تحریک لبیک کا تازہ دھرنا اور جیو نیوز پر مگرمچھ کے آنسو


تحریک لبیک پاکستان کے امیر اور خادم حسین رضوی صاحب کے صاحبزادے سعد رضوی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ وہ 20 اپریل کو حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا ارادہ کر رہے تھے کیونکہ ان کے مطابق حکومت نے اپنے وعدے کے مطابق فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہیں کیا۔ اور اس کے بعد تحریک لبیک کے کارکنان نے مختلف مقامات پر سڑکیں بند کر کے عوام کو دل کھول کر اذیت دی۔ کم از کم شروع کے چوبیس گھنٹے کے دوران کہیں پر بھی پولیس اس فساد پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ایک صحافی بتا رہے تھے کہ لاہور میں تو پولیس ہزیمت اٹھانے کے بعد سڑکوں سے ہی غائب ہو گئی۔

کل شب جیو نیوز پر حامد میر صاحب ایک پروگرام کر رہے تھے جس میں پیپلز پارٹی کے ناصر حسین شاہ صاحب، مسلم لیگ نون کے اعظم نذیر تارڑ صاحب اور تحریک انصاف کے فرخ حبیب صاحب شریک تھے۔ تینوں شرکاء اور خود حامد میر صاحب نے بہت رقت آمیز لہجے میں اس بات پر بار بار اظہار افسوس کیا کہ آخر پاکستان میں قانون کی بالا دستی کیوں قائم نہیں ہوتی؟ ہر مرتبہ شدت پسند ملک کا امن و امان برباد کرنے میں کامیاب کیوں ہو جاتے ہیں اور ریاست منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔

اس عاجز کو ان احباب کی معصومیت پر حیرت ہے کہ انہیں اب تک یہی علم نہیں ہوا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا تحریک لبیک پاکستان آج وجود میں آئی ہے کہ ان احباب کو علم ہی نہیں ہو سکا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے نمودار ہو کر حملہ آور ہو گئے ہیں۔ کیا یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس گروہ نے پاکستان کا امن برباد کیا ہے؟

کیا ہمارے سیاست دان اور اینکر حضرات کو یاد نہیں کہ جب 2017 میں انتخابی قوانین میں تبدیلی کی گئی تو تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان فیض آباد کے مقام پر دھرنا دے کر وہاں کے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ اس پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا۔ اس پر فیصلہ جسٹس فائز عیسیٰ صاحب نے لکھا تھا۔

اس فیصلے میں بہت سے حقائق سامنے آئے تھے۔ تحریک لبیک کا قلیل گروہ اکیلا دھرنے کو کامیاب نہیں بنا سکتا تھا۔ اس وقت مسلم لیگ نون کی حکومت تھی۔ ان کے تمام مخالفین اس گروہ کی پیٹھ ٹھوکنے وہاں حاضر ہوئے تھے۔ اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 4 پر ملاحظہ فرمائیں۔ ان لوگوں میں سب سے اہم نام ہمارے موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب کا ہے۔ اس وقت وہ حکومت کو دھمکیاں دے رہے تھے۔ اگر وہ ان کے سامنے نہ جھکی تو لبیک والوں کا طوفان انہیں اڑا کر رکھ دے گا۔ اور تو اور اس سال فروری میں جب وہ وزیر داخلہ تھے تو انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک لبیک اور میرا مشن ایک ہے۔

اب کیا ہم یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ایسا وزیر داخلہ پاکستان کو اس داخلی خطرے سے بچا سکے گا؟ آج پیپلز پارٹی کے ناصر حسین شاہ صاحب بہت اظہار تأسف کر رہے تھے۔ اور عدالتی فیصلہ کے مطابق اسی جماعت کے شیخ حمید صاحب بھی 2017 میں تحریک لبیک سے اظہار یکجہتی کے لئے فیض آباد حاضر ہوئے تھے۔ اور تحریک انصاف کے علماء ونگ نے وڈیوز جاری کی تھیں۔ آج اس بات پر افسوس کرنا کہ یہ جن بوتل سے باہر آ گیا، مگر مچھ کے آنسو بہانے کے مترادف ہے۔

آج کئی صحافی سوال اٹھا رہے ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان کی قانون شکنی پر قابو کیوں نہیں پایا جا رہا۔ اس فیصلے کے مطابق تحریک لبیک کی شورش کو شہرت دینے میں کئی چینلز کا بھرپور ہاتھ تھا۔ جب تحریک لبیک کے لیڈر لوگوں کو تشدد پر اکسا رہے تھے تو ایک نیوز چینل 92 اس دھرنے میں شامل لوگوں کو کھانا مہیا کر رہا تھا۔ اور پیمرا نے اس چینل کے خلاف کارروائی نہیں کی تھی۔ [عدالتی فیصلہ صفحہ 27 ]

اسی فیصلہ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ اس جماعت کو تو رجسٹر ہی ایک ایسے شخص نے کرایا تھا جو کہ متحدہ عرب امارات کا رہائشی تھا۔ اور اس کے پاس نائیکوپ تھا۔ اور یہ بیرون ملک سے مالی مدد کے زمرے میں آتا ہے جس کی قانون میں ممانعت ہے۔ اور الیکشن کمیشن نے انکشاف کیا کہ اس وقت تک بار بار کی یاد دہانیوں کے باوجود تحریک لبیک نے قانون کے مطابق اپنے مالی آمد کا حساب نہیں دیا تھا۔ کیا اس پر مسلم لیگ نون یا تحریک انصاف کی حکومت نے کسی قسم کوئی تحقیقات کیں کہ حقائق سامنے آئیں؟ اگر کوئی نتیجہ سامنے آیا تو یہ آیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئیں۔ اور اب وہ سپریم کورٹ میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔

موجودہ حکومت نے خود دو مرتبہ تحریک لبیک پاکستان سے تحریری معاہدہ کیا کہ ہم پارلیمنٹ سے منظوری لے کر فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دیں گے۔ اس وجہ سے تحریک لبیک پاکستان اب اس احتجاج کو ہوا دے رہی ہے کہ حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ کرنے سے پہلے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کیوں نہیں کیا گیا؟ ماضی کی تمام روایات کے عین مطابق اس جن کو انہیں لوگوں نے بوتل سے باہر نکالا ہے جو اب اس کے بے قابو ہونے پر ہاتھ مل رہے ہیں۔ اور آج کے اس پروگرام میں تینوں شرکاء میں سے کوئی بھی اس موضوع پر رائے دینے کو تیار نہیں تھا کہ فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالنا چاہیے کہ نہیں۔

اپنی زندگی کی چند سالوں میں تحریک لبیک پاکستان کا ایک ہی نعرہ ہے اور وہ یہ کہ وہ ناموس رسالت ﷺ کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کی یہ حیثیت تو نہیں ہے کہ وہ انتخابات جیت کر حکومت بنا سکیں۔ لیکن ان کے ہاتھ میں ایک ہی سیاسی ہتھیار ہے اور وہ یہ کہ مصروف ترین سڑکوں پر راستے بند کر کے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دو ، خواہ اس کے نتیجے میں کئی مریض اپنی زندگی کی بازی ہار بیٹھیں۔ اور اس طرح حکومت سے اپنے مطالبات منظور کرواؤ۔

لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے اس طرزعمل کے بارے میں کیا رہنمائی فرمائی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ احادیث نبویہ ﷺ میں راستوں کے حقوق بڑی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں تاکہ راستے بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ حضرت سالم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ راستوں میں نماز پڑھنا منع کیا گیا ہے۔ [ابن ماجہ کتاب الطھارۃ] احادیث میں یہاں تک تاکید بیان ہوئی ہے کہ اگر کسی نے جہاد کے دوران اس طرز پر خیمے لگائے کہ راستہ بند ہو گیا تو اس کا جہاد نہیں ہو گا۔ [ابو داؤد کتاب الجہاد ] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ راستوں پر بیٹھنے سے بچو۔ بعض صحابہ نے عرض کی کہ ہمیں بعض مجبوریوں کے تحت وہاں بیٹھنا پڑتا ہے تو آپ نے فرمایا پھر راستوں کا حق ادا کرو یعنی نگاہوں کو نیچا رکھو، کسی کو ایذا دینے سے بچو اور سلام کا جواب دو۔ [بخاری کتاب المظالم ]

اگر راستوں پر نماز ادا کر کے یا دوران جہاد خیمہ لگاتے ہوئے راستہ بند کرنے کی ممانعت ہے اور صرف راستوں پر بیٹھنا بھی پسند نہیں کیا گیا تو اسلامی تعلیم کی رو سے پورے ملک کی شاہراہوں کو بند کر کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو اذیت دینا اور وہاں پر بیٹھ کر گالی گلوچ کر طوفان برپا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی نافرمانی کر کے ناموس رسول ﷺ کی حفاظت کی جا سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments