و من ترکی نمی دانم یوکرائنی ہم سفر، روخسے لانا (حورم سلطان) اور ایڈمنٹن


کافی میں شکر ڈالنے کے لئے منا سا ساشے کھولا تو اس میں معطر خنک ٹشو نکلا۔ میں اپنی یوکرائنی شریک سفر سے باتیں کرنے میں اتنا مگن تھی کہ مہکتے بھیگے ٹشو کے ساشے کو شکر سمجھ بیٹھی۔ بھینی بھینی لیموں کی خوشبو بچپن کی سہانی وادیوں میں لے گئی، جب ایک چار سالہ بچی نے حیدرآباد کی ایک تنگ سی گلی کے ایک وسیع گھر کی بہت وسیع چھت پر گرمیوں کی ایک ٹھنڈی خوش گوار رات، اپنے بہت زیادہ سفر کرنے والے پھوپھا کے ایک فضائی سفر کی نشانی ایسا ہی ایک ساشے کھولا تھا۔ افسوس تھا تو صرف اتنا کہ ایک دفعہ کھلنے کے کچھ عرصے بعد ٹشو سوکھ گیا تھا اور خوشبو آہستہ آہستہ اڑ گئی تھی مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ خوشبو بھی ذہن کی ہارڈ ڈسک میں کہیں محفوظ ہو گئی تھی۔

کل صبح ہیملٹن ایئرپورٹ سے اترنے کے بعد سے چھوٹی بہن حمیرا کے ساتھ بھرپور سولہ گھنٹے گزار کر میں اتنا تھک چکی تھی کہ ٹورنٹو سے یوکرائن کے شہر خیو کی فلائٹ میں جہاز کے ٹیک آف سے پہلے ہی تینوں سیٹیں خالی دیکھ کر ٹانگیں لمبی کر کے نیند کی وادی میں چلی گئی۔ پہلے ایئر ہوسٹس نے بیلٹ باندھنے کے لئے اٹھایا، پھر میری ہم سفر نے جو بہت دیر سے آن بورڈ ہوئی، اپنی سیٹ استعمال کرنا چاہی۔ میرے سمٹنے پر اس کا کہنا تھا کہ ہم دونوں شیئر کر سکتے ہیں۔

یعنی اس کا بھی سونے کا موڈ تھا۔ پھر کیا تھا جانے کیسے ہم نے اپنے اپنے کمبل کھول کر ان تین تنگ سیٹوں کو بیڈ بنا لیا۔ وہ پتہ نہیں کب جاگی اور کب میں اپنی سیٹ پر سمٹ گئی۔ اسے کھانے کے لئے اٹھانا چاہا تو صرف یہ پوچھ کر کہ اس میں گوشت ہے؟ اس کے ہاں کہنے پر پانی پی کر سو گئی۔ رمضان کا مہینہ تھا مگر میرا سفر کی رخصت سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ تھا۔ ویسے میں رات بورڈنگ سے پہلے بھانجی کی بنائی ہوئی مصالحہ دار چکن بریانی ایئرپورٹ پر ہی کھا چکی تھی، اس لئے ایئر لائن کے بدمزہ مینیو میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔

آنکھ کھلی کھڑکی سے باہر جھانکا تو تیز چبھتی ہوئی دھوپ نکلی ہوئی تھی اور سامنے لگے ٹی وی اسکرین کے نقشے کے مطابق جہاز سویڈن کے مرکز حکومت اسٹاک ہوم پر پرواز کر رہا تھا لیکن نیچے زمین گہرے بادلوں میں چھپی ہوئی تھی۔ یہ بھی خوب تھا ہم تیز دھوپ سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور اسٹاک ہوم کے شہری گہری گھٹا سے۔ ہماری اگلی منزل خیو شہر کوئی دو گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔ یہی وہ شہر تھا جہاں انیسویں صدی میں روس کے خلاف جہاد کی قیادت کرنے والے کاکیشیا کے امام شامل نے روس کی نگرانی میں جلاوطنی میں اپنے آخری سال گزارے۔ بعد ازاں انہیں حج کی اجازت ملی تو استنبول کے راستے مکہ پہنچے اور وہاں سے مدینہ۔ 1871 میں مدینے میں ہی انتقال ہوا۔

صبح 27 سالہ آئرین سے بات چیت شروع ہوئی تو اس نے اگلے ایک گھنٹے میں مجھے یوکرائن کی تاریخ، سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کا کریش کورس کروا دیا۔ تاریخ اور سیاست کو پڑھنا اور بات ہوتی ہے اور کسی ایسے فرد کے ذریعے اسے جاننا جس نے اسے خود یا اپنے ماں باپ دادا دادی کے ذریعے اسے بھگتا ہوا ہو ، ایک بالکل مختلف تجربہ ہوتا ہے۔ آئرین خیو سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پر ایک مضافاتی قصبے میں پلی بڑھی اور اب کینیڈا سے فنانس اور بزنس میں ماسٹرز کرنے کے بعد ٹورنٹو میں ہی اکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کر رہی تھی اور اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ایک بیس مینٹ میں رہ رہی تھی۔

اس کا کہنا تھا کہ یوکرائن تاریخ میں بہت کم آزاد رہا ہے۔ بات چیت 1930 کی دہائی کے قحط سے شروع ہوئی جب یوکرائنی پناہ گزین بڑی تعداد میں کینیڈا منتقل ہوئے۔ آئرین کا کہنا تھا وہ قحط نہیں تھا جینو سائیڈ یعنی نسل کشی تھی۔ روس کی کمیونسٹ حکومت نے یوکرائن کے کسانوں اور زمینداروں سے زمین چھین کر اسے کمیونل فارمز میں بدل دیا تھا۔ زمین کے اصل مالکوں کو کمیونل فارمز میں سرکاری ملازم کے طور پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ان کے انکار پر ان سے ہر چیز یہاں تک کے ذاتی استعمال کی غذا کا ذخیرہ اور ان کے کپڑے تک چھین لئے گئے۔ یہ ایک مصنوعی قحط تھا جو اتنا شدید تھا کہ لوگ کتے بلیاں یہاں تک کہ اپنے بچے کھانے پر مجبور ہو گئے۔ آئرین کا کہنا تھا کہ اس کے دادا دادی اور نانا نانی اس قحط کے زندہ بچ جانے والوں میں سے تھے۔ اس کے بڑوں نے اسے بتایا کہ قحط کے دوران انہوں نے جنگل میں جا کر جنگلی غذا یہاں تک کہ پائن کے درخت کی کون پر گزارا کیا۔

آئرین کا کہنا تھا کہ اس کے دادا کمیونزم نامی معاشی نظام کے پیدا کردہ مصنوعی قحط کے نتیجے میں آدم خوری کے بھی چشم دید گواہ تھے۔ غذا کی تلاش کے ایک سفر میں اس کے دادا نے ایک مکان میں پناہ لی جہاں کے کچن میں انہوں نے ایک بڑے برتن میں انسانی اعضاء کو ابلتے ہوئے دیکھا۔ آئرین کا کہنا تھا کہ اس قحط کے نتیجے میں ملینز کی تعداد میں یوکرائنی باشندے مارے گئے۔

آئرین یوکرائن کے عثمانوی سلطنت کا حصہ ہونے کے بارے میں کم جانتی تھی لیکن اس نے بتایا کہ اس کے اسکول کے کورس میں ایک ایسی عثمانوی ملکہ کا تذکرہ موجود تھا جس کا تعلق یوکرائن سے تھا۔ یوکرینی عوام اس تاریخی حقیقت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ تاریخ کی اس دور پر ایک ٹی وی شو بھی بنا ہے۔ یہ سلیمان کی چہیتی بیگم روسے لانا یا آئرین کے مطابق روخسے لانا کا تذکرہ تھا جو پاکستان میں بھی ’میرا سلطان‘ نامی ترک سیریل میں حورم سلطان نام  سے کردار کے بعد بہت مقبول ہو گئی ہیں۔ گو جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے ان خاتون کا تعلق کریمیا سے تھا جو اب یوکرین کے نہیں روس کے قبضے تلے ہے۔

میں نے ان خاتون کا تذکرہ سن 2002 میں ہیرالڈ لیمب کی کتاب سلیمان عالی شان میں پڑھا اور بہت تفصیل سے پڑھا۔ مغلیہ سلطنت کے اورنگزیب کی طرح سلطان سلیمان کو بھی کوئی قابل وارث نہیں ملا،  بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس نے اپنے ہاتھوں اپنا وارث مار ڈالا۔ تاریخ کے مطابق سلیمان کے ولی عہد مصطفیٰ کی گردن کو خود سلطان کے حکم پر اس کے سامنے تیز مانجھے سے جسے غالباً تانت کا دھاگہ کہا جاتا ہے، اس کے تن سے جدا کر دیا گیا تھا۔

پتہ نہیں اس امر میں کتنی صداقت ہے لیکن، ہیرالڈ لیمب کے مطابق مصطفیٰ کے قتل پر سلطان کو راضی کرنے والی اس کی سوتیلی ماں روخسے لانا تھی جس نے اپنے داماد بہرام کے ساتھ مل کر سلطان کو یقین دلایا کہ مصطفیٰ فوج کے ذریعے سلطان سے بغاوت کر کہ تخت پر قبضہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور پیرانہ سال سلطان اقتدار چھین جانے کے ڈر سے اولاد کشی کے قبیح فعل پر راضی ہو گیا اور ایسا کر کہ سلطنت عثمانیہ کو ایک قابل وارث سے محروم کر گیا۔

عام طور سے سلیمان کا دور سلطنت عثمانیہ کا عروج سمجھا جاتا ہے۔ میرے نزدیک یہ عروج نہیں بلکہ سلطنت کے زوال کا آغاز تھا۔ اس کے ایک فیصلے سے سلطنت کے مستقبل پر دور رس منفی اثرات مرتب ہوئے بلکہ زوال کی مہر ثبت ہو گئی۔ بعد ازاں ایمی نونو کے قریب کسی جگہ بہرام جو سلطان کا وزیر بھی رہا کی بنوائی ہوئی مسجد میں ایک عصر کی نماز بھی پڑھنے کا موقع ملا۔ مگر اس کا ذکر آگے۔

خیر ہم بات کر رہے تھے یوکرینین ہم سفر کی۔ آئرین کا کہنا تھا کہ یوکرائن سے کینیڈا بڑے پیمانے پر ہجرت انیسویں صدی میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ اس کی یہ بات صحیح ہے کیونکہ میری اپنے شہر ایڈمنٹن کی یوکرینین کمیونٹی کا شمار شہر کی قدیم ترین کمیونٹیز میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کے 1938 میں جب شام اور لبنان سے آئے ہوئے کچھ امیگرنٹس نے ایڈمنٹن میں کینیڈا کی پہلی مسجد کی تعمیر کے لئے فنڈ جمع کیا تو مسجد کے ڈیزائن کے لئے انہیں ایک یوکرائنی آرکیٹکٹ کی خدمات حاصل کرنا پڑیں جس نے اس سے قبل کوئی مسجد نہیں دیکھی تھی اور یوں مسجد الرشید کی طرز تعمیر ایک آرتھو ڈوکس چرچ جیسی ہے۔ 1938 کی زیر تعمیر یہ مسجد اب فورٹ ایڈمنٹن پارک نامی اوپن ایئر میوزیم میں منتقل کر دی گی ہے۔

اس سوال پر کہ یوکرائن میں مسلمان موجود ہیں ، اس کا کہنا تھا کہ کریمیا کے تاتار باشندے مسلمان ہی ہیں، جنہیں کمیونسٹ روس نے جبری سائبیریا ہجرت پر مجبور کیا اور یوں وہاں بھی ملینز کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔ کریمیا بھی سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، روخسے لانا کا تعلق دراصل کریمیا ہی سے تھا اور وہ اسی جنگ میں ترک سپاہیوں کے ہاتھ لگ کر سلطان کے حرم کا حصہ بنی تھی۔ یوکرائن کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھنے پر آئرین نے کنفرم کیا کہ کریمیا میں اب بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔

دوسرے دن استنبول کے تاریخی مرکز سلطان احمت میں آوارہ گردی کے دوران سنان پاشا مدرسہ میں لبنان کے ایک آئی ٹی ڈویلپر سے ملاقات ہوئی جس کا کہنا تھا کہ کریمیا سلطنت کا وہ حصہ ہے جو سب سے پہلے عثمانیوں ہاتھوں سے نکلا۔ بعد ازاں کچھ عرصے یہ پولینڈ کا حصہ رہا۔

روس نے وسط ایشیائی ریاستوں میں بھی بہت ستم ڈھائے۔ داغستان، قازقستان، کرغزستان، چچنیا اور دیگر علاقوں سے ملینز کو اسی طرح جبری منتقلی کروا کر ان کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا اور ان کا روزگار، پیٹ پالنے کا ذریعہ ان سے چھین کر انہیں بھوک اور افلاس کی زندگی گزرنے پر مجبور کیا گیا۔

ایڈمنٹن آرٹس کونسل اور ہٹلر کی فوج کا یوکرنین سپاہی

یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے یاد آ رہا ہے کہ گزشتہ سال ایڈمنٹن آرٹس کونسل کے لٹریری ایوارڈز میں مجھے جیوری ممبر کی حیثیت سے چنا گیا تو ایوارڈ کے پروپوزلز میں ایک ڈاکیومنٹری ایڈمنٹن کے ایک سابق یوکرائنی سولجر کی ایک یادگار کے خلاف بنائی گئی تھی۔ ڈاکیومنٹری بنانے والے کا اصرار تھا کہ اس یادگار کو گرا دینا چاہیے کیونکہ اس سپاہی نے ہٹلر کی فوج میں کام کیا ہے۔ جبکہ یادگار خود یوکرائنی کمیونٹی نے اپنے خرچ پر تعمیر کروائی تھی۔

آئرین کا کہنا تھا کہ یوکرائن کے عوام نے ہٹلر کا ساتھ اس لئے نہیں دیا تھا کہ وہ ہٹلر کو پسند کرتے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ روس کے جبر سے آزاد ہونا چاہتے تھے۔ خیر اس سب بات چیت میں جہاز خیو پر ٹیک آف کے لئے تیار ہو گیا۔ یہ سطریں میں خیو ایئرپورٹ کے ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھ کر لکھ رہی ہوں۔ کیو میں چار گھنٹے کا قیام تھا اور حیرت انگیز طور پر امیگریشن منٹوں میں بلکہ ایک منٹ میں ہو گئی۔ سامان استنبول پر ہی ملنا تھا تو میں نے سفر کی روداد لکھنے میں وقت گزارا۔

(جاری ہے )

اسی بارے میں: حوریم سلطان سے کوسم سلطان تک: سلطنتِ عثمانیہ کی شاہی کنیزیں جو کسی ملکہ جتنی بااثر تھیں

تزئین حسن

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

تزئین حسن

تزئین حسن نے ہارورڈ یونیورسٹی امریکا سے حال ہی میں صحافت میں ماسٹرز مکمل کیا ہے اور واشنگٹن کے ایک انسانی حقوق کے ادارے کے ساتھ بہ حیثیت محقق وابستہ ہیں۔ ان کے مضامین جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور نارتھ امریکا میں شائع ہوتے رہے ہیں۔

tazeen-hasan has 6 posts and counting.See all posts by tazeen-hasan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments