فکری بونے پن کی وجوہات


انسان کی تمام تر صلاحیتیں، خواہ وہ جسمانی ہوں یا ذہنی اور روحانی، بقاء اور ترقی کے لئے ورزش کی محتاج ہیں۔ جسمانی طاقت کو جتنا زیادہ استعمال کیا جائے، وہ اتنا بڑھتی ہے اور اگر اسے استعمال کرنا چھوڑ دیا جائے تو وہ گھٹتی جاتی ہے۔ اگر کسی ایسے شخص کو جسے پیدل چلنے کی عادت نہ ہو پیادہ پا سفر کرنا پڑ جائے تو وہ زیادہ دور تک نہیں جا سکتا۔ لیکن اگر وہ اپنی ہمت کے مطابق روزانہ پیدل چلنے کی عادت ڈالے تو چند ہی دن میں اس کی حد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی اصول ذہنی صلاحیتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ چاہے یادداشت ہو، قوت متخیلہ ہو، تجزیاتی صلاحیت ہو یا منطق، جتنی استعمال ہو، اتنی بڑھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اضافہ لامحدود نہیں ہوتا لیکن قابل ذکر فرق ضرور پڑ جاتا ہے۔

اس حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ان صلاحیتوں کا استعمال ترک کر دیا جائے تو ان میں کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ گاڑیاں عام ہونے کا نقصان یہ ہوا کہ لوگ پیدل چلنے کے قابل نہ رہے۔ عمارتوں میں لفٹ لگنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس بیس سیڑھیاں چڑھنے سے ہی سانس پھولنے لگی۔ ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ موبائل فون عام ہونے سے پہلے ہر کسی کو درجنوں فون نمبر زبانی یاد ہوتے تھے مگر اب نہیں ہوتے۔ ہر وقت اور ہر جگہ انٹرنیٹ کی دستیابی کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا دورانیہ گھٹ گیا۔ زندگی میں اس طرح کی ”ایٹروفی“ کی اور بھی کئی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

یہ آرام طلبی اور توجہ کی کمی دور حاضر کا ایک عالمی مسئلہ ہے۔ تاہم ترقی یافتہ اقوام جو ان سائنسی ایجادات کی خالق ہیں ، وہ ان کے غیر متوقع نقصانات کا ادراک بھی رکھتی ہیں اور ان سے نمٹنے کے لئے کوشاں بھی ہیں۔ لیکن بقول پروین شاکر مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا۔ مملکت خداداد کے مسائل تو اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں مگر کیا عوام اور کیا خواص، سب بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔

گزشتہ تہتر برس میں پاکستان نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پہلے کشش ثقل اور پھر چند دہائیوں کے بعد پانی سے چلنے والی گاڑی کی ایجاد کے علاوہ کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کی۔ اس کی کئی ممکنہ وجوہات ہیں جن میں سے شاید سب سے بڑی وجہ وسائل کی قلت ہے۔ تو چلیے، ہم سے کوئی بڑی ایجادات نہ ہو سکیں کہ ہمارے پاس ضروری سہولیات ہی نہیں تھیں۔ ریاضی میں ہی کچھ کر لیتے، اس میں تو کاغذ قلم کے علاوہ کچھ بھی درکار نہیں ہوتا۔

نفسیات کے علم کی بنیاد لوگوں سے گفتگو کرنے پر ہے اور من حیث القوم ہم باتونی لوگ ہیں۔ ہم میں سے کوئی قطعیت کے ساتھ انسانی ذہن کی کوئی گرہ بھی نہ کھول سکا۔ کمپیوٹر سائنس کا شعبہ تو ایسا ہے کہ آپ کا کمپیوٹر بیک وقت آپ کا استاد، ملازم، لیبارٹری، ورکشاپ، سب کچھ ہوتا ہے۔ آپ اس سے کیا حاصل کرتے ہیں یہ صرف آپ کے تخیل اور محنت پر منحصر ہے۔ ہم نے اس جادوئی مشین کے ذریعے بھی صرف کچھ ناگفتنی موضوعات پر گوگل سرچ میں ہی نام کمایا۔

ایک مجلس میں کوئی صاحب بولے کہ پاکستان نے عالمی سطح پر امتیاز حاصل کرنے والا کوئی دانشور پیدا نہیں کیا۔ سننے والے بھڑک اٹھے اور کئی مصوروں، ادیبوں، شعراء اور ایک سائنس دان کا نام لیا۔ چھیڑنے والے نے یاد کرایا کہ وہ تمام لوگ تقسیم ہند سے پہلے کی نسل تھے۔ انگریز کے پڑھائے ہوئے۔ شطرنج کا ایک بڑا کھلاڑی گزرا ہے ہمارے ہاں سلطان خان نامی۔ غالباً تھا تو غیر تعلیم یافتہ، لیکن قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ وہ بھی انیس سو تین کی پیدائش نکلا۔

سنتے ہیں کہ لارڈ میکالے نے برصغیر میں جدید مغربی تعلیم کی بنیاد رکھی۔ معترضین کا کہنا ہے کہ انگریز کا مقصد یہاں کے عوام کو صرف بنیادی اور رسمی سی تعلیم فراہم کر کے سرکاری مشینری کے لئے کلرک تیار کرنا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ہم نے ورثے میں انگریزی نظم و نسق، افسرشاہی اور فوج کے ساتھ ساتھ انہی کا نظام تعلیم بھی حاصل کیا۔ تو کیا ہوا کہ وہ کلرک ساز نظام تعلیم بدلا نہ جا سکا؟ یہاں تو زیادہ سے زیادہ کوشش بس سائنس کا ختنہ کرنے تک کی ہی کی گئی۔

کسی معاشرے کا ذہنی ارتقاء وہاں موجود تنقیدی فکر کے متناسب ہوتا ہے۔ سوال سوچ کو تقویت اور تحقیق کو مہمیز دیتے ہیں۔ کسی نظریے، قانون یا رواج پر اعتراض کرنے والا مجبور ہوتا ہے کہ وہ نئے اور بہتر دلائل تلاش کرتا رہے۔ ان خیالات کا دفاع کرنے والے کے لیے بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے نقطۂ نظر کو اور بھی بہتر طریقے سے سمجھے اور پیش کرے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تحقیق کا صحیح طریقہ ہی یہ ہے کہ آپ اپنی رائے کے متضاد نقطۂ نظر کا معروضی جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کیا آپ ان کے تمام دلائل کا معقول جواب دے سکتے ہیں یا نہیں، یہاں زور معقولیت پر ہے۔

اگر مباحثے اور مناظرے کا یہ عمل کھلے ذہن کے ساتھ اور خالص علمی اور عقلی بنیادوں پر ہو تو جانبین کا فائدہ ہوتا ہے۔ کشادہ ذہن اور نظر رکھنے والے اپنی غلطی تسلیم کر کے عملی تبدیلیوں اور پھر اگلے مسئلے پر مباحث کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ رویہ جن معاشروں میں رچ بس جائے ، وہ ہر طرح کے علم و فن میں نئے راستوں کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر کوشش بارآور نہیں ہوتی۔ اعتراض کرنے والوں، نئی طرح ڈالنے والوں اور اس قبیل کے دیگر دیوانوں کو وہاں بھی ہمیشہ قبولیت نہیں ملتی۔ ان کا تمسخر بھی اڑایا جاتا ہے۔ لیکن ان کے خلاف فتوے نہیں دیے جاتے۔ انہیں لاپتہ نہیں کیا جاتا۔

مرزا غالب بھلے وقتوں میں کہتے پھرتے تھے جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔ اب تو یہ سوال کرنے والے فتنہ پرور، دشمن دین اور غدار وطن کہلاتے ہیں۔ یہاں شاعروں کو جیلوں میں پھنکوایا جاتا ہے۔ ’استاد دامن دا گھر ویکھیا جے؟ دو ریوالور تے تن دستی بم نکلے۔‘ صحافیوں کا منہ بند کرا دیا جاتا ہے۔ ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرنے پر ایمان رکھنے والے معاشرے میں اساتذہ کواس لئے نوکری سے خارج کرا دیا جاتا ہے کہ وہ تاریخی حقائق بیان کرتے ہیں۔

اور کتنے لوگ صرف اس لئے جان گنوا بیٹھتے ہیں کہ ان کا زاویۂ نظر مختلف ہے۔ ہمارے ہاں جدید ادب میں ایک خیال گاہے گاہے نظر آتا ہے ”آگہی کا عذاب“ ۔ یہ تصور دنیا بھر کے ادب میں اور کہیں نہیں ملتا۔ یہ ہمارے معاشرے کے حبس ہی کا کمال ہے جہاں آگہی ایک نعمت نہیں، ایک عذاب بن جاتی ہے۔ جون ایلیا اپنی ایک نظم میں اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ ان جیسا نہ بن جائے۔ راحت میں ہے جو عام سے ہونے کو اپنا لے۔ ایسے ماحول میں وہ خاص لوگ جو اپنے میدان میں کمال حاصل کر لیں، کہاں سے آئیں گے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہماری مختصر مدت کی یادداشت برقی ہوتی ہے۔ چابی کہاں رکھی ہے، بازار سے کیا لانا ہے جیسی باتیں دماغ کے ایک حصے میں الیکٹرک چارج کی صورت میں محفوظ ہوتی ہیں۔ جب اس یاد کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو وہ چارج ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہماری طویل المدت یادداشت کی بنیاد کیمیائی ہے۔ جو یادیں ہمارے دماغ پر کندہ ہوتی ہیں، وہ دراصل ہمارے جسم کی کیمیائی ساخت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے تجربات اور مشاہدات کسی حد تک اپنی اولاد میں بھی منتقل کر دیتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ جب کسی ماہر فن کی اولاد اسی شعبے میں آتی ہے تو بہت جلد ترقی کرتی ہے۔ اگر اس اندازے کو درست تسلیم کر لیا جائے، تو پھر شاید نااہلی بھی وراثت میں دی جا سکتی ہو اور ذہنی طور پر لاغر لوگوں کے بچے بھی ویسے ہی ہوتے ہوں۔ نظریۂ ارتقاء بھی اس خیال کی تائید کرتا ہے۔ جب نسل در نسل کسی عضو یا صلاحیت کا استعمال کم ہوتا رہے تو آخر کار وہ چیز اس جنس میں ناپید ہو جاتی ہے۔

تخیل کی پرواز ایک دم اوج ثریا تک نہیں پہنچ جاتی۔ پہلے پر پھڑپھڑانے کی عادت اختیار کی جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی ”اڈاریاں“ لینی پڑتی ہیں۔ گرنا اور چوٹ بھی کھانا پڑتی ہے۔ اور پے در پے ناکامیوں کے بعد کبھی کہیں ایسا ہوتا ہے کہ ذہن پلٹنے، جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹنے کے قابل ہوتا ہے۔ لیکن اس کی پہلی شرط پروں کا سلامت ہونا ہے۔ ٹوٹے پروں والے پرندے صرف پنجرے میں بیٹھے رزق اجاڑ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments