ہائبرڈ سسٹم سے اداروں کی ساکھ خراب ہوتی ہے


نومبر 2016 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مسند کمان سنبھالنے کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک اصطلاح تواتر سے سنائی دینے لگی جسے ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کا نام دیا گیا۔ پہلے نیشنل ایکشن پلان کے تحت شروع کیے گئے آپریشن ضرب عضب کا نام تبدیل کر کے اس کی جگہ آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا اور پھر کچھ ہی دنوں بعد اس نئے ڈاکٹرائن کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ اس ڈاکٹرائن کی غیر سرکاری تشریح کے مطابق اسے سویلین اور ملٹری تعلقات، پاکستان کو سفارتی تنہائی سے نکال کر عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص بہتر کرنا۔ بالخصوص انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ سفارتی مراسم جنرل باجوہ کے ویژن کے مطابق مزید کرنا بتایا گیا۔

چند ماہ پہلے موجودہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے ایک پریس بریفنگ میں استدعا کی کہ فوج کو سیاست میں نہ ملوث کیا جائے اور اپنا موقف دہرایا کہ فوج حکومت کا ماتحت ادارہ ہے جو حکومت کی معاونت کرتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت اب کوئی راز نہیں رہا۔ سیاست میں مداخلت کی باتیں پہلے بند کمروں میں ہوتی تھیں مگر گزشتہ الیکشن کے بعد ایک جملہ زبان زدعام ہے ”فوج عمران خان کو لائی ہے“۔ چوک چوراہوں میں ہوں یا کھیتوں کھلیانوں میں، رکشے ٹیکسی میں ہوں یا بسوں ویگنوں میں، چائے ڈھابوں پر ہوں یا ریستورانوں میں، حامی ہوں یا مخالف، اتفاق رائے سے سب ہی نہ صرف اس حکومت کو کٹھ پتلی تسلیم کرتے ہیں بلکہ ببانگ دہل یہ جملہ کہتے ہیں ”فوج عمران خان کو لائی ہے“۔ مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ اس حقیقت کے اظہار کے لئے حزب اختلاف ’سلیکٹرز‘ یا ’نکے کا ابا‘ جیسے استعارے استعمال کرتے تھے لیکن حکومتی اراکین ٹی وی ٹاک شوز میں تسلیم باللسان ہیں کہ فوج ہی عمران خان کو لائی ہے۔

وزیراعلی پنجاب کے مشیر عبدالحئی دستی نے میڈیا میں اقرار کیا ”ہماری فوج بیچاری قربانی دے رہی ہے، وہ اس ملک کو بچانے کے لئے عمران خان کو لائے ہیں، ان کی نیت ٹھیک تھی لیکن وہ (فوج) بھی اب مایوس ہو گئے ہیں“۔ ڈی جی آئی ایس پی آر بھلے کہیں کہ ہمیں سیاست میں ملوث نہ کریں لیکن حکومتی شخصیت کی جانب سے یہ بیان فوج کی مداخلت کا علانیہ اعتراف ہے۔

ایکسٹینشن کے بعد جنرل باجوہ کی دوسری مدت ملازمت جاری ہے۔ آرمی چیف بننے سے پہلے جنرل باجوہ کے بارے میں عمومی تاثر تھا کہ وہ ایک سخت گیر جنرل کی بجائے جمہوریت پسند شخص ہیں لیکن ان کے دور میں میڈیا اور جمہوریت بدترین سنسرشپ کی زد میں رہے ہیں۔ مثبت رپورٹنگ کے نام پر مخالفین کی آواز دبانے کے لئے اس دور میں جبر اور فسطائیت کے وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جو صرف دور آمریت یا مطلق العنان حکمرانوں کا طریق ہوتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی اور احتساب عدالت کے جج ارشد ملک (مرحوم ) کا ویڈیو اعتراف بھی موجود ہے کہ من پسند عدالتی فیصلوں کے لئے ایجنسیوں کے اہلکار مداخلت کرتے ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک مضبوط فوج ملکی سلامتی کی ضامن ہوتی ہے اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے اعتبار سے ہماری فوج بلاشبہ دنیا کی ایک بہترین فوج ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بھارتی طیاروں کی تباہی ہمارے جوانوں کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے مگر آمرانہ ذہنیت کے چند جاہ پرست افسران کی وجہ سے پورے ادارے کی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کے بیان کردہ مقاصد بہت اچھے تھے لیکن گزشتہ حکومت میں معیشت پر تشویش جیسے بیانات اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت قرار پائے۔ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 میں تبدیلی کے بعد کشمیری عوام پر بھارتی تسلط کے باوجود ہماری خاموشی نے عوام میں بے چینی پیدا کی۔ گزشتہ انتخابات کو متحدہ اپوزیشن نے ’دھاندلی زدہ الیکشنز کی ماں‘ قرار دیا۔ جس طرح سے آر ٹی ایس بند کروا کر نتائج تیار کیے گئے اس نے عوام کے ذہنوں میں شکوک پیدا کیے۔ چیدہ چیدہ حلقوں میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے دوبارہ گنتی کے عمل کو روک کر عوام کے ذہنوں میں اس یقین کو پختہ کر دیا کہ اس حکومت کو فوج ہی لائی ہے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ عوام میں سیاسی شعور بہت بڑھ چکا ہے۔ مقتدرہ قوتوں سے حلف کی پاسداری اور آئین میں متعین کردار دائرہ کار میں رہنے کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جبری گمشدگیوں کے باوجود موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت پر تنقید بہت بڑھ چکی ہے۔ منتخب وزیراعظم کے خلاف مقدمہ ہو تو کہا جاتا ہے بھلے آسمان ٹوٹ پڑے ہم فیصلہ دیں گے لیکن اگر عاصم سلیم باجوہ کی خفیہ جائیدادیں سامنے آئیں تو احتساب کے اداروں پر ہو کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔

انصاف اور احتساب کا یہ دہرا معیار پاکستان کے نظام کو کمزور کر رہا ہے۔ اسی دھرے معیار کی وجہ سے اداروں کا احترام کم ہو رہا ہے۔ جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان لکیر لگ چکی ہے۔ جو سیاسی جماعت بھی اسٹیبلشمنٹ کے اشارہ ابرو پر اپنی پٹڑی بدلتی ہے وہ عوامی نظروں میں اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ اب شمالی علاقہ جات میں سیر کے لئے لے جائیں یا غدار ٹھہرائیں، جیل میں ڈالیں یا جرمانے کریں لیکن جبر سے عزت حاصل نہیں کی جا سکتی۔

اسٹیبلشمنٹ کو جلد یا بدیر یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ وہ آئین میں متعین کردہ اپنے کردار پر اکتفا کرتے ہوئے سیاسی کھیل سے دور رہیں۔ اس سچائی سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ کہ مقتدر قوتوں کو سیاسی نظام کی مضبوطی گوارا نہیں مگر اقتدار کا ہما کس کے سر پہ بٹھانا ہے یہ صرف عوام کا صوابدیدی اختیار ہے۔ جمہوری نظام کی مضبوطی میں ہی ہماری بقا ہے اور اسی راستے پر چلتے ہوئے پاکستان ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے وگرنہ اس یرغمال نظام کے تحت عمران خان کی جگہ کوئی اور بھی آیا تو یہی کہا جائے گا کہ ’اسے بھی فوج لائی ہے‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments