وزیراعظم صاحب، مردہ جسموں کے لئے پردے کے متعلق کیا حکم ہے؟


ابھی کچھ دن پہلے وزیراعظم عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بڑھتے ہوئے ریپ کیسز کی وجہ فحاشی ہے۔

یہ بات ہے جون سن 2002 کی ہے جب پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ کے گاؤں میراں والا میں پنچایت کے حکم پر مختاراں مائی نامی ایک عورت کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہاں کے با اثر مستوئی خاندان کو شبہ تھا کہ مختاراں مائی کے بھائی شکور نے ان کی لڑکی کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھے ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے پنچایت نے مختاراں مائی کو طلب کیا گیا اور سب کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنائی گئی۔

پنچایت والوں کا خیال تھا کہ وہ اس ظلم پر خاموش رہے گی، لیکن اس نے ان لوگوں پر مقدمہ درج کرا دیا۔ میڈیا نے مختاراں مائی کا بھرپور ساتھ دیا، جس پر اس وقت سے حکمران جنرل پرویز مشرف جو خود کو اعتدال پسند اور روشن خیال تصور کراتے تھے، نے بڑی ناراضگی کا اظہار کیا۔

بہرحال ڈیرہ غازی خان کی ایک عدالت نے مختاراں مائی کے ساتھ غلط کاری کرنے والے چھ افراد کو سزا سنا دی۔ انصاف ملنے کے بعد مختاراں مائی کی مشکلات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس مقدمے میں سزا پانے والوں کو علاقے کی اہم شخصیات کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔

ایک طرف ہائی کورٹ نے ملزمان کی سزا معطل کر دی تو دوسری طرف حکومت وقت نے مختاراں مائی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا۔ حکمران وقت جنرل پرویز مشرف سے واشنگٹن پوسٹ نے پوچھا کہ آپ کی حکومت ظلم کا شکار ایک مظلوم عورت کی نقل و حرکت پر پابندی کیوں لگارہی ہے؟ تو موصوف نے زناٹے دار جواب رسید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ریپ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ اگر کسی کو ویزہ لینا ہے تو وہ ریپ کرا لے۔ وہ لاکھ پتی بن جائے گا اور اس کو کینیڈا کا ویزہ اور شہریت بھی مل جائے گی۔

اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ کون ملک چھوڑ کر چلا گیا اور کون ٹکا رہا۔

اس قسم کا بیان وہ بھی ملک کے ایک بڑے عہدے پر فائز شخصیت کی جانب سے یقیناً اچنبھے کا باعث ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ریپ سے متعلق بیان پر کافی دنوں سے مختلف لکھاریوں کے تاثرات پڑھے اور سنے۔ ان سب میں ایک بات مشترک تھی کہ سب نے اس بیان کے نتیجے میں تنقید کی توپیں فقط عمران خان پر مرکوز رکھیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے وہی بات کہی ہے جو ملک کی اکثریت سننا چاہتی تھی۔ جہاں پر نہایت عمدگی، مہارت اور چالاکی سے عورتوں کو کھلی مٹھائی سے تشبیہہ دی جائے وہاں اس قسم کے بیانات بلاتذبذب دینے میں کوئی حیرانی والی بات نہیں۔

بڑھتے ہوئے ریپ کا سبب اگر فحاشی ہی ہے تو ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز تقریباً آٹھ سے دس بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ صرف وہ کیسز ہیں جو کسی طریقے سے رپورٹ ہو جاتے ہیں ، اس کے علاوہ نہ جانے کتنے اور کیسز روزانہ کی بنیاد پر ہوتے ہوں گے ۔ تو کہہ لیجیے، مان لیجیے، کہ وہ معصوم بچے فحاشی پھیلا رہے تھے۔

سن 2018 کی ساحل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 6 سے 10 اور 11سے 15 سال کی عمر کے درمیان بچے سب سے زیادہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان بچوں میں اکثریت کا تعلق ملک میں رجسٹرڈ تقریباً تیس ہزار مدارس میں زیرتعلیم بچوں کی ہے۔ کیا ان مدارس میں بھی فحاشی ہے؟ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک کے مدارس فحاشی کا سبب بن رہے ہیں؟

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ گیارہ زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ پچھلے چھ سالوں میں تقریباً بائیس ہزار سے زائد زیادتی کے کیسز درج ہوئے۔ جن میں سے محض 77 مجرموں کو سزا سنائی گئی جو کہ کل تعداد کی محض 0.3 فیصد بنتے ہیں۔

ایک خبر رساں ادارے کے مطابق ملک میں عصمت دری کے کل تعداد میں سے فقط 41 فیصد واقعات رپورٹ ہو پاتے ہیں۔

وزیراعظم کا زیادتی کے متعلق بیان مجرموں کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم کے مطابق عورت کا لباس لوگوں کو زیادتی کرنے پر مجبور کرتا ہے تو اس حساب سے تو چور کو پیسوں سے بھرا ہوا بینک چوری کرنے پر اکساتا ہے۔

وزیراعظم کی سابقہ اہلیہ جمائمہ گولڈسمتھ کا کہنا تھا کہ جس عمران کو میں جانتی ہوں، وہ تو کہتا تھا کہ پردہ مرد کی آنکھوں کا ہوتا ہے نہ کے عورت کا۔

شاید اب یا تو عمران خان کی آنکھیں بدل گئی ہیں یا عورت۔

وزیراعظم کے بیان کے حق میں ملک کے ایک بڑے عالم دین نے بھی بیان جاری کرتے ہوئے لکھا ”‏فحاشی اور بے پردگی کے بارے میں جناب عمران خان نے جو بات کہی ہے ، وہ یقیناً سچ ہے اور پہلی بار کسی وزیراعظم کے منہ سے نکلی ہے جس کی پوری تائید ہر حقیقت پسند کو کرنی چاہیے۔ مغرب کا اس لحاظ سے سڑا ہوا معاشرہ اس پر برا مانے تو مانا کرے لیکن حیرت ان مسلمانوں پر ہے جو اس پر تنقید کر رہے ہیں“ ۔

موصوف سے کوئی پوچھے کہ مدارس میں زیرتعلیم بچوں پر کس نوعیت کا پردہ بنتا ہے؟ ہم تو اخلاق کے اس بلند مقام پر فائز ہیں جو قبروں سے مردوں کو نکال کر ان کی لاشوں کی بے حرمت اور زیادتی کر دیتے ہیں۔ ان مردہ جسموں کے لئے پردے کے متعلق کیا حکم ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments