کرن وقار: ریاستی ترجیحات کا ایک اور شکار



قتل صرف وہی نہیں ہوتاجسے آنکھوں سے دیکھ کر اور کانوں سے سن کر رپورٹ کیا جائے۔

دنیا بھر کے پینل کوڈ صرف اسی فعل کو قتل گردانتے ہیں جو ایک فرد دوسرے فرد پر یا چند افراد دوسرے چند افراد پر حملہ آور ہو کر سرانجام دیتے ہیں اور جس کے نتیجے میں کسی ایک یا ایک سے زیادہ جانوں کا اتلاف ہوتا ہے۔

قتل کی رائج تعبیرات جتنی محدود ہیں اتنی ہی سطحی بھی ہیں۔ دنیا بھر کے قانون دان جانتے ہیں کہ قتل صرف اس فعل تک محدود نہیں ہوتا جس کا ادراک ہم اپنے حواس کے ذریعے کرتے ہیں۔ اور جس کے اندر کسی فرد یا افراد کو نامزد کرنے کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ اس کے برعکس انسانی قتل کے مضمون کو سو رنگ سے باندھا جا سکتا ہے۔

ریاستی مفادات کے تحفظ پر مامور قانون دان خوب جانتے ہیں کہ دنیا میں بے شمار انسانی جانیں ریاستوں پر قابض طبقات کے مفادات، رجحانات اور دانستہ طور پر اپنائی گئی پالیسیوں کے نتیجے میں بھی تلف کر دی جاتی ہیں۔ یہ ظالم اور کم نظر حکمران طبقات ریاست کے اداروں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو نہایت دانستہ طور پر موت کی جانب دھکیلتے ہیں۔ ریاست کا یہ عمل ہر تعریف کی رو سے قتل عمد کی ذیل میں آ سکتا ہے لیکن ریاستی مفادات کے پاس دار قانون دان اس باب میں خاموش رہتے ہیں۔

دنیا کے کسی بھی قانونی ضابطے میں بھوک، بیماری، حادثات اور وسائل سے محرومی کے باعث ہونے والی اموات کو قتل عمد تو کیا قتل خطا بھی نہیں ٹھہرایا جاتا کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں اس کے ذمہ داروں کا تعین کرنا پڑے گا اور اس ریاست کو ہتھکڑیاں پہنانا پڑیں گی جو اپنے مفادات کا تحفظ کرنے والوں کو نوازنا تو خوب جانتی ہے لیکن اپنے شہریوں پر موت مسلط کرنے میں اسے کبھی عار نہیں ہوتا۔

اب ہم اپنے ملک کی طرف آتے ہیں۔ ہماری ازلی بدنصیبی یہ ہے کہ ہم ایک جنگجو ریاست میں پیدا ہوئے اور ہمارا لمحہ لمحہ اس ریاست کی جنگجو فطرت کو خراج ادا کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ ہم چاہیں نہ چاہیں ریاست ہم سے اپنی جنگ بازی کا خراج وصول کر ہی لیتی ہے، کبھی بہ حیلہ مذہب اور کبھی بنام وطن۔ تاہم یہ لین دین یک طرفہ نہیں ہوتا۔ اس خراج کے بدلے میں ریاست بھی اپنے شہریوں کو بہت کچھ دیتی ہے۔

یہ ریاست کی جنگ جوئی کا ہی فیضان ہے کہ طبی سہولیات نہ ہونے کے باعث بہت بڑی تعداد میں سانس لیتے ننھے وجود اپنی ماؤں کی کوکھ میں ہی مرجاتے ہیں یا ہر ایک ہزار میں سے 68 بچے اپنی عمر کے پانچ سال پورا کرنے سے پہلے موت کی گود میں چھپ جاتے ہیں۔ اور پھر ان ماؤں کا شمار کون کرے گا جو کسی زندگی کو جنم دیتے دیتے محض اس وجہ سے جان سے گزر جاتی ہیں کہ ریاست نے جدید طبی سہولیات کا ایسا ڈھانچہ نہیں بنایا جو تمام شہریوں کی صحت کا بلا امتیاز تحفظ کر سکے؟

ہماری ریاست کی ترجیحات کا ایک فطری نتیجہ ان اڑھائی کروڑ بچوں کی صورت میں بھی ہمارے سامنے ہے جن کے لیے کوئی سکول نہیں اور وہ از حد ناقص تعلیم بھی نہیں جو دوسرے ”خوش نصیب“ بچوں کو جیسے تیسے مل ہی جاتی ہے۔ ہمارے سکول کے محروم بچوں کی یہ فوج پانچ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے گلیوں کا رزق بن جاتی ہے۔ کسی نے شمار کیا کہ ان میں سے کتنے بچے کوڑے کے ڈھیر پر سے رزق چننے پر مامور کر دیے جاتے ہیں؟

کسی نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ان میں سے کتنے آئن سٹائن، کتنے عبدالسلام اور کتنی ملالاؤں کو بھیک مانگنے، جیب تراشنے، چوریاں کرنے اور منشیات بیچنے پر لگا دیا جاتا ہے؟ کسی نے جاننے کی کوشش کی کہ ان میں سے کتنے بچوں کو جبری مشقت کا ایندھن بننے پر مجبور کر دیا جاتا ہے؟ اور کتنے بچوں کی معصومیت کو جیل کی تاریک کوٹھڑیوں میں خاکستر کر دیا جاتا ہے؟

جب دنیا کو کورونا کی نحوست نے اپنی لپیٹ میں لیا تو ہر ترقی یافتہ ملک نے اپنے ٹیکنالوجی کے ڈھانچے کو دوسرے فالتو کاموں سے ہٹا کر اس بیماری کا علاج دریافت کرنے پر لگا دیا لیکن ہمارے ہاں کیا ہوا کہ جب کورونا ہمارے شہروں میں اپنے منحوس سائے پھیلا رہا تھا تو ہمارے حکمران میزائلوں کے تجربات کرنے میں مصروف تھے۔ وہ اس کے سوا اور کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ جنگ بازی کے شوقین ملکوں میں ٹیکنالوجی کا رخ بھی ترجیحات کے مطابق طے کر دیا جاتا ہے۔

رہی عوام کی بہبود کی بات تو آپ گزشتہ سات دہائیوں میں شائع ہونے والے کسی بھی معاشی سروے کو ملاحظہ کر لیجیے ، معلوم ہو جائے گا کہ منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے شہریوں کو موت، محرومی، تعصب اور جہالت کا دلدل میں کیسے دھکیلا گیا ہے۔ کوئی اس عمل کو کوئی بھی نام دے میں اسے جسمانی، روحانی، اور ذہنی قتل عام کا ہی نام دوں گا۔

ہم قدرتی آفات، حادثات اور دوسری بیماریوں سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر صرف کورونا سے ہونے والی اموات کا تجزیہ کریں تو ہم جان لیں گے کہ ان میں سے بہت سی اموات کو روکا جا سکتا تھا۔ اگر مریض کو بروقت اعلیٰ ترین طبی سہولیات فراہم کی جا سکتیں، اگر جہالت کو اس درجے پر نہ پہنچا دیا جاتا کہ معاشرہ کورونا کو Stigmatize کر دے اور اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ ہسپتالوں کا رخ کرنے کی بجائے اپنے گھروں میں ہی چپ چاپ موت کا انتخاب کرنے کو ترجیح دینے پر مائل ہو جائیں۔

آخری تجزیے میں ان کی موت بھی اسی طرح قتل قرار پا سکتی ہے جیسی اس تصویر میں موجود ایک خوبصورت اور زندگی کی تابندگی سے معمور ماں کی موت کو سوائے قتل کے اور کچھ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

میری معلومات کے مطابق اس خاتون کا نام کرن وقار ہے، اور یہ خاتون تیزی کے ساتھ ادبی حلقوں میں اپنی پہچان بنا رہی تھی۔ یہ خاتون اوکاڑہ میں تھی جب اس کی والدہ اور چھوٹے بھائی پر کورونا نے حملہ کیا اور انہیں ڈی ایچ کیو ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ کہ اگلے ہی روز خود کرن بھی کورونا پازیٹو ہو گئی اور حالت بگڑنے پر اسے بھی ماں اور بھائی کے ساتھ اسی ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔

مجھ تک پہنچنے والی معلومات کے مطابق لاکھوں کی آبادی کے حامل اس شہر میں کورونا سے بچاؤ کے لیے کوئی طبی سہولت موجود نہیں تھی۔ یہاں تک کہ سانس اکھڑنے کی صورت میں آکسیجن کا بندوبست بھی نہیں کیا گیا تھا۔ خود کرن وقار کی 31 مارچ کو کی جانے والی آخری ٹویٹ اس صورتحال کی یوں عکاسی کرتی ہے:

”میری اور میرے چھوٹے بھائی کی کورونا کی وجہ سے حالت بہت تشویش ناک ہے۔ اوکاڑہ ڈی ایچ کیو میں ہم دونوں داخل ہیں لیکن یہاں آکسیجن میسر ہے نہ کیئر۔ مجھے کوئی بتا دے کہ کورونا کے علاج کے لیے کس ہسپتال میں جانا بہتر ہے۔“

اور پھر اس سے پہلے کہ کوئی اسے بتاتا کہ کون سا ایسا ہسپتال ہے جہاں اسے آکسیجن بھی میسر آ سکتی ہے اور کیئر بھی، اس کی نگاہوں کے سامنے پہلے اس کی والدہ اور پھر چھوٹا بھائی ریاستی ترجیحات کا خراج ادا کرتے کرتے جان سے گزر گئے۔

شنید ہے کہ حالت خراب ہونے پر کرن وقار کو لاہور منتقل کیا گیا لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی تھی۔ وہ بہادر خاتون جو ایک ماں تھی اور ایک بدنصیب اور بے حس قوم کا اثاثہ تھی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اپنی ماں اور بھائی کو پکارتی عدم کے دھندلکوں میں کھو گئی۔

ایک کرن وقار ہی کیا، جانے کورونا کے ہاتھوں جان سے گزر جانے والے کتنے لوگ ہوں گے جنہیں اگر مناسب طبی سہولیات مل جاتیں تو ان کی زندگی کو بچایا جا سکتا تھا۔ اور پھر کورونا کے باعث زندگی کی رعنائیوں سے منہ موڑ کر جانے والوں پر ہی کیا موقوف، کون جاننے کی زحمت کرے گا کہ ہر روز اور ہر کہیں ہونے والی اموات میں سے کتنی اموات فطری ہیں اور کتنی غیر فطری؟ اس کے لیے پہلے تو ہمیں فطری اور غیر فطری موت کی تعریف متعین کرنا ہو گی۔ میری دانست میں صحت اور علاج کی تمام تر سہولیات سے مستفید ہونے کے بعد فطری عوامل کے نتیجے میں ہونے والی موت کو ہی فطری قرار دیا جا سکتا ہے اور ہر وہ موت جس میں زندگی کو بچایا جا سکتا ہو مگر بہ وجوہ بچایا نہ جا سکے، غیر فطری موت ہے۔ دوسرے الفاظ میں قتل ہے چاہے کوئی قتل کی کیسی ہی تعریف کیوں نہ متعین کرے۔

اس بدنصیب ملک میں جسے حکمران طبقات نے اپنی سفاکانہ ترجیحات کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے ہر امکان سے محروم کر دیا ہے قدرتی آفات ہوں یا انسان کی پیدا کردہ آفات ان کی بھینٹ صرف عام شہری ہی چڑھتے ہیں، ایسے شہری جنہیں ریاست کسی بھی قسم کا تحفظ فراہم کرنے سے معذور ہے۔ ریاست کی ترجیحات کی بھینٹ چڑھنے والے یہ شہری مرتے نہیں قتل کیے جاتے ہیں اسی طرح جیسے کرن وقار چپ چاپ اس طرح قتل ہو گئی کہ کسی کے دامن پر خون کا چھینٹا تک نہیں آنے پایا۔

کرن وقار، ہم سب تمہاری غیر فطری موت کے ذمہ دار ہیں اور ان تمام اموات کے بھی جن کے عقب میں کہیں نہ کہیں شوق جنگ بازی کار فرما ہے۔ خدا تمہاری معصوم بچی کی حفاظت کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments