علامہ اقبالؒ اور ایبٹ آباد کا سربن پہاڑ


علامہ اقبالؒ 3 جون 1903ء کو گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد مقرر ہوئے ، اسی سال ان کی تصنیف ”علم الاقتصاد“ بھی منظر عام پر آئی۔ اگست 1904ء میں علامہ اقبالؒ نے موسم گرما کی تعطیلات گزارنے کے لیے اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد (سب ڈویژنل افسر ملٹری ورکس) کے پاس ابیٹ آباد جانے کا قصد کیا۔ عطا محمد ان دنوں ابیٹ آباد میں اپنے منصبی فرائض انجام دے رہے تھے ۔ اقبال ان کے پاس تشریف لے گئے اور وہاں چند روز قیام کیا۔ اسی قیام کے دوران انھوں نے مورخہ 10 اگست 1904 کو ایک خط منشی دیا نرائن نگم (مدیر ماہنامہ ”زمانہ“ کانپور) کے نام لکھا۔

از ابیٹ آباد ہزارہ،

جناب من! میں کئی روز سے یہاں ہوں، لیکن افسوس کہ یہاں پہنچتے ہی بیمار ہو گیا اور اسی وجہ سے آپ کے خط کا جواب نہ دے سکا ، ابھی پورا افاقہ نہیں ہوا ہے ، اشعار ارسال خدمت کرتا ہوں۔

محمد اقبال
معرفت شیخ عطا محمد سب ڈویژنل افسر ملٹری ورکس
10۔ اگست 1904ء
(بحوالہ: مظفرحسین برنی کلیات مکاتیب اقبال جلد اول)

اسی قیام کے دوران علامہ اقبال نے ہائی اسکول ابیٹ آباد کے ہال میں ”قومی زندگی“ کے موضوع پر ایک طویل لیکچر بھی دیا تھا۔ جس میں ابیٹ آباد کے زعماء اور معروف شخصیات نے شمولیت اختیار کی تھی، بعد میں یہی لیکچر اکتوبر 1904ء میں ’مخزن‘ میں شائع ہوا تھا۔ ایبٹ آباد کے قیام کے دوران اقبالؒ کمپنی باغ جس کو آج کل باغ جناح کہا جاتا ہے ٹہلنے کے لیے آتے جاتے تھے۔ یہ کمپنی باغ بالکل شہر کے وسط میں ہے اس کے اردگرد اونچے پہاڑ ہیں اور پہاڑوں کے اوپر سے باغ کی جگہ بالکل پیالہ نما دکھائی دیتی ہے۔ ان پہاڑوں پر ساون کی گھٹائیں جب رقص کرتی ہیں تو عجیب سماں بندھ جاتا ہے۔ ایک عام آدمی بھی ان نظاروں میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ وہ دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔

ایک شاعر کے دل پر ان نظاروں کے اثرات ایک عام محسوسات والے شخص سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ اس باغ کے وسط میں ایک جگہ ایسی ہے جہاں کافی گھنے درخت ہیں اور ان درختوں کے عین مقابل ”کوہ سربن“ کا دلکش نظارہ ہے۔ ”کوہ سربن“ ابیٹ آباد کے بلند ترین اور خوبصورت پہاڑوں میں سے ایک ہے۔ یہ گاؤں نگکی (Nagakki) ضلع ایبٹ آباد میں موجود ہے۔ کوہ سربن کا نام راجا ”رسالو“ کے والد ”سالباہن“ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

یہ وہی راجا رسالو ہے جو دوسری صدی عیسوی کا ایک ہندو بادشاہ تھا۔ جو راجہ سالباہن کا بیٹا تھا۔ یہ یادوبنسی راجپوت تھا۔ آج بھی پاکستان اور بھارت میں ان کی کثیر تعداد موجود ہے۔ راجا رسالو کی ماں کا نام ”رانی لونا“ تھا۔ راجا رسالو گندھارا تہذیب کا ایک نامور کردار ہے۔ راجا ”رسالو“ راجا ”سالباہن“ کا بیٹا تھا۔ ”سالباہن“ کی حکومت سیالکوٹ سے راولپنڈی تک تھی۔ راجا ”سالباہن“ کی دوسری بیوی اچھراں تھی۔ جس کے نام لاہور میں اچھرہ پڑا ہے اور رانی اچھراں سے ایک بیٹا پورن بھگت بھی تھا۔

علامہ اقبالؒ کی اس مذکورہ دورے کے دوران جب کمپنی باغ کے وسط میں بیٹھ کر درختوں کی اوٹ سے اس پہاڑ ”سربن“ پر نظر پڑی تو اس پر گھنگھور گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ اقبالؒ نے اسی دلفریب نظارے سے متاثر ہو کر اپنی مشہور نظم ”ابر“ لکھی تھی جو کہ ”بانگ درا“ میں پینتالیسویں نمبر پر شامل ہے۔ اس کے تین اشعار پیش خدمت ہیں:

اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا
سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ ”سربن“ کا
نہاں ہوا جو رخ مہر زیر دامن ابر
ہوائے سرد بھی آئی سوار توسن ابر
عجیب خیمہ ہے کہسار کے نہالوں کا
یہیں قیام ہو وادی میں پھرنے والوں کا

اقبالؒ نے اس نظم کے مطلع میں ”سربن“ پہاڑ کا ذکر کر کے اسے ہمیشہ کے لیے امر کر دیا ہے۔ جب تک دنیا میں کلام اقبال باقی رہے گا اس کے ساتھ ”سربن“ پہاڑ کا ذکر بھی ہوتا رہے گا۔ جس دور میں محکمہ ”آرکیالوجی“ وفاق کے ماتحت کام کرتا تھا ، اس دور میں انھوں نے اس عمارت جس میں اقبالؒ نے قیام کیا تھا ، کمپنی باغ کے اس حصے میں جہاں انھوں نے نظم ”ابر“ لکھی تھی، ہائی سکول کے اس ہال جس میں علامہ اقبالؒ نے اپنا خطبہ ”قومی زندگی“ ارشاد فرمایا تھا، ان سب جگہوں پر علامہ اقبالؒ کے نام کی یاد گاری تختیاں نصب کی تھیں پھر اس کے علاوہ علامہ اقبال نے جس جگہ پر بیٹھ کر نظم لکھی تھی ،اس جگہ پر ایک اونچا گول دائرہ ”تھلہ“ بنا دیا تھا۔

یہ جگہیں ہمارے اسلاف کی نشانیاں ہیں ، ان سے ہمارے مشاہیر کی یادیں وابستہ ہیں ، ان جگہوں کو منہدم ہونے سے بچانے کی اشد ضرورت ہے۔ میری گورنرخیبرپختونخوا سے گزارش ہے کہ جس عمارت میں علامہ اقبالؒ نے قیام کیا تھا اس عمارت کی مناسب مرمت کروا کر اسے ”زیارت“ میں قائد اعظم ریزیڈنسی کی طرز پر، علامہ اقبالؒ ریزیڈنسی ابیٹ آباد کا درجہ دیا جائے۔ اس سے نہ صرف صوبے کے وقار میں مزید اضافہ ہو گا بلکہ سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔

اس کے علاوہ ہمارے اسلاف کی یادگاریں بھی محفوظ ہو جائیں گی ۔ پوری دنیا اقبالؒ کے افکار پر رشک کر رہی ہے اور ان کی یادگاریں تعمیر کر رہی کی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اقبال اور اس کے روحانی مرشد مولانا رومی مختلف ادوار اور جغرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم، ان کا روحانی تعلق کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ترکی کے شہر قونیا میں رومی کے مزار کے قریب ہی علامہ اقبال کا مزار بنایا گیا ہے۔ ترکوں کے اندر آج جو خوداری اور باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ ہے اس کا بڑا حصہ کلام اقبالؒ کی دین ہے۔

اسی طرح اگر ہم نے اپنے ان مشاہیر کی یادگاروں کو محفوظ نہیں کیا اور یہ امتداد زمانہ کی نذر ہو گئیں تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی بلکہ وہ اپنے اسلاف کے کارناموں سے نا آشنائی کے باعث دیگر اقوام جن میں ہیروز کی کمی ہے کی طرح محض سپائیڈر مین اور ”سپرمین“ کے کارناموں پر ہی اتراتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments