’دا گرل گیمبلر‘: چھ روز میں 50 ہزار پاؤنڈ جوئے میں ہارنے والی لڑکی نے خود کو کیسے بدلا؟
سٹیسی گڈوین نے جب ایک جوا خانے میں ملازمت شروع کی تو انھوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ خود کبھی جوا نہیں کھیلیں گی۔
لیکن ایک روز مشین میں ایک پاؤنڈ کا سکہ ڈالنے کے بعد انھیں جیسے لت ہی لگ گئی۔ اور پھر آہستہ آہستہ وہ کسی روز سینکڑوں تو کسی روز ہزاروں پاونڈ آن لائن جوئے میں ہارتی چلی گئیں۔
ایک ایسا موقع بھی آیا جب 28 برس کی عمر میں چھ روز کے اندر انھوں نے پچاس ہزار پاؤنڈ جوئے میں گنوا دیے اور اس کے بعد انھوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی۔
اب سٹیسی سوشل میڈیا کے ذریعے ان خواتین کی مدد کرتی ہیں جنھیں جوئے کی لت کا شکار ہوں۔ سٹیسی کا خیال ہے کہ خواتین اپنی تکلیف کو خاموشی کے ساتھ تنہا برداشت کرتی ہیں۔
سٹیسی گڈوین نے برطانیہ میں دکانوں کے کاؤنٹرز سے سکریچ کارڈز ہٹائے جانے کے لیے بھی ایک آن لائن پیٹیشن دائر کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جوئے کی لت سے متاثرہ افراد کے لیے ایک سکریچ کارڈ بھی ’ٹریگر‘ کا کام کرتا ہے۔
انھوں نے بتایا ’بہت سی خواتین مجھ سے رابطہ کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ وہ اس مسئلے سے دوچار ہیں اور انھوں نے اس بارے میں کبھی کسی اور کو نہیں بتایا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
’میرا بیٹا آن لائن گیمز سے جوئے کی لت کا شکار بنا‘
کیا سیکس کی لت کوئی بیماری ہے؟
سٹیسی کا خیال ہے کہ ’آن لائن جوئے کے لت میں مبتلا افراد کو شرم اور ندامت کا احساس گھیر لیتا ہے۔ اور بہت سی خواتین اس بارے میں بہت شرمندہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ زندگی میں کیا کر رہی ہیں۔‘
سٹیسی کا خیال ہے کہ خواتین اکثر ایسی صورتحال میں کسی سے مدد اس لیے نہیں مانگتیں کیوںکہ انھیں لگتا ہے کہ کوئی ان کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ خود کو بہت تنہا محسوس کرتی ہیں۔
سٹیسی نے اٹھارہ برس کی عمر میں جوا خانے میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ’ایسا اکثر دیکھنے کو نہیں ملتا کہ ایسے مقامات پر کوئی لڑکی کام کر رہی ہو۔ وہاں بہت مردانہ ماحول ہوتا ہے۔‘
حالانکہ خواتین کو اگر اس میں دلچسپی ہو جائے تو وہ زیادہ آن لائن جوا کھیلتی ہیں، کیوںکہ ایسا وہ گھر بیٹھے اپنے فون سے کر سکتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’بہت سی خواتین سے بات کر کے پتا چلتا ہے کہ اصل میں وہ جوا کسی اور مسئلے سے بھاگنے کے لیے کھیل رہی ہوتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ اسے راہ فرار کے طور پر دیکھتی ہیں لیکن بہت جلد وہ لت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔‘
سٹیسی اب ایک گیس کمپنی کی سیلز مینیجر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ لیکن ان کی لت کے سبب ان کی نوکری بھی خطرے میں پڑ گئی تھی۔
انھوں نے کہا ’میں بہت بیمار محسوس کر رہی تھی کیوںکہ میں جوے میں اپنی تمام رقم ہار چکی تھی اور سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ میں کام پر دھیان نہیں دے پا رہی تھی۔ میرے دماغ میں جوئے کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں کوئی خیال نہیں آ رہا تھا۔‘
انھوں نے کہا ’مجھے واقعی لگ رہا تھا کہ اب کوئی حل باقی نہیں ہے۔ میں شدید ڈپریشن میں تھی اور لت کے ہاتھون مجبور بھی۔ مجھے لگا کہ شاید اس کا ایک واحد حل یہی تھا کہ میں اپنی جان لے لوں۔‘
’اب میں بہت مضبوط ہوں‘
سٹیسی گڈوین کی اس مشکل سے باہر آنے میں ان کی والدہ نے مدد کی۔ انھوں نے ان کا مکمل ساتھ دیا اور ان کے تمام مالی معاملات کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
انھوں نے خواتین کی جوئے کی لت سے نجات میں مدد کرنے والے ایک کورس میں بھی وقت گزارا۔
سٹیسی نے بتایا ’انھوں نے مجھے جوئے کی لت کے لیے ذمہ دار نفسیاتی وجوہات کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ میں ایسا کیوں کر رہی تھی۔‘
’جب میرے والد کو فالج ہوا تب ایک بار میں دوبارہ جوئے کی جانب راغب ہوئی تھی، لیکن میں نے جلد ہی خود پر قابو پا لیا۔ اب میں جوا نہیں کھیلتی اور بہت مضبوط محسوس کرتی ہوں۔‘
سٹیسی اب ٹک ٹاک اور فیس بک صفحات پر ’دا گرل گیمبلر‘ نام سے دیگر خواتین کی اس لت سے نجات حاصل کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ وہ اپنے سفر کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھنا چاہتی ہیں۔
سٹیسی ایک مرتبہ فٹبال میچ کے درمیان جوئے کے اشتہارات سے بچنے کے لیے دودھ لینے چلی گئیں۔ وہاں قطار کافی لمبی تھی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ وہ کاؤنٹر پر رکھے سکریچ کارڈز کی جانب راغب ہو رہی تھیں۔
اس کے بعد انھوں نے سکریچ کارڈز کو دکانوں کے کاؤنٹر سے ہٹائے جانے کی آن لائن پیٹیشن کا آغاز کیا۔
انھوں نھے بتایا ’میں اب اتنی مضبوط ہوں کہ اس طرح کے لالچ سے دور رہ سکوں۔ لیکن مجھے احساس ہوا کہ کس طرح یہ چیزیں آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ جوئے کی لت سے نجات کی کوشش کرنے والے شخص کے لیے ایک پاؤنڈ کا سکریچ کارڈ ہی واپس لت بنانے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔‘
ان کا کا خیال ہے کہ سکریچ کارڈز سامنے نہیں ہونے چاہئیں تاکہ جنھیں ان کی ضرورت ہے وہ مانگ کر حاصل کریں۔
انھوں نے کہا ’نو عمر لوگوں کو سگریٹ سے دور رکھنے کے لیے ہم سگریٹ دکانوں میں چھپا کر رکھ سکتے ہیں تو سکریچ کارڈ کیوں نہیں؟‘
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).