعروں کے لیے ہمیشہ ٹرائل بن کر آتا ہے اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ چنانچہ امر جلیل نے بھی حسبِ روایت اپنی کہانی میں یہ بتایا ہے کہ ہر آدمی کا خُدا، اُس کی سمجھ بوجھ کی مقدار کے برابر ہوتا ہے اور یہ بھی کہ کبھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔ خُدا پر ایمان کسی معاشرے میں اُس کے احکامات کی بجا آوری سے مشروط ہے۔ اگر کوئی شخص یہ ایمان رکھتا ہے کہ خُدا ہر جگہ موجود ہے، حاضر و ناظرہے ، شہ رگ سے بھی قریب ہے، سب کچھ دیکھ رہا ہے تو پھر اُس کی موجودگی میں، اُس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قربت میں، اُس کی آنکھوں کے سامنے کرپشن، منی لانڈرنگ، رشوت خوری، کم سنوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کی وارداتیں کوئی کیسے کرسکتا ہے؟ ایسے کام وہی کر سکتا ہے جس کا خُدا گم ہوگیا ہو۔ اور امر جلیل کی کہانی میں یہی سوال اُٹھایا گیا ہے جو اس عہد کا اہم ترین سوال ہے ۔

مذہبی روایات کہتی ہیں کہ خُدا کا ہر بندے سے تعلق نجی ہے جو مروجہ مذہبی روایات کا پابند نہیں ۔ حضرت موسیؑ کے قصے میں ایک گڈریے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ، جو کہہ رہا تھا کہ اے اللہ! اگر تو مجھے مل جائے تو میں تمہاری سیوا کروں، تمہارے سر کے بال بھیڑوں کے دودھ سے دھوؤں، تمہاری جوئیں نکالوں ۔ یہ عجیب کلام سن کر موسیٰ علیہ السلام نے اُسے ڈانٹا کہ خدا سے اس طرح کی باتیں نہیں کرتے۔ یہ سُن کر گڈریا سہم کر چپپ ہوگیا مگر کہانی میں اگلا موڑ یہ ہے کہ جب موسیٰ ؑ کوہِ طور پر اللہ سے بات چیت کے لیے حاضر ہوئے تو اللہ نے کہا اے موسیٰ! میرا ایک بندہ مجھ سے پیار کی باتیں کر رہا تھا اور تو نے اُسے ڈانٹا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام کا ردِ عمل بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے ٹالسٹائی کی تین بوڑھوں کی کہانی یاد آگئی جو ایک جزیرے میں رہتے تھے، جنہیں لوگ ولی سمجھ کر اُن سے خیر و برکت کی دعا کرواتے تھے۔ جب پوپ کو اس بات کا پتہ چلا تو جزیرے میں پہنچا اور بوڑھوں سے کہنے لگا کہ چرچ کی اجازت کے بغیر تم ولی کیسے ہوگئے۔ وہ بولے کہ ہم تو خود کو ولی نہیں کہتے، جو ہمیں ولی سمجھتے ہیں، یہ اُن سے پوچھو۔

 وہ بوڑھے بھی اُس گڈریے جیسے تھے جسے حضرت موسیٰ نے ڈانٹا تھا۔ مذہب کی روایات تو اپنی جگہ، ادبی روایات میں خد ا کی وجہ سے بہت سا طوفان اٹھتا رہا ہے ۔ عمر خیام کے فکرِ بدیہی کی کہانی ادب کا ایک شہکار ہے۔ کہتے ہیں کہ عمر خیام اکثر و بیشتر نشے میں بد مست رہتے۔ ایک دن وہ شراب کی صراحی بھر کر اُٹھے اور لڑکھڑا گئے،صراحی دیور سے ٹکرائی اور چھناکے سے ٹُوٹ گئی اور ساری شراب بہ گئی، اس پر اُنہوں نے فی البدیہہ کہا کہ:

ابریقِ مئے مرا شکستی ربی

بر من درِ عیش را بہ بستی ربی

در خاک ریختی مئے نابِ مرا

خاکم بدہن، مگر تو مستی، ربی

ترجمہ: اے رب! تو نے میری شراب کی صراحی توڑ کو میری خالص شراب مٹی میں ملا دی اور مجھ پر عیش کا دوازہ بند کردیا، میرے مونہہ میں خاک مگر لگتا ہے میرے رب! کہ تو بھی نشے میں ہے۔

اس پر عمر خیام پر پھٹکار برسی ، چہرے کا رنگ سیاہ اور گردن ٹیڑھی ہو گئی۔ کئی دن ایسے ہی گزر گئے۔ ایک دن ہوش میں آئینہ دیکھا تو آسمان کی طرف مونہہ کر کے قہقہہ لگایا اور کہا:

ناکردہ گناہ در جہان، کیست بگو

آں کس کہ گنہ نکرد چوں زیست بگو

من بد کنم و تو بد مکابات دہی

پس فرق میانِ من تو چیست بگو

ترجمہ: اے خدا! مجھے یہ بتا کہ کوئی ایسا گناہ بھی ہے جو سرزد نہ ہوا ہو۔ اور وہ کون سا شخص ہے جس نے زندگی بغیر گناہ کیے گزاری۔ میں نے جب تجھے بُرا کہا تو تو نے مجھے بُرا بدلہ دیا۔ اب بتا کہ تجھ میں اور مجھ میں فرق کیا رہا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد عمر خیام کے چہرے کی چمک لوٹ آئی اور گردن معمول پر آ گئی۔ مجھے فکرِ بدیہی کے بارے میں مزید کچھ معلوم نہیں کہ بندے اور اللہ کے درمیان ایک تعلق ہے اور جب بندہ اللہ کو پکارتا ہے تو اللہ بھی اپنے بندے کو پکارتا ہے ۔ واذکرونی اذکرکم کی آیت میں اسی طرف اشارہ ہے۔اقبال کو بھی منبر و محراب سے شکایت رہی ہے کہ وہاں سے رب کے تصور کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں:

بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ!

خُدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے

خُدا اور بندے کی بے تکلفی اُس تعلق کی بنیاد پر ہے جو خُدا اور بندے کے درمیان ہوتا ہے۔ اقبال کا اس ضمن میں موقف ہے:

رمزیں ہیں محبت کی گستاخی و بے باکی

ہر شوق نہیں گستاخ، ہر جذب نہیں بے باک

اور یہ جذبے کی ہی بے باکی ہے جو منصور سے انا لحق کہلواتی ہے اور اُسے دار پر کھنچواتی ہے مگر خدا سے بے تکلف ہونے والا ہر شخص منصور نہیں ہوتا۔ بلھے شاہ کے ہاں بھی ایسی بے تکلفی کی روایت ملتی ہے۔ فرمایا:

بُلھیا پی شراب تے کھا کباب تے ہیٹھ بال ہڈاں دے اگ

بھن جھگا رب دا تے اوس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ

اس پر کفر کا فتویٰ آ گیا تو بلھے شاہ نے کہا:

تینوں کافر کافر آکھدے

توں آہو آہو آکھ

مگر اس عہد کے لوگوں کے لیے، جس عہد میں بقول اقبال، دینِ مُلا فی سبیل اللہ فساد بن چکا ہو، بُلھے شاہ اور منصور کی حد تک جانا ممکن نہیں لیکن اس کے باوجود نے امر جلیل نے بڑی بہادری سے اس موضوع پر اپنا موقف پیش کیا ہے اور اُن کی کہانی کا خدا حق و صداقت کی علامت ہے جو اس عہد میں گم ہوگیا ہے۔ اور یہ کہانی کہتی ہے کہ لوگوں نے خُدا کی اطاعت چھوڑ دی ہے اور اپنا خدا ایجاد کرلیا ہے اور یہی حقیقت ہے۔ امرجلیل نے کسی طور بھی منبر و محراب کی شان میں گستاخی نہیں کی مگر یہ بات مُلا کی سمجھ میں نہیں آ سکتی:

گل سمجھ لئی تے رولا کیہ

ایہہ رام، رحیم تے مولا کیہ

مسعود منور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مسعود منور

(بشکریہ کاروان ناروے)

masood-munawar has 19 posts and counting.See all posts by masood-munawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments