زہرا تنویر کا افسانوی مجموعہ: من کی آواز


زہرا تنویر کے ’من کی آواز‘ میرے من تک پہنچ گئی گو کہ یہ آواز فون پر کبھی واٹس ایپ کے وائس نوٹس کی صورت مجھ تک بڑے سبھاؤ اور پیار سے پہنچتی رہی ہے۔

زہرا تنویر سوشل میڈیا کی پہلی لڑکی ہے جس کو سیل فون کا نمبر دیا تھا، لیکن ہم دونوں نے کبھی پہروں گفتگو نہ کی، نہ ہی کبھی چغلیاں یا غیبت کی، ہم من کی کہانیاں کہتے رہے، رشید جہاں، عصمت چغتائی، خالدہ حسین، رخسانہ احمد۔ خدیجہ مستور، کیتھرین مینسفیلڈ، جین آسٹن کی کہانیاں ایک دوسرے کو سناتے رہے، سلویا اور فہمیدہ کی جرأت مندانہ اظہاریے پر مبنی نظموں، اور پروین شاکر کی نرم مزاجی کو موضوع بناتے ہوئے ہم حالیہ دور کی نرم مزاج اور تند مزاج ادیباؤں اور شاعرات کو پڑھتے رہے، میرا مزاج کبھی یکساں نہیں رہتا، لیکن پھر بھی زہرا میرے من کی آواز سن لیتی ہے، اور اس پر دلچسپ تبصرہ بھی کر دیتی ہے، اور میں اس کی مختصر گفتگو اور کہانی کے ذریعے اس کے من میں الجھتی، سلجھتی، روپہلی، نمکین و رنگین آواز سن لیتی ہوں۔

خلوص تعلق میں پہلی شرط ہے اور یہی ہماری طویل اور تاحیات دوستی کا سبب رہے گا۔

زہرا نے بہت چالاکی سے کچھ کہانیاں من میں سینت کر رکھی ہوئی تھیں، اور ان کہانیوں کو چپکے چپکے ڈائری میں لکھ رہی تھی، ایک بار مجھ سے کہا، ہم دونوں بھی اپنی کتاب شائع کرواتے ہیں، اس تجویز کا میں نے بہت ہی بے تکا اور بے ادب سا جواب دیا۔

زہرا چپ رہی، کیونکہ میری مزاج آشنا ہے اس لیے دوبارہ نہ کہا۔
چند دن پہلے میسج آیا۔ ”من کی آواز“ شائع ہو گئی ہے۔

میں نے فوراً کال کی اور کہا مبارک ہو تم بھی اہل کتاب ہو گئی ہو، کھل کھلا کر ہنسی، اور بولی صاحب کتاب۔ میں نے شرارت سے کہا اہل کتاب زیادہ بہتر ہے تمہارے لئے۔ پھر ہم دونوں ہی اس خوشی کو محسوس کرنے لگے، گو کہ اس خوشی کو پانے کے لئے زہرا نے بہت پاپڑ بیلے۔

کتاب ہاتھ میں آتے ہی شتابی سے پڑھ ڈالی، عورت، جسے مرد نے ہمیشہ سربستہ راز تصور کیا، مرد تخلیق کاروں کا موضوع رہی، لیکن عورت کی کیفیات کی مکمل عکاسی ایک عورت ہی کر سکتی ہے، عورت کے احساسات و جذبات کو ایک عورت کو ہی بیان کر سکتی ہے، انداز چاہے تند ہو، سبک ہو، یا نرم رو ہو۔

زہرا کا دھیما نرم رو انداز اس کی کہانیوں میں بھی نظر آتا ہے۔

زہرا زندگی کی حقیقتوں اور مسائل کو گہرائی سے جانچتی اور پرکھتی ہے، گھریلو و ازدواجی مسائل کو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق سمجھنا اور لکھنا زہرا کا خاصہ ہے جو اس کے بلاگز میں بھی نظر آتا ہے اور ’من کی آواز‘ کی کہانیوں میں بھی۔

بتول آپا ”اور“ سونی کلائیاں ”دو مختلف ازدواجی مسائل پر لکھے گئے افسانے ہیں۔ زہرا نے کہانی کی بنت میں عورت کے احساسات کو بہ خوبی بیان کیا ہے۔ دونوں کہانیوں کا انجام یاسیت زدہ ہونے کے بجائے عورت کی مرضی پر کیا گیا ہے۔

دور جدید کی عورت زندگی کی کہانی کا انجام بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بے اثر دوائی ایک جاندار مختصر کہانی ہے، ہم بے اثر ادویات کے زیر اثر ہیں، اور اسی اثر کے نتیجے میں ”مقتل“ اور ”بھٹکے ہوئے قافلے“ جیسی کہانیاں وجود میں آتی ہیں۔

’من کی آواز‘ میں شامل مختصر کہانیاں پر تأثر اور بھرپور ہیں، بیان کی سادگی کے ساتھ خوابیدہ بے حسی کو جگاتی یہ کہانیاں اردو ادب میں بہترین اضافہ ہیں۔

نیلی آنکھوں والی گڑیا اور قبر کی پہلی رات
خصوصی انسانوں کی کہانیاں ہیں۔

خصوصی انسانوں اور ان کے مسائل پر لکھنا اہل قلم و اہل دل کا فرض ہے اور زہرا نے یہ فرض بہ خوبی نبھایا ہے۔

قبر کی پہلی رات کی اختتامی سطور میں گہرا تأثر پنہاں ہے۔

” قبر کی روشنی تاریکی میں بدلنے لگی، یک دم آوازیں گونجنے لگیں، سوال بار بار دہرائے گئے، آخر کار سوال کرنے والے تھک ہار کر ناکام چلے گئے اور وہ اپنے دوسرے جنم کی پہلی جیت پر مسکرانے لگا“

زہرا سے مستقبل کی امید وابستہ ہے، زہرا کی مزید کتابیں بھی ہمارے ہاتھوں میں آئیں گی اور ہم اردو افسانوں اور کہانیوں کی چاشنی سے لطف اندوز ہوں گے۔

کتاب منگوانے کے لئے رابطہ۔
0321- 4899160


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments