تبدیلی کو کسی باپ کی ضرورت نہیں

وسعت اللہ خان - تجزیہ کار


وقت، سوچ اور اشیا کس غیرمحسوس انداز میں بدلتی ہیں، اس کا ادراک تب ہوتا ہے جب لمحۂ موجود ماضی میں مدغم ہو جاتا ہے۔ مثلاً تین دہائی پہلے تک مارشل لا لگانے کے لیے محض یہ بہانہ کافی ہوتا تھا کہ سیاستدان کرپٹ ہیں یا آپسی سیاسی لڑائی بھڑائی کے سبب ملک کی بنیادیں ڈول رہی ہیں یا معیشت کی حالت دگرگوں اور چور بازاری عروج پر ہے یا عوام کا ریاست کے مقاصد پر اعتماد متزلزل ہوتا جا رہا ہے یا عام آدمی اتنا مایوس ہے کہ مسلح افواج کی طرف دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ بہ امرِ مجبوری فوج کو معاملات براہِ راست اپنے ہاتھ میں لینا پڑے۔

اور یہ کہ مسلح افواج کی قیادت ضرورت سے ایک دن زائد بھی اقتدار میں نہیں رہے گی اور جیسے ہی حالات معمول پر آتے ہیں اقتدار پرامن اور شفاف انتخابی عمل کے ذریعے عوامی نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ ایوب خان سے پرویز مشرف تک یہی سکرپٹ چار بار نام بدل بدل کر استعمال ہوا۔

جنرل ایوب خان

آج بھی کم وبیش وہی وجوہات موجود ہیں جنہیں بہانہ بنا کر ملک کی سیاسی پٹڑی پر دھرے ڈبے چوہتر برس میں کئی بار ڈی ریل کیے گئے۔ مگر کیا سبب ہے کہ آج نہ کسی کو مارشل لا لگانے کا خیال آتا ہے اور نہ کسی کو خدشہ ہے کہ مستقبلِ قریب میں ایسی نوبت آ سکتی ہے۔

آپ دیکھیے کہ پہلے اور دوسرے مارشل لا کے نفاذ کے درمیان گیارہ برس کا، دوسرے اور تیسرے مارشل کے بیچ میں آٹھ برس اور تیسرے اور چوتھے مارشل لا کی آمد کے مابین بائیس برس کا وقفہ تھا۔ لیکن چوتھے مارشل لا اور آج کے درمیان بائیس برس گزر چکے ہیں۔

ان بائیس برس میں سے اگر آخری فوجی حکمران کے عسکریتی جمہوریت والے آٹھ برس منہا کر بھی دیے جائیں تب بھی دو ہزار آٹھ سے آج تک کے تیرہ برس میں مسلسل تیسری سیاسی حکومت کو سویلین روایات کے مطابق اقتدار منتقل ہوا ہے۔ ایسے مسلسل تیرہ برس پاکستان کو دو ہزار آٹھ سے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوئے۔

جنرل یحیٰ خان

اگرچہ ان تیرہ برسوں کو جمہوری اعتبار سے آئیڈیل نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ اس سے قبل تو یہ غیر آئیڈیل حالات بھی نہیں تھے۔ اگر سیاسی عمل میں تسلسل یونہی برقرار رہتا ہے تو خامیاں بھی رفتہ رفتہ کم ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ پہلے تو اس امید کے بارے میں سوچنا بھی عیاشی سی لگتی تھی۔

یقیناً اس بتدریج ذہنی تبدیلی کا کریڈٹ دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی بڑھتی طاقت اور عام آدمی تک اس میڈیم کی پہنچ کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قبل از سوشل میڈیا ادوار میں زیادہ لوگوں کو دیر تلک بے وقوف بنانا ممکن تھا۔ آج ایسا قدرے مشکل ہے۔ البتہ حقائق کی تیزرفتار دنیا میں فیک نیوز کا گند ایک بڑا چیلنج بن کے ابھرا ہے۔

البتہ انفرادی و اجتماعی رابطہ کاری کے سرعتی ذرائع تک عمومی رسائی نے یہ دن تو دکھا دیا کہ اب برما جیسے آمریت گزیدہ ملک میں بھی زیادہ لوگوں کو زیادہ عرصے تک بے وقوف بنا کر رکھنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ وہاں ان دنوں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سے باقی دنیا کے طالع آزماؤں کو یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ دنیا بہت بدل گئی ہے۔ اب اسے آسانی سے دیوالیہ جبری طریقوں سے اندھیرے کو روشنی کے بھاؤ فروخت کرنا ہر نئے دن کے ساتھ مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

پہلے فسطائیت پوشاک بدل بدل کر صدیوں راج کر جاتی تھی۔ اب چہرے بدل بدل کر آنے کے باوجود بھی فسطائیت کو چند برس سکون سے گزارنا کہیں محال ہو رہا ہے۔

عام آدمی بھلے آج بھی خود کو بے بس سمجھتا ہو مگر کل کے برعکس آج بخوبی علم ہے کہ اس کی اس بے بسی کے ذمہ دار کون لوگ اور کیا وجوہات ہیں۔ دشمن کا فی الوقت وہ بھلے کچھ نہ بگاڑ پائے مگر یہ ضرور جانتا ہے کہ دشمن کون ہے اور سازشی ڈور کا سرا کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہو رہا ہے۔

بڑی ارتقائی تبدیلی کی چھتری تلے کئی چھوٹے چھوٹے بدلاؤ بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً لگ بھگ تین عشرے پہلے تک پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں امن و امان کی ابتری کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گولی چلانا اور چار پانچ لوگوں کا مر جانا طے تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ کراؤڈ مینجمنٹ کے ڈھنگ بھی بدلتے گئے۔

اب شاید ہی کوئی جلسہ، جلوس یا دھرنا ہو جسے تتر بتر کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی طاقت کا استعمال کرنا پڑے۔ پانی کی توپ، آنسو گیس، سڑکوں کی ناکہ بندی، بیک ڈور چینلز کا استعمال، میڈیا کنٹرول، موبائل فون سروس کی معطلی جیسے طریقوں سے امن و امان کی بحالی نوے فیصد تک ممکن ہے۔ پولیس اب عوام کے ہاتھوں جس طرح پٹنے یا عارضی پسپائی پر مجبور ہو جاتی ہے، موبائل کیمرہ عام ہونے سے پہلے معاملہ اس کے برعکس تھا۔

چند برس پہلے تک کسی بھی خالی نشست پر ضمنی انتخاب میں سرکاری امیدوار کی جیت یقینی سمجھی جاتی تھی بھلے وہ نشست حزبِ اختلاف نے ہی کیوں خالی نہ کی ہو۔ غنڈوں کے ہاتھوں مخالفین کی ریلیاں تتر بتر کرنا، ہراساں کرنے کے لیے مخالف سیاسی کارکنوں کے خلاف پرچے کاٹنا، جلسہ گاہ میں پانی یا سانپ چھوڑ دینا، پولنگ سٹیشنوں پر ہاتھاپائی، ڈنڈے بازی، فائرنگ وغیرہ ضمنی انتخابی کلچر کا لازمہ سمجھ کر برداشت کر لیا جاتا تھا۔ الیکشن کمیشن کسی امیدوار کا شکایتی نوٹس ضرور لے لیتا تھا۔ مگر فیصلہ تب تک لٹکا رہتا جب تک خود اسمبلی کی مدت لبِ دم آ جاتی۔

البتہ سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں ضمنی انتخاب کی قسط اول اور دوم میں جو کچھ ہوا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی، سماجی، انتخابی و انتظامی حالات گزرے برسوں کی نسبت کس قدر بدل گئے ہیں۔ پہلے جو ضمنی انتخابی مشق اہلِ اقتدار کے لیے لذیذ کھیر ہوا کرتی تھی اب وہی ٹیڑھی کھیر ہو گئی ہے۔

حالات اگرچہ مثالی نہیں۔ بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہے گی مگر کل سے آج تک جو سفر طے ہوا اسے ہلکا نہ لیجئے۔ ورنہ وقت آپ کو ہلکان کرتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).