حقوق نسواں اور مغرب کی سازش


تاریخ انسانی کے اوراق میں مؤرخ رقم طراز ہے ایسے مواقع بھی آئے جب خاندان اور طبقات کے غلبے کے باوجود عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار رہا اور اس کے اشارے پر حکومتیں اور سلطنتیں گردش کرتی رہیں۔ آج بھی ایسے قبائل موجود ہیں جہاں عورت کو مرد کے مقابلے میں بالادستی حاصل ہے۔ مغربی تہذیب عورت کو ضرور کچھ حقوق دیتی ہے لیکن ایک عورت کی حیثیت سے نہیں بلکہ عورت کو مغربی معاشرے میں حقوق تب فراہم کیے جاتے ہیں جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتی ہے۔

مذہب اسلام نے عورت کو اس وقت حقوق دیے جب وہ ذلت و پستی کے گڑھوں میں دھنسی ہوئی تھی۔ اس کے وجود کو گوارا کرنے سے صریحاً انکار کیا جا رہا تھا۔ حضورﷺ جب تشریف لائے تو آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے باہر نکالا۔ زندہ درگور کی جانے والی عورت کو بے پناہ حقوق دیے ۔ قومی اور ملی زندگی میں عورت کی کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپیں۔ اسلام میں عورت کا جو مقام و مرتبہ معاشرے میں متعین کیا گیا ہے وہ جدید و قدیم کی بے ہودہ روایتوں سے پاک ہے۔ نہ تو عورت کو گناہ کا پتلا بنا کر مظلوم بنانے کی اجازت ہے اور نہ ہی اسے مغرب کی تہذیب میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی آزادی حاصل ہے۔

اسلام نے تو عورت کے سماجی ، تمدنی اور معاشی حقوق کا فرض ادا کرتے ہوئے معاشرے میں اس کے مقام و مرتبہ اور وقار کا تعین کیا ہے۔ خواتین انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔ اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان عورت کو مرد کے برابر درجہ دیا۔ اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے بالخصوص مغرب جو عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرے میں اس کو مقام و منصب دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتا ہے ، اسی نے ہمیشہ عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا ہے۔

دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام نے عورت کے حقوق کے لئے لاتعداد قوانین بنائے لیکن اسلام کے سوا کسی نے بھی عورت کو وہ حقوق نہیں دیے جس سے اس کا معاشرے میں سماجی ، تمدنی اور معاشی حقوق کا فرض ادا ہو ۔ کائنات کے اس اہم ترین جزء کو بڑی بڑی تہذیبوں نے ناپاک بنا کر اس کا رتبہ مزید کم کیا۔ عورتوں میں بہترین عورتیں چار ہیں حضرت مریم بنت عمران علیھما السلام، ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ علیھا السلام ، حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا اور فرعون کی بیوی حضرت آسیہ علیھا السلام۔ ان چار عورتوں کی طرف اشارہ فرما کر آپ حضورﷺ نے چار بہترین کرداروں کی نشاندہی فرما دی۔

ایک ماں کا کردار حضرت مریم بنت عمران علیھا السلام، ایک عظیم بیوی کا کردار حضرت خدیجتہ الکبریٰ علیھا السلام ، ایک عظیم بیٹی کا کردار حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا اور ایک عظیم عورت کا کردار حضرت آسیہ علیھا السلام نے نبھایا اور ان چاروں کرداروں نے عورت کے معاشرے میں کردار کی حدود و قیود کا تعین کر دیا۔ حضورﷺ نے اس دنیا میں عورت کے تمام روپ اور کرداروں کو دیکھ کر اپنی زبان مبارک سے بیان فرما دیا کہ اب جس دور میں عورت ہو جس مقام پر ہو اسے اپنی حیثیت کا زائچہ خود نکال کر دیکھ لینا چاہیے اور ان چاروں کرداروں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حیثیت کو پہچان لینا چاہیے۔

مغرب جو حقوق نسواں کے نام پر کھیل رچا رہا ہے اور حقوق کے نام پر جس عیاری کے ساتھ اسے سڑکوں کی زینت بنا دیا بظاہر خواتین مغربی سازش کا شکار ہو کر خوش تو ہوں گی لیکن عورت کو سوچنا چاہیے کہ اسلام نے  اس کو جو مقام و مرتبہ دیا ہے اور معاشرے میں اس کے کردار کا تعین کرتے ہوئے گھر میں ان کے لئے ایک میزان قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے گھروں کو ان کے لئے مضبوط قلعہ بنایا جس پر مغرب نے مذمتیں کیں۔  حقوق نسواں کے نام پر نام نہاد آزادی دلوانے کے لئے آواز بلند کی اور اس نام نہاد آزادی کی حامی بہت سی خواتین کو مغرب نے اپنی کمال ہوشیاری کے ذریعے انسانی حقوق کی تنظیمیں منظم کرتے ہوئے باقاعدہ فنڈنگ کے ذریعے پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں خواتین کو سڑکوں پر لا کر بے راہروی کو فروغ دیا۔

یہ سب کیا ہے؟ یہ مغرب کی عورت کی نام نہاد آزادی کے نام پر بے راہروی اور فحاشی کو فروغ دینے کی بہت بڑی عالمی سازش ہے۔ آج وزیراعظم عمران خان کے پردہ کے متعلق بیان پر مغرب کے پروردہ نام نہاد آزادی کے علم بردار دیسی لبرل طبقے کی چیخیں تو صاف سنائی دے رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ملک میں موجود لبرل سوچ کی حامل سیاسی جماعتوں نے بھی وزیراعظم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

عالمی یوم خواتین کے موقع پر پوری دنیا میں یوم خواتین کا انعقاد کیا گیا،  دنیا کے کئی ممالک میں بڑے بڑے جلوس نکالے گئے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم ، تشدد اور جنسی استحصال کے خلاف مظاہرے کیے گئے ۔ یہ مظاہرے میکسیکو، برطانیہ ، فرانس اور اٹلی میں بھی ہوئے اور آسٹریلیا میں بیک وقت چالیس شہروں میں 85 ہزار سے زیادہ خواتین نے مظاہرے کیے، کالے کپڑے پہن کر علامتی سوگ منایا گیا اور ان سینکڑوں خواتین کے نام جاری کیے گئے جو گھر، بازاروں اور دفتروں میں ظلم و تشدد اور جنسی استحصال کا شکار ہوئیں۔ یہ اس مغربی معاشرے کی عکاسی ہے جو خود حقوق نسواں کا سب سے بڑا علم بردار بنا بیٹھا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں زیادہ تر خواتین گھر سے باہر قدم نکالنے کی وجہ سے جن حالات کا شکار ہو رہی ہیں وہ ان حالات سے خوش نہیں ہیں بلکہ پریشان ہیں۔ مغرب کی حقوق نسواں کے نام پر جو سازش پروان چڑھ رہی ہے ، ملک عزیز میں مغرب کی پروردہ خواتین تنظیموں کی جانب سے مغربی ایجنڈے کی تکمیل سے ایسی ایک کھیپ تیار ہو رہی ہے جو ملک میں عورتوں کو نام نہاد آزادی کے نام پر سڑکوں پر لا کر فحاشی و عریانی کو فروغ دینے کا سبب بن رہی ہے اور ملکی معاشرے میں ایسی فصل کی آبیاری مغربی ایجنڈا کی تکمیل کے لئے کی جا رہی ہے جس کی بیخ کنی اشد ضروری ہے۔

پاکستان میں جو عالمی یوم خواتین کے نام پر ہوا، وہ قابل مذمت ہی نہیں بلکہ باعث شرم بھی ہے۔ آج مغرب میں عورت جن حالات کی شکار ہے ۔ان حالات سے وہ سخت پریشان ہے اور وہ خواتین محسوس کر رہی ہیں کہ انہیں کس قدر مجبور بنا دیا گیا ہے۔ مغربی سازش نے نہ صرف عورت کو گھر سے نکال کر سڑک پر لا کھڑا کیا بلکہ مرد کے لئے اسے آسان چارہ بھی بنا دیا بلکہ ان پر یہ بھی ذمہ داری کا بوجھ لاد دیا گیا۔ اسے نہ صرف گھر دیکھنا ہے بلکہ گھر چلانے کے لئے پیسہ بھی کمانا ہے۔ تب مغربی عورت کو محسوس ہوا کہ وہ کتنی بڑی سازش کا شکار ہو چکی ہے۔ بہرحال اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں ۔ ان سے یہ خیال ضرور زور پکڑے گا کہ عورت گھر کی چار دیواری میں ہی زیادہ محفوظ رہ سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments