جہانگیر ترین کے عشائیے میں ارکان اسمبلی کی شرکت: کیا پی ٹی آئی حکومت کو کوئی خطرہ ہے؟


مبصرین کے مطابق جہانگیر ترین کا عشائیہ ایک کامیاب سیاسی شو تھا۔ 
لاہور — حکومتی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ناراض رہنما جہانگیر خان ترین نے جمعے کی شب لاہور میں ارکان پارلیمنٹ کو عشائیے پر مدعو کیا جس میں 29 اراکین قومی و صوبائی اسمبلی شریک ہوئے۔

اطلاعات کے مطابق عشائیے میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اراکین اسمبلی وزیرِاعظم عمران خان سے جہانگیر ترین سے متعلق ایک ملاقات کریں گے اور ملاقات کی درخواست ہفتے کی شام دیے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

جہانگیر ترین کی میزبانی میں دیے گئے عشائیے میں شرکت کرنے والے رکنِ قومی اسمبلی راجہ ریاض بتاتے ہیں کہ عشائیے میں شریک تمام اراکین نے جہانگیر ترین کے معاملے پر وزیرِِ اعظم سے ملاقات کے لیے درخواست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے راجہ ریاض نے بتایا کہ ملاقات کے لیے اراکین پارلیمنٹ، وزرا اور مشیروں کے دستخطوں سے ایک درخواست تیار کر لی گئی ہے۔ جو کہ ہفتے کی شام تک وزیرِِ اعظم عمران خان کو ارسال کر دی جائے گی۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ وہ اور دیگر اراکین اسمبلی ملاقات میں وزیرِ اعظم کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت بننے سے قبل جہانگیر ترین، عمران خان کے مشیرِ خاص تھے اور پارٹی کے تمام فیصلے ان کی مشاورت سے کیے جاتے تھے۔

پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد بھی جہانگیر ترین کو وہی مقام حاصل رہا۔ وہ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی شرکت کرتے اور کئی وزرا ان کو اپنے محکموں کی کارکردگی کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔

مبصرین کے مطابق جہانگیر ترین کا عشائیہ ایک کامیاب سیاسی شو تھا جس سے حکومتی حلقوں میں قدرے تشویش پائی جاتی ہے۔

عشائیے میں کون کون شریک تھا؟

جہانگیر ترین کی جانب سے دیے گئے عشائیے میں متعدد اراکین قومی و صوبائی اسمبلی شریک ہوئے جن میں صوبہ پنجاب کے دو وزرا، پانچ مشیر اور معاونین وزیرِ اعلیٰ پنجاب بھی شریک ہوئے۔

اطلاعات کے مطابق عشائیے میں اراکین قومی اسمبلی میں راجہ ریاض، خواجہ شیراز، ریاض مزاری، سمیع گیلانی، جاوید وڑائچ، مبین عالم، غلام لالی اور غلام بی بی بھروانہ شریک ہوئے۔

عشائیے میں اراکین پنجاب اسمبلی اجمل چیمہ، نعمان لغاری، امیر محمد کان، فیصل جبوانہ، عبدالحئی دستی اور رفاقت علی خان بھی شریک تھے۔

اطلاعات کے مطابق عشائیے میں عون چوہدری، نذیر چوہان، سجاد وڑائچ، امین چوہدری، خرم لغاری، مہر اسلم بھروانہ، آفتاب ڈھلوں، عمر آفتاب ڈھلوں، آصف مجید، طاہر رندھاوا، بلال وڑائچ، زوار وڑائچ، نذیر بلوچ، امین چوہدری، افتخار گوندل، ثمن نعیم اور غلام رسول بھی شامل تھے۔

تحریکِ انصاف میں الگ گروپ کی ضرورت کیوں؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین اپنی طاقت دکھانا چاہ رہے ہیں کہ وہ بھی پی ٹی آئی میں ایک حیثیت رکھتے ہیں اور اگر اُنہیں تنگ کیا جائے گا۔ تو وہ جماعت کے اندر ایک علیحدہ گروپ بنا سکتے ہیں جس کو اُنہوں نے تقریباً بنا ہی لیا ہے جسے پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک یا ترین گروپ کہا جا سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے بتایا کہ جہانگیر ترین کو اپنا علیحدہ سیاسی گروہ بنانے کی ضرورت اِس لیے محسوس ہوئی کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور اُس انتقامی کارروائیوں کو ایک اپوزیشن دینے کے لیے اُنہوں نے یہ کام کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق عشائیے میں اراکین قومی اسمبلی میں راجہ ریاض، خواجہ شیراز، ریاض مزاری، سمیع گیلانی، جاوید وڑائچ، مبین عالم، غلام لالی اور غلام بی بی بھروانہ شامل تھیں۔
اطلاعات کے مطابق عشائیے میں اراکین قومی اسمبلی میں راجہ ریاض، خواجہ شیراز، ریاض مزاری، سمیع گیلانی، جاوید وڑائچ، مبین عالم، غلام لالی اور غلام بی بی بھروانہ شامل تھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جہانگیر ترین سمجھتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے آرکیٹیکٹ (بنانے والے) ہیں اور پی ٹی آئی آج جو برسرِ اقتدار ہے اُس میں اُن کی کوششوں کا بھی دخل ہے۔

سہیل وڑائچ کے بقول جہانگیر ترین اپنے گروہ کو ساتھ لے کر ایک شو کرنا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی تو وہ بھی ہیں اور اُنہیں ہی حکومت کیوں انتقامی کارروائیوں کا حصہ بنا رہی ہے۔

’جہانگیر ترین کے خلاف تحقیقات کے سربراہ شہزاد اکبر ہیں​‘

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں جہانگیر ترین کچھ نہیں کر رہے۔ اُن کے ساتھ جو کر رہے ہیں عمران خان کر رہے ہیں۔ کیوں کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) جہانگیر ترین کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے اور ایف آئی اے وفاقی حکومت کے زیرِ کنٹرول ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر، جہانگیر ترین کے خلاف ہونے والی ایف آئی اے کی تحقیقات کے سربراہ ہیں۔

سہیل وڑائچ کی رائے میں جہانگیر ترین ابھی بھی یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان اور اُن کے درمیان کوئی صلح صفائی یا کوئی درمیانی راستہ نکل آئے۔
سہیل وڑائچ کی رائے میں جہانگیر ترین ابھی بھی یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان اور اُن کے درمیان کوئی صلح صفائی یا کوئی درمیانی راستہ نکل آئے۔

اُنہوں نے کہا کہ یہ کیس گزشتہ سال جب سے شوگر کمیشن کی رپورٹ آئی ہے، اُس وقت سے چل رہا تھا، لیکن جہانگیر ترین ملک سے باہر چلے گئے تھے اور اب واپس آئے ہیں تو انکوائری قدرے رک گئی تھی۔

حامد میر کہتے ہیں کہ جب سے حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں انتشار پیدا ہوا ہے اور عمران خان کو یہ لگ رہا ہے کہ مرکز اور پنجاب میں اُنہیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے تو یہ کام شروع کر دیا گیا ہے۔

حامد میر کے بقول صرف جہانگیر ترین ہی نہیں کچھ دیگر ارکان، قومی و صوبائی اسمبلی کے خلاف بھی انکوئریاں چل رہی ہیں جس میں وہ یہ ثابت کریں گے کہ احتساب سب کے لیے برابر ہے جس کے بعد حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے ارکان کی باری آئے گی۔

جہانگیر ترین کا ٹھنڈا مزاج

تبصرہ نگاروں کے مطابق جہانگیر ترین ایک دھیمے اور ٹھنڈے مزاج کے سیاسی رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔

سہیل وڑائچ کی رائے میں جہانگیر ترین ابھی بھی یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان اور اُن کے درمیان کوئی صلح صفائی یا کوئی درمیانی راستہ نکل آئے۔ اِس لیے پی ٹی آئی کے اندر ہی ایک الگ گروپ بنایا ہے جس کو بہت زیادہ پروان نہیں چڑھایا۔ ابھی تو وہ صرف عشائیہ ہی دے رہے ہیں اور ٹھنڈے دل کے ساتھ برداشت کر رہے ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کو یہ بھی نظر آتا ہے کہ کل کو ان کی گرفتاری یا کچھ بڑا ہو جائے اور تو کوئی دلاسا دینے والا بھی نہ ہو۔

حامد میر سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں جہانگیر ترین کچھ نہیں کر رہے۔ اُن کے ساتھ جو کر رہے ہیں عمران خان صاحب کر رہے ہیں۔
حامد میر سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں جہانگیر ترین کچھ نہیں کر رہے۔ اُن کے ساتھ جو کر رہے ہیں عمران خان صاحب کر رہے ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین اکیلے حکومت کو مشکل میں نہیں ڈال سکتے۔ لیکن جب ملک کی فضا میں کچھ اور تبدیلیاں آئیں گی، جیسے فرض کریں کہ اسٹیبلشمنٹ ناراض ہو جاتی ہے، فرض کریں اپوزیشن اتحاد مضبوط کر لیتی ہے۔ تو ایسے وقت میں پھر جہانگیر ترین کا اُس طرف وزن ڈالنا اہم ہو جائے گا۔

ان کے بقول بعض اوقات تنکے کا وزن بھی پتھر سے بھاری ہو جاتا ہے۔

سہیل وڑائچ کے بقول جہانگیر ترین ایک مناسب وقت کے انتظار میں ہوں گے۔

جہانگیر ترین کے ساتھی کون ہیں؟

حامد میر کے مطابق عمران خان کو جہانگیر ترین کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ان کے بقول اُس کی وجہ یہ ہے کہ جو ارکانِ اسمبلی جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ بھی یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنا کوئی گروپ بنا کر درمیانی راستہ نکالیں۔ کیوں کہ اِن ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کی کچھ اپنی ناراضگیاں اور مسائل ہیں۔

حامد میر نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر جہانگیر ترین کے ساتھ جو اسلم بھروانہ ہیں۔ وہ پہلے پنجاب کے وزیرِ تھے جنہیں بعد ازاں ہٹا دیا گیا تھا۔ اَب اُن کے پاس کوئی وزارت نہیں ہے، اِس لیے وہ ناراض ہیں۔

حامد میر کے مطابق اِسی طرح اجمل چیمہ پہلے سوشل ویلفیئر کے وزیرِ تھے۔ اُن سے بھی وزارت واپس لے لی گئی اور وہ بھی ناراض ہیں اور جہانگر ترین کے ساتھ جا کر کھڑے ہو گئے ہیں۔

حامد میر مزید کہتے ہیں کہ راجہ ریاض کا اپنا مسئلہ ہے۔ اُن کا فیصل آباد میں شہباز گِل سے جھگڑا ہے۔ اِسی طرح غلام بی بی بھروانہ ایم این اے ہیں، وہ اسلم بھروانہ کے ساتھ ہیں۔

حامد میر کی رائے میں یہ تمام لوگ جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنے کام نکلوانا چاہ رہے ہیں لیکن اُنہیں نہیں لگتا کہ یہ حکومت کے لیے کوئی مسائل پیدا کر سکیں گے۔

تحریکِ انصاف کا مؤقف

پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیٹر اعجاز احمد چوہدری سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین گروپ بنا کر اور عشائیہ دے کر صرف اپنے ذہن کی تسلی کر رہے ہیں اور اُس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اعجاز چوہدری نے کہا کہ اگر کوئی اِس طرح کا کام کرے تو اُس کو اِس سے ذہنی آسودگی حاصل ہو گی۔

سینیٹر اعجاز چوہدری کے خیال میں گزشتہ سال جب چینی کا اسکینڈل سامنے آیا تو ایک کمیشن بنا تھا اور اُس کمیشن نے اپنی کچھ تحقیقات پیش کی تھیں۔ جو قوم کے سامنے رکھ دی گئی تھیں جس کے بعد سات مختلف اداروں کو ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ قانون کے مطابق ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں۔

سینیٹر اعجاز چوہدری بتاتے ہیں کہ اِس وقت 17 لوگ ہیں جن پر ایک ہی قسم کے مقدمات چل رہے ہیں اور وہ کسی نام پر کچھ خاص رائے نہیں دینا چاہتے۔

حامد میر کے مطابق عمران خان کو جہانگیر ترین کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
حامد میر کے مطابق عمران خان کو جہانگیر ترین کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

اُنہوں نے کہا کہ کچھ دوست ایسے ہیں جو جہانگیر ترین کے ساتھ گئے ہیں اور ممکن ہے کہ وہ آگے بھی جائیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کا اِس کے بارے میں کوئی تعصب نہیں ہے۔

سینیٹر اعجاز چوہدری نے مزید کہا کہ ماضی میں وفاق اور صوبائی سطح پر کچھ حکومتی لوگ تحقیقات کا سامنا کرتے رہے ہیں جس طرح وہ بری الذمہ ہو کر واپس آئے ہیں۔ اِسی طرح جو لوگ اِس میں سے بری الذمہ ہو کر واپس آئیں گے، وہ پی ٹی آئی کے ساتھ رہیں گے۔

’حکومت کو جہانگیر ترین سے کوئی خطرہ نہیں‘

دوسری طرف پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ حکومت کو جہانگیر ترین سے کوئی خطرہ نہیں اور تحریک انصاف کی ٹکٹ پر جو منتخب ہوئے، وہ سب عمران خان کے پابند ہیں۔

شاہ محمود قریشی کا جہانگیر ترین کے عشائیے پر مزید کہنا تھا کہ جو پارٹی میں آزاد حیثیت سے آئے تھے انہوں نے آ کر تحریک انصاف میں سرنڈر کیا۔ ان کے بقول جہانگیر ترین کو اگر کچھ خدشات ہیں، تو عمران خان کا دروازہ کھلا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 17 شوگر ملوں کو نوٹس دیے گئے ہیں۔ اکیلے جہانگیر ترین کی شوگر ملز کو نوٹس نہیں دیے گئے اور وزیرِ اعظم عمران خان کا کسی کے لیے انتقامی کارروائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ان کے بقول جماعت کی باتیں جماعتوں میں کی جاتی ہیں۔

شاہ محمود کا کہنا تھا کہ کرپشن کا خاتمہ پی ٹی آئی کے منشور کا فلسفہ ہے۔ عمران خان کا ایک نظریہ ہے جس پر وہ قائم ہے۔ عدالتیں آزاد ہیں۔ اپنا مؤقف پیش کریں اگر جہانگیر ترین صاف ہیں تو وہ بری ہوں گے۔

واضح رہے کہ ہفتے کی صبح جہانگیر ترین اور اُن کے بیٹے علی ترین سیشن کورٹ لاہور میں پیش ہوئے۔ جہاں عدالت نے دو مقدمات میں جہانگیر ترین اور علی ترین کی ضمانت میں 22 اپریل جب کہ بینکنگ کورٹ نے 17 اپریل تک توسیع کر دی۔

جہانگیر ترین کے ہمراہ گزشتہ رات عشائیے میں شریک ہونے والے ارکانِ اسمبلی میں سے کچھ اُن کے ہمراہ عدالت بھی آئے تھے۔

یاد رہے کہ ماضی میں پاکستان کی عدالتِ عظمٰی عمران خان کو صادق و امین جب کہ جہانگیر ترین کو نااہل قرار دے چکی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments