بلوچستان میں مِسنگ درسی کتب کا معاملہ


بلوچستان بھر میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو چکا ہے۔ سال کے آغاز میں سکولوں کے طلبا و طالبات کو جس چیز کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے وہ ہیں نصابی کتابیں۔ مگر ہر سال کی طرح موجودہ سال بھی بلوچستان بھر کے تعلیمی ادارے درسی کتابوں کی عدم دستیابی کا رونا رو رہے ہیں مگر حکومت وقت ہے کہ جس نے اس اہم مسئلے پر کچھ کہنے کے موڈ میں نہیں۔

محکمہ تعلیم آواران کے ضلعی افسر کی جانب سے بذریعہ سوشل میڈیا یکم اپریل کو ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا جس میں آواران کے سکول ہیڈز کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ اپنے اپنے سکول کی درسی کتب وصول کرنے کلیکشن پوائنٹس تشریف لے جائیں۔

تحصیل جھاؤ کے تعلیمی اداروں کو کتابوں کی فراہمی کا مرکز گورنمنٹ ہائی سکول کیمپ جاہو قرار پایا۔ کتب وصول کرنے کے لیے جاہو کے مختلف سکولوں کے ہیڈز نے کیمپ جاہو کا رخ کیا۔ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ محکمہ تعلیم آواران کے ذمہ داران کی جانب سے تحصیل جاہو کے سکولوں کے لیے کتابیں اتنی کم پہنچائی ہیں کہ بمشکل دس سکولوں کی ضروریات پوری کر پائیں۔

دوم یہ کہ ہر کلاس سے بہت سے مضامین غائب تھے۔ اول ادنیٰ کی انگریزی، بلوچی، اول اعلیٰ کی معلومات عامہ، دوسری کلاس کی اردو، تیسری کلاس کی انگریزی، ریاضی، بلوچی، معلومات عامہ، پانچویں جماعت کی اردو، معاشرتی علوم، جنرل سائنس، اسلامیات، چھٹی جماعت کی ریاضی، تاریخ و جغرافیہ، اسلامیات، ساتویں جماعت کی انگریزی، تاریخ و جغرافیہ، عربی، آٹھویں جماعت کی ریاضی، جنرل سائنس، تاریخ و جغرافیہ، عربی، اسلامیات، اور نویں جماعت کی اردو، فزکس، کیمسٹری، معاشرتی علوم، اسلامیات موجود نہیں تھیں۔

مسنگ یا غائب کتابوں کا معاملہ گزشتہ کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ نصابی کتابوں میں کمی کی وجہ سے نہ صرف طلبا و طالبات کو مشکلات کا سامنا ہے بلکہ ٹیچرز کے لیے بھی مشکلات کھڑی ہوتی ہیں جب وہ بچوں کو پڑھا رہے ہوتے ہیں ۔ بچے کتابوں کی عدم دستیابی کے سبب استاد کا بتایا گیا خاکہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ نتیجہ، نزلہ امتحانات کے وقت طلبا و طالبات کی امتحانی پیپرز پر گرتا ہے اور انہیں مذکورہ مضامین میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی کتابیں فراہم کرنے میں محکمہ تعلیم بلوچستان ناکام رہا ہے۔

سوالات جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں کہ کیا نصابی کتابوں کے لیے بجٹ کم رکھا جاتا ہے جس سے کتابیں کم ملتی ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے؟ نصابی کتابوں کی پرنٹنگ کے لیے حکومت ہر سال خطیر رقم خرچ کرتی ہے۔ پرنٹنگ کے لیے 520 ملین روپے اور تمام اضلاع کو بکس کتابیں ٹرانسپورٹ کی مد میں گیارہ ملین روپے رکھے جاتے ہیں۔ کتابیں تو چھپ کر آ جاتی ہیں مگر اضلاع کو ان کی ڈیمانڈ کے مطابق بھیجی نہیں جاتیں ، ٹرانسپورٹیشن کی رقم بچانا مقصود ہوتا ہے یا یہ مقصد ہوتا ہے کہ یہی کتابیں اگلے سال کام آ جائیں اور کتابوں کی چھپائی سے بچ جانے والی رقم کی بندربانٹ کی جائے۔

کتابیں ہر سال بچائی جاتی ہیں ، یہی وجہ ہے موجودہ سال بھیجی جانے والی کتابوں پر جو ٹھپا لگا ہے وہ ہے ”یہ کتابیں محکمہ تعلیم بلوچستان کی جانب سے تعلیمی سال 2020 کے لیے مفت تقسیم کی جا رہی ہے اور ناقابل فروخت ہیں“ اور کچھ پر 2019 کا ٹھپا ہے۔ یہ کام ہر سال دیدہ دلیری سے کیا جا رہا ہے۔

آواران کے کسی بھی سکول میں براہوی زبان نہیں پڑھائی جاتی مگر گزشتہ سال ہم نے دیکھا کہ بلوچی کے ساتھ ساتھ براہوی زبان کی نصابی کتابیں بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے آواران بھجوائی گئی تھیں جو ابھی بھی محکمہ تعلیم آواران کے اسٹاک میں پڑی ہوں گی۔ صوبائی سطح پر سیٹوں پہ براجمان ذمہ داران کو اگر اتنی بھی خبر نہیں کہ کون کون سے اضلاع میں کون سی بولی کی کتابیں بھیجنی چاہئیں اور کون سی نہیں یا یہ کہ اس وقت سکولوں میں داخل طلبا و طالبات کی تعداد کتنی ہے جس کے حساب سے کتابیں اضلاع کو پہنچائی جائیں تو انہیں ان پوزیشز پر رہنے کا حق بھی نہیں پہنچتا۔

کیوں نہ ان کی جگہ اہل اور ذمہ دار افسران کا انتخاب کریں جن کے پاس پوری معلومات ہوں۔ وہ ڈسٹرکٹ سے ڈیمانڈ لیں پھر اسی ڈیمانڈ کے حساب سے کتابیں ڈسٹرکٹ کو بھجوا دیں مگر یہ کام ان سے ہوتا نہیں۔ پھر یہی ہوتا ہے کہ ڈسٹرکٹ کے ذمہ داران بھی صوبائی ذمہ داران کی پیروی کرتے ہوئے بس خانہ پری کرتے ہیں۔

دنیا میں کہیں یہ نہیں کیا جاتا کہ ٹیچرز کتابیں وصول کرنے جائیں بلکہ کتابیں ان کے سکولوں تک پہنچائی جاتی ہیں مگر یہاں معاملہ الٹا ہے ٹیچرز کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے کتابیں لینے خود جاتے ہیں۔ کتابوں کو سکول تک پہنچانے کے لیے کرایہ بھی اپنی جیب سے بھرتے ہیں مگر جب وہ اسٹیشن پہنچتے ہیں تو انہیں کتابوں کا ادھورا سیٹ دیا جاتا ہے یا پھر کتابیں دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔ یہی معاملہ اس وقت جاہو بشمول بلوچستان کے تمام سکولوں کے ساتھ ہے۔ جب ہم نے چیئرمین ٹیکسٹ بک بورڈ سے اسی موضوع پر ان کے کمنٹس لینے چاہے تو انہوں نے کہا کہ کتابوں کی فراہمی کے ذمہ دار ڈائریکٹر سیکنڈری تعلیم ہیں۔

جب ڈائریکٹر ثانوی تعلیم بلوچستان واحد شاکر کا موقف جاننے کی کوشش کی تو پہلے انہوں نے معاملہ یہ کہہ کر ٹالا کہ مسئلے سے متعلق معلومات ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر سے لے سکتے ہیں مگر بعد میں مسنگ بکس کی جو لسٹ انہیں ارسال کی گئی اس پر انہیں اپنا خیال یہ کہہ کر بدلنا پڑا کہ وہ چیئرمین بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ سے پوچھ کر بتا دیں گے۔

اس وقت بلوچستان میں محکمہ تعلیم کا نصابی شعبہ بحرانی کیفیت کا شکار ہے ۔ ایک طرف کتابوں کی کم فراہمی تو دوسری جانب مضامین کی گمشدگی۔ یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments