ہم وطنو، حب وطن کا سبق امجد خان نیازی سے پڑھو


قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں معزز رکن پارلیمان جناب امجد احمد خان نیازی جو میانوالی سے رکن قومی اسمبلی ہیں، کا پیش کردہ بل منظور کر لیا گیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جو شخص افواج پاکستان یا ان کے اعلیٰ عہدیداروں کے تمسخر یا تنقید کرنے کا مرتکب پایا گیا تو اسے یا 2 سال قید یا 5 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

ایک اور بات بتا دوں کہ جب یہ بل قائمہ کمیٹی میں پیش ہوا تو اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی اور 4 ووٹ بل کے حق اور 4 اس کی مخالفت میں تھے۔ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین جو کہ اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی ہیں، انہوں نے فیصلہ کن ووٹ ڈال کر یہ بل کمیٹی سے منظور کروا دیا ہے۔ اب یہ بل قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور سادہ اکثریت سے حکومت اسے منظور کروا لے گی اور یہ تعزیرات پاکستان میں شامل کر دیا جائے گا۔

اس بل کی وزارت قانون و انصاف نے بھی مخالفت کی کہ یہ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل 19 کے متصادم ہے۔ آئین کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار کی مکمل آزادی اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مگر آپ اور میں جانتے ہیں کہ ہم کتنا آزادی سے اپنی بات کا اظہار آزادانہ ماحول میں کر سکتے ہیں ، ہمیں معلوم ہے کہ جب سرخ لائن جانے انجانے میں عبور کر لی جاتی ہے تو کون سے مصائب آپ کو برداشت کرنا پڑ سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آئین میں جب یہ بات پہلے سے درج ہے تو آپ الگ سے قانون سازی کر کے اسے قابل تعزیر کیوں بنا رہے ہیں اور کیوں آئین سے روگردانی کر رہے ہیں؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ایوانوں میں جن نمائندوں کو (ہم اور آپ چاہیں یا نہ چاہیں) قومی اسمبلی کے ایوان میں بٹھانا ہوتا ہے ، ان کی کامیابی کی اہم وجہ ان کے علاقے یا حلقہ انتخاب میں ان کی مقبولیت، جان پہچان اور ووٹ نہیں ہوتے بلکہ کچھ با اثر غیر سیاسی شخصیات کے ساتھ رابطے ہوتے ہیں اور یہ ان کی ایسی خوشامد کرتے ہیں کہ وہ ان کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور ان کو اپنے مقاصد کے حصول کی تکمیل (جو کہ سیاسی عمل سے لائی جانی ہو) کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے ۔ اس لئے ان افراد پر اپنا دست شفقت رکھ دیا جاتا ہے اور اس دست شفقت کی بدولت وہ کامیاب ہو کر سب سے مقدس اداے کے بندے بن جاتے ہیں۔

ایسے کردار شیخ رشید احمد جیسے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ امجد خان نیازی صاحب کی طرح ہوتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ ان کا سیاسی قد کاٹھ کیا ہے اور ان پر مہربانی کس بنیاد پر ہوئی تھی۔ ان کے والد محترم شیر افگن نیازی مرحوم کو تو ہم جانتے ہی ہیں کہ مسلم لیگ ق کے دور میں کیا کیا نہیں کیا تھا انہوں نے۔

یہ تو پس منظر بیان کر دیا میں نے اور یہ بھی بتایا کہ ایسی قانون سازی کا مسودہ پیش کرنے کی وجہ کیا ہوتی ہے کیونکہ ان افراد کا اپنا ذاتی مفاد ملک کے ”وسیع تر قومی مفاد“ سے جڑا ہوا ہے۔ اصل میں اس قانون کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ چلیں قومی میڈیا خواہ وہ اخبارات کی صورت میں ہو یا نیوز چینلز کی صورت میں وہ تو پہلے ہی مثبت رپورٹنگ میں مگن ہے اور کافی اینکر حضرات اس ملک کے لوگوں کو ایسا ایسا سچ بتاتے ہیں جس کا حقیقت سے دور دور تعلق ہی نہیں ہوتا۔

آج کل گمراہی پھیلانا بھی ملک و قوم کے لئے کیا جاتا ہے کیونکہ ٹی وی چینلز کے مالکان اور اینکر حضرات یہ بات جانتے ہیں کہ اگر وہ ’شفیق لوگوں‘ کی شفقت کو نظر انداز کرتے ہیں تو ان کا انجام بھی وہی ہو گا جو میر شکیل الرحمان، سید طلعت حسین، مطیع اللہ جان اور مرتضیٰ سولنگی، نصرت جاوید جیسے افراد کا ساتھ ہو چکا ہے اور کوئی اب اتنا کم عقل نہیں کہ وہ اپنے ہی پیٹ پر لات مار دے ’شفقت‘ کو نظر انداز کر کے۔

سچی بات یہ ہے جناب کہ یہ سوشل میڈیا فساد کی جڑ بن چکا ہے اور اس پر جو لوگ اس حکومت پر تنقید کرتے ہیں دراصل یہ ملت و قوم کی ترقی سے حسد کرتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ یہ ملک ترقی کے شاہراہ پر گامزن ہو سکے۔ پتا نہیں کیوں کہتے ہیں کہ اس ملک کا چیف ایگزیکٹو الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ ہے اور یہ کہ وزیراعظم تو نکا ہے اور اس نکے کو مسند اقتدار پر اس کے ابے نے بٹھایا ہے۔ پتا نہیں کون لوگ ہیں اس سوشل میڈیا پر جو اس بیان کا مذاق اڑاتے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پتا نہیں کون لوگ ہیں جو عزت مآب ایوب خان، عزت مآب یحییٰ خان، عزت مآب ضیاء الحق اور عزت مآب پرویز مشرف کو آمر سمجھتے ہیں حالانکہ وہ تو پاکستان کے آئینی صدر مملکت رہ چکے ہیں۔ پتا نہیں کون لوگ ہیں جو پاپا جونز پیزا کا تمسخر اڑانے کا گناہ کرتے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ وہ قومی پیزا ہے اور اسے کثرت سے تناول فرمانا آپ کو اس مٹی سے مزید جوڑتا ہے۔ کون ہیں وہ ظالم لوگ جو فوجی فرٹیلائزرز اور باقی بڑی کمپنیوں اور کاروباروں پر سوال اٹھاتے ہیں؟

کون تھے وہ حاسدین جنہوں نے پچھلے دنوں یہ الزام لگایا کہ ڈی ایچ اے ملتان کے لئے قتل آم ہوا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو آئے دن آر ٹی ایس بند کرنے کا الزام اس عظیم فوج پر لگاتے ہیں جو حلف لیتے ہیں اور بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان کا سیاست سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو آئے دن سقوط ڈھاکہ اور جنرل اے کے نیازی کے سرنڈر کی تصاویر اور 93000 جنگی قیدیوں کو یاد کرتے ہیں؟ کچھ سیاچن کو یاد کرتے ہیں ، کچھ کارگل کے بارے میں گمراہی پھیلا کر تمسخر اڑاتے ہیں۔ پتا نہیں کون ہیں جو ترکی کی مثالیں دے رہے ہوتے ہیںم کچھ برما کی مثالیں دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں جو ایک فون کال والے چینی وزیر خارجہ کے بیان پر پرویز مشرف کی ذات پر حملہ کر کے جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔ کون ہیں وہ لوگ جو ایک عظیم شہر کے نام کی بے ادبی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

کون ہیں جو اب وہ نام بالکل اخلاق سے گرے ہوئے انداز میں اپنی زبان سے جاری کرتے ہیں حالانکہ وہ نام تو باعث فخر ہیں اور ان مقدس ناموں کا لبوں پر آنا بھی بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔

کون ہیں وہ لوگ جو مطیع اللہ جان، ساجد گوندل اور سرمد سلطان کے اپنے خاندان سے لڑ کر جھگڑ کر مراقبہ کرنے کے لئے ایسی جگہوں پر چلے جانے پر ان کے اغوا کا شور مچا دیتے ہیں، جہاں پر موبائل سگنل نہیں آتے؟ کون ہیں وہ جو نواز شریف جب کچھ نام لیتے ہیں تو نواز شریف کی تعریف کرتے ہیں؟

ایسے افراد اور عناصر کا جو جان بوجھ کر من گھڑت باتیں بناتے اور فوج کو بدنام کرتے ہیں ، انہیں یہ سب نہیں کرنا چاہیے اور اچھا ہے یہ قانون نافذ العمل ہو تاکہ ایک تو مایوسی، جھوٹ اور بہتان کا اس سوشل میڈیا سے تدارک ہو جائے اور اس طرح غداروں کی نشاندہی بھی ہو جائے گی ۔ جو لوگ باز نہیں آئیں گے جیل جا کر ان لوگوں کو شاید سمجھ آ جائے کہ یہ بہک گئے تھے اور پھر شاید یہ راہ راست پر آ جائیں۔

یہ جو مندرجہ بالا باتیں تحریر کی ہیں یہ میں نے اس لئے تحریر کی ہیں تاکہ آپ کو پتہ چل جائے کہ یہ جو عناصر جان بوجھ کر پاک فوج اور خاص طور پر اس کے اعلیٰ عہدیدران کو ہدف تنقید بناتے ہیں اور ان کے بارے میں گالم گلوچ کرتے ہیں، کہیں آپ جانے انجانے میں ان افراد میں شامل تو نہیں ، کہیں آپ اس طرح کی پوسٹس یا ٹویٹس تو نہیں کر رہے؟

اگر آپ بھی ایسا کر رہے ہیں تو فوراً ایسا کرنا چھوڑ دیں کیونکہ اب یہ قابل تعزیر جرم بن چکا ہے اور ویسے بھی ہم اپنی افواج جو قربانیاں دے کر دفاع مادر وطن کر رہی ہیں ، ان کا مورال نہیں گرانا چاہیے بلکہ آس پاس سوشل میڈیا پر ان افراد کی شاگردی اور صحبت اختیار کر لیں جو سوشل میڈیا پر دشمن قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ ان افراد کو فالو کریں اور ان کی طرح کا لب و لہجہ اختیار کریں اور اسی طرح ففتھ جنریشن وار جو اس مملکت خدادار پر مسلط کی گئی ہے ، اس جنگ کو جیتنے کے لیے ہراول دستے میں شامل ہو کر ملک و قوم کی فلاح و بہتری کے لیے کام کریں۔  کیونکہ اب ریاست کا حکم ہے کہ مثبت رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ مثبت پوسٹنگ کریں ورنہ جیل یاترا کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا شروع کر لیں اور ساتھ پانچ لاکھ روپے کا بھی انتظام یقینی بنا لیں۔

میں تو مفاد عامہ میں یہ سب بیان کر رہا ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتا کوئی اپنی زندگی کے دو قیمتی سال اسیر زندان ہو کر گزارے، وہ بھی ایسے خیالات کا اظہار کر کے جو ریاست کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments