ہائی برڈ نظام کا تسلسل اور نیا ”برڈ“


جناب جہانگیر ترین مالی اور سیاسی طور پر موجودہ حکومت کے معماروں میں شمار جبکہ سیاسی سوچ و کردار کے حوالے سے مکمل طور پر جاری ہائی برڈ سیاسی ٹیکنالوجی کی پیداوار ہیں حکومت کے اندر ان کے اثر و رسوخ میں کمی اور بالآخر خاتمہ پچھلے برس کا واقعہ ہے ، حکومت سے علیحدگی کے بعد وہ چند ماہ ملک میں موجود رہے ، اس اثناء میں وہ خاموشی سے مصالحت کی کوشش کرتے رہے ۔ جب حالات میں امید کی کرن بجھنے لگی تو بیٹے کو لے کر لندن چلے گئے ۔ قیام لندن کے دوران وزیراعظم کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے مصروف عمل رہے۔

کہا جاتا ہے کہ موبائل میسنجر پر دو طرفہ ہم آہنگی میں اضافہ ہی ان کی ملک واپسی کا سبب بنا تھا۔ جبکہ دیگر ذرائع کے مطابق قبل ازیں انہوں نے جناب اسحاق ڈار کے ساتھ رابطے کیے ، پھر میاں نواز شریف سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے میاں صاحب کو حکومت کے خاتمے کی مشترکہ کاوش کی تجویز دی۔ میاں صاحب اپنی تین سیاسی شرائط پر تعاون کے لیے آمادہ تھے جن کا مختصر احوال یہ ہے کہ ترین صاحب میاں نواز شریف کی ذات اور حکومت کے خلاف ہونے والی تمام پس پردہ سازشوں سے بطور مشاہد و واقف حال بلکہ شریک کار۔ اعتراف کریں ذرائع ابلاغ پر،  تفصیل کے ساتھ تمام شرکاء کے کردار بیان کریں ، ان کے نام اور عہدوں کے حوالے کے ساتھ۔ انکشاف نما اقرار کریں لیکن ترین صاحب نے بقول شخصے اس پر معذرت کی اور دلیل دی کہ وہ ذاتی طور پر ایسے اعترافی بیان کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہیں چنانچہ یہ معاملہ آگے نہ بڑھ پایا۔ تو دوبارہ جناب عمران خان سے روابط و تعلقات میں تعطل کم کرنے کی کوششیں کیں۔ نتیجتاً وہ اپنے بیٹے سمیت ملک واپس آ گئے ، سیاسی خاموشی برقرار رکھی ، سینیٹ انتخابات میں حکومتی امیدواروں کے لئے بھی زیادہ متحرک نہیں ہوئے لیکن ان کی مخالفت میں بھی اپنی توانائی شامل کرنے سے گریزاں رہے۔

عمران خان کے ساتھ اختلافات کا سبب چینی کی قیمتوں میں اضافہ بتایا جاتا ہے۔ یہ تسلیم کرنا غلط نہ ہو گا کہ چینی کے نرخوں میں اچانک اور بے تحاشا اضافے سے انہیں اربوں روپے کا فائدہ ہوا تھا۔ اس عمل میں ان کی تجارتی خواہشات لازماً حصہ دار رہی ہوں گی لیکن چینی کی قیمت بڑھنے کا سبب حکومت کی جانب سے چینی برآمد کرنے کا فیصلہ تھا جس میں برآمد کنندگان (چینی ملز مالکان ) کو سبسڈی دینے کا فیصلہ بھی شامل تھا۔ اس کا امکان ہے کہ دونوں فیصلوں میں جہانگیر ترین کا اثر و رسوخ مؤثر طور پر موجود رہا ہو یا کم از کم وہ اس فیصلے سے قبل از وقت آگاہ ہوں مگر انہوں نے وزیراعظم کو اس فیصلے کے منفی اثرات سے آگاہ کرنا اپنے تجارتی مفاد کے برعکس سمجھا اور یوں چینی کی برآمد اور سبسڈی اور پھر مقامی مارکیٹ میں قلت سے نرخوں میں ہونے والے اضافے سے بھرپور طور پر مستفید ہوئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ تو فری مارکیٹ اکانومی کے معاشی فلسفے کا ناگزیر حصہ ہے جس سے پی ٹی آئی اور وزیراعظم مکمل طور پر متفق ہیں بلکہ اس پر پوری ریاستی مشینری عرصہ سے عمل پیرا ہے تو پھر چینی کی قیمتوں میں اضافہ تو مارکیٹ کے قوانین کا شاخسانہ ہے ، اس میں کسی فرد کی جانب سے قانون شکنی کا تو کوئی سوال نہیں۔

البتہ اس واردات میں حکومت اور فیصلہ ساز افراد کی دانش مندانہ حکمت و بصیرت  سے معذوری و محرومی اور حکومت کی غفلت شعاری جیسا مجرمانہ عمل شامل تھا ۔ حکومت کے شعبۂ احتساب کے انچارج نے جہانگیر ترین پر اب تک جو مقدمات قائم کیے ہیں ان میں چینی کی قیمت میں گزشتہ دو سال سے ہونے والے اضافے کے حوالے سے کوئی فرد جرم بھی عائد نہیں ہوئی۔ گویا سابقہ مقدمات کو ازسرنو فعال کرنے کا واضح مقصد چینی بحران کے اصل اسباب و ذمہ داران کی پردہ پوشی کرنا ہے۔ جناب جہانگیر ترین کا دامن صاف ہے یا نہیں؟ یہ میں نہیں جانتا مگر ان کو قانون کے مطابق انصاف کے عمل سے گزرنے کا مکمل موقع ملنا چاہیے ، اس کی حمایت ضرور کروں گا۔

احتساب کو انتقام پسندی میں بدلنے کا سب سے بڑا نقصان خود بدعنوانی کی وارداتوں کو ملنے والا وہ تحفظ ہے جو انتقام پسندی کی پناہ گاہ سے میسر آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اپنے تئیں جو کچھ کر چکی ہے عوامی اور قانونی حلقوں میں اسے ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے۔ جناب جہانگیر ترین کا یہ کہنا کہ ”وہ تحریک انصاف سے“ انصاف ”چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی پر ایک لطیف طنز ہے جو عہد عمرانی کے احتسابی عمل کی اصلیت کھول کر بیان کرتا ہے۔

انہیں انصاف کے لیے ریاست کے نظام عدل کے متعلقہ اداروں سے انصاف کی امید رکھنی چاہیے تھی؟ کیا وہ ان اداروں کے معیار عدل و کردار سے بھی مایوس ہیں؟ یہ سوال جہانگیرترین کی انصاف کے لیے اپیل کے بعد سنجیدہ مباحثے کا متقاضی ہو گیا ہے لیکن شاید ابھی اس بحث کا مناسب وقت نہیں آیا کیونکہ اب ملک میں عزت بذریعہ طاقت و اتھارٹی کی رسم کہنہ کو قانون کے ذریعے مستحکم بنانے کا موسم طوالت پکڑ رہا ہے۔ صحن چمن میں آزادی فکروخیال کے پھول جب کھلیں گے ، بحٹ کے مواقع روشن ہوں گے ، تب ان موضوعات پر بھرپور مؤثر مباحثہ ہو گا۔ کسی رمزیہ بیان کنایے اشارے کے بغیر اور عوامی لب و لہجے میں۔ تب مباحثہ بامعنی بھی ہو گا اور مؤثر بھی۔

جناب جہانگیر ترین نے گزشتہ ہفتے عشرے میں بہت محتاط انداز میں سیاسی خاموشی توڑی ، ہلکے پھلکے سروں میں حکومتی دربار تک دیپک راگ کی حدت آمیز تان پہنچائی۔ کیا یہ انداز و عمل ان کے ذہن کی اختراع ہے؟ بدگمانی اچھی چیز نہیں پر کیا کریں کہ بنتی نہیں ہے بات بادہ و ساغر کہے بغیر۔

حکومتی کارکردگی صفر جمع صفر ہے ، خارجہ و داخلی امور معیشت، معاشرت، پارلیمانی جمہوریت، روزگار، سیاسی استحکام ہر چیز زوال پذیر ہے۔ عوامی سیاسی اشتعال کی بڑھتی حدت سے موجودہ حکومت کے بانیان و کہانی کار بھی شدید اور براہ راست تنقید کی زد میں ہیں۔ اب تک اگر ایک صفحے کی کہانی دھرائی جا رہی تھی تو شاید یہ ہائی برڈ سسٹم کے منتظمیں کی مجبوری ہو گی۔ وہ کسی اچھی توقع پر اسے رواں دواں رکھنے پر آمادہ رہے ہوں گے یا پھر خلائی نظم حکمرانی کے بندوبست کی ناکامی کا الزام اپنے سر لینے بچنا چاہتے ہوں۔ لہٰذا درپیش صورتحال میں تیل اور تیل کی دھار دیکھنے کی مشق سخن میں مگن رہے ہوں گے لیکن جب پی ڈی ایم کی تحریک فیصلہ کن منطقی نتائج کی جانب بڑھتی اور اپنے مقاصد حاصل کرتی صاف دکھائی دینے لگی تو پھر ہائی برڈ انجینئرنگ کے سرکل میں اپنے بنائے ہوئے سیاسی ماڈل کی جدت کاری کا سوال نمایاں ہوا۔ سب سے پہلے پی ڈی ایم کے اجلاس و دیگر اجتماعات میں جناب نواز شریف کے بیانیہ پر تحفظات کا اظہار کرایا گیا اور حتمی طور پر میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی شرط عائد کرا کے تحریک کی توانائی اور سمت کا رخ بدلوایا دیا گیا۔

سینیٹ میں جناب حفیظ شیخ کی شکست اس کا امر کا ثبوت ہے کہ جناب سنجرانی سینیٹ چیئرمین قابل قبول اور جاری نظم و بست کے تسلسل کا اشارہ ہیں جبکہ جناب گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوانے کا سارا عمل اسی سیاسی ماڈل کی جدت کاری کی عکاسی کرتا ہے۔ چنانچہ یہی وہ وقت تھا جس میں ہائی برڈ نظام کے اندر سے آزمودہ تجربہ کار قابل بھروسا ”برڈ“ کی سیاسی فعالیت کا آغاز ہوتا ہے۔

سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جناب ترین کا اندازتنقید، جارحانہ کیوں نہیں؟ اس کی وجہ سطور بالا میں درج ہے کہ وہ تحریک انصاف سے انصاف کے طلب گار بھی ہیں اور اس کے اندر رہتے ہوئے ممکنہ تبدیلیوں کے متمنی بھی۔ اس تناظر میں تجدید ماڈل کے لیے قابل قبول فرد بھی۔ سادہ الفاظ میں وہ تحریک انصاف کو انصاف پسندی سے عاری جماعت قرار دے کر اگرچہ گہری اندرونی ضرب لگا چکے ہیں۔ جس سے تقسیم کا آغاز ہوا چاہتا ہے چنانچہ اب وہ ہر روز ظہرانے اورعشائیے دے رہے ہیں تاکہ پی ٹی آئی میں اپنے اثر و رسوخ کا بتدریج اظہار کریں۔ اور مطلوب نئے اتحادیوں میں اپنی مرکزی حیثیت منوائیں۔ پی پی اس گیم کی اہم فریق ہو سکتی ہے جو پی ڈی ایم میں مختصر قیام کی وساطت سے اپنے جماعتی و شخصی مفادات سمیٹ چکی ہے ۔ اب اسے پی ڈی ایم کی ضرورت نہیں لیکن وہ شاطرانہ انداز میں علیحدگی چاہتی ہے جس کا الزام نون لیگ اور جے یو آئی پر عائد کرنا سہل ہو۔

حکومت نے بھی جہانگیر ترین کی ٹھہراؤ پن کی جارحیت کی اصلی قوت و ہدف کا ادراک کر لیا ہے اور برطانیہ سے باضابطہ تحریری درخواست کے ذریعے وہاں موجود جہانگیر ترین کے اثاثوں کی تعمیر و خریداری کے ذرائع معلوم کرنے کے لئے تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔ المختصر فریقین بتدریج سیاسی مقابلے کے لئے صف بندی کر رہے ہیں۔ پی پی نے تکنیکی انداز سے پی ڈی ایم سے ناتا توڑ لیا ہے۔

تحریک لبیک نے 12 اپریل کی شام سے اپنے سربراہ کی اچانک گرفتاری کے خلاف ملک کے اہم شہروں میں دھرنے شروع کیے۔ اس بات کا وسیع امکان ہے کہ مذکورہ دھرنے تحریک لبیک کو ری لانچ کرنے کی خلائی کوشش ہو جس سے حکومت کو دباؤ میں رکھنے اور پی ڈی ایم کے بالمقابل ایک مذہبی کارڈ کو متحرک کر کے اس کے احتجاجی رسوخ و ساکھ کو دھندلانا مقصود ہو۔ جہانگیر ترین پی ٹی آئی میں موجود رہتے ہوئے بتدریج اپنی پارلیمانی عددی قوت میں اضافے کرتے رہے تو پیپلز پارٹی، اے این پی، جی ڈی اے، قاف لیگ، باپ اور جماعت اسلامی پر مشتمل نئی مرکزی حکومت قائم ہو سکتی ہے جس کی قیادت بہرطور ہائی برڈ نظام کے خالق ایسے برڈ کے سپرد ہو گی جو قابل بھروسا ہو۔(یہ فریضہ جہانگیر ترین پی ٹی آئی میں رہتے ہوئے انجام دی سکتے ہیں)عمران خان سے زیادہ سیاسی تجربہ و لچکدار رویہ رکھتا ہو اور موجودہ ہائی برڈ سیاسی بندوبست کا حصہ رہا ہو۔

مذکورہ نئی صف بندی ہائی برڈ نظام کے حالیہ تجربے کا دوسرا ورژن ہو سکتا ہے جو 2023ء تک برقرار رہ سکے شاید پارٹ ٹو۔ پارٹ ون کے مقابلے میں کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اس کے خالقین کو ندامت سے بچا سکے البتہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا نیا محولہ ’’برڈ‘‘ پارلیمان میں بہتر تعلقات کار قائم کرنے میں آزاد ہو گا؟

اور کیا وہ آنے والے انتخابات ایسی انتخابی اصلاحات کے ذریعے منعقد کرانے کے لئے اپوزیشن کا اعتماد حاصل کر پائے گا یا اس کا مجاز ہو گا کہ انتخابات میں غیر سیاسی مداخلت کا مکمل سدباب ہو سکے؟ ایسا نہ ہوا تو پی ڈی ایم کی تحریک پہلے سے زیادہ شدت پسند رجحانات کا مظاہرہ کرنے پر مائل ہو گی۔ نئے برڈ کے ذریعے نئی حکومت کو مخدوش تر معاشی صورتحال میں اگلے مالی سال کے لئے متزلزل معیشت اور منفی جی ڈی پی کی موجودگی میں نئے سال کا میزانیہ مرتب کرنے ، اسے منظور کرانے کا ناقابل عبور چیلنج بھی درپیش ہو گا مگر میرے قیاس میں نئی صف بندی کی ہیت و امکانیت کا لٹمس ٹیسٹ اسٹیٹ بینک کی داخلی خودمختاری کے نام پر اسے پاکستان کے دائرہ اختیارات سے نکال کر آئی ایم ایف کے سپرد کرنے کے رواں عمل کی بابت اس کا رجحان ہو گا، جو حالات و ہائی برڈ سیاسی بندوبست کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔

دیکھنا ہو گا کہ صدارتی آرڈیننس یا قانونی ترمیم کا عمل آگے بڑھتا ہے یا یہ قانون ناکامی سے دوچار ہو کے تاریخ کے اوراق میں گم ہوتا ہے؟ اس صورتحال میں بلاشبہ ملک کے لئے نئے معاشی مسائل ابھریں گے کیونکہ پھر آئی ایم ایف سے قرضے ملنے کا امکان باقی نہیں رہے گا تو نو من تیل کے بغیر رادھا کیسے ناچے گی؟

اس قیاس آرائی کے مقابل پی ڈی ایم کی حکمت عملی کیا ہو گی۔ اس کا ردعمل بہرطور ہر ہر سطح پر اثرانداز ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments