صحافی اور ذہنی صحت


صحافت ایک بہت وسیع اور پروفیشنل شعبہ ہے جس میں مسلسل خود کو اپ ڈیٹ رکھنا بہت ضروری اور اہم ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے اس شعبے میں مزید تنوع پیدا کر دیا ہے۔ اب سے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے اپنے مخصوص شعبے میں مہارت، نئے ٹرینڈز اور ٹیکنالوجی پر عبور ہونا اہم ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے جہاں صحافیوں کے لئے کئی آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں کئی مشکلات اور چیلنجز بھی پیدا کیے ہیں۔ صحافت میں مطالعہ، ذاتی مشاہدہ اور روزمرہ کے تجربات نہایت اہم ہوتے ہیں۔ مطالعہ اس لئے سب سے زیادہ اہم ہے کہ اس شعبے سے وابستہ افراد نے معاشرے کے ہر طبقے کی رہنمائی کرنا ہوتی ہے۔ لوگوں کو حقائق، نئے ٹرینڈز اور آئیڈیاز کے متعلق ایجوکیٹ کرنا ہوتا ہے۔

صحافی دیگر طبقات کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان کے حقوق کے لئے کوئی مؤثر پلیٹ فارم نہیں ، جہاں اس شعبے سے وابستہ نچلے طبقے کے حقوق کی ضمانت دی جا سکے۔ پاکستان میں میڈیا ورکرز خصوصی طور پر وہ لوگ ہیں جو اسکرین کے پیچھے رہ کر کام کرتے ہیں، ان کے لئے بہت مشکل وقت ہے۔ ان لوگوں کے لیے جہاں بہت سارے مسائل ہیں وہیں سب سے بڑا، اہم اور انتہائی توجہ طلب مسئلہ ذہنی صحت کے حوالے سے ہے۔

جرنلزم ایک بہت Demanding اور چیلنجنگ فیلڈ ہے جہاں ڈیڈ لائن زندگی اور موت کا سوال ہوتی ہے۔ ٹاسک، پروجیکٹ اور فائل کی بروقت تکمیل کے لئے کوئی ورکنگ آورز بھی متعین نہیں۔ ایسی صورتحال میں تناؤ والا ورکنگ ماحول مزید پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔ ایک طرف بروقت تنخواہ نہ ملنا (کئی ماہ کی سیلری نہ ملنا ) ، ڈاؤن سائزنگ کے باعث ہر وقت ایک خوف کی تلوار سر پر لٹکتے رہنا کہ پتہ نہیں کب میری باری آ جائے۔ ٹیکنالوجی سے ناآشنائی اور ٹریننگ و کونسلنگ کی سہولت کا فقدان بھی ذہنی صحت کو مزید خراب کرتا ہے۔

ٹیکنالوجی کا ایک سیلاب آ رہا ہوتا ہے جس میں سے درست اور مستند معلومات کا انتخاب ہی اصل فن ہوتا ہے۔ صحافی ہر طرح کی خبروں، حادثات، مثبت و منفی واقعات اور ہر قسم کے تجزیے سے براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کہ وہ ایک انسان ہے جس کے احساسات، مشاہدات، پس منظر، تعلیم و تربیت، ماحول، رنگ، نسل، مذہب، زبان اور اپنی شخصیت ہے۔ وہ کہیں نہ کہیں سماجی، سیاسی، لسانی اور مذہبی طور پر کسی طبقے سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس کی رائے، پسند نا پسند اور رجحانات ہوتے ہیں۔

کام کا پریشر، اپنے شعبے میں اپ ڈیٹ رہنا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی فیملی لائف کو مینج کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔ اس ساری صورتحال کا عام صحافی کی زندگی، خصوصی طور پر ذہنی صحت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں انہیں ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کرنی چاہیے جو انہیں اس ساری صورتحال سے نمٹنے کے طریقے اور مددگار آلات سے آگاہ کر سکے۔

اس ضمن میں کئی ادارے اپنی مفت اور پروفیشنل بنیادوں پر ”ملازمت کی جگہ پر بہتر ماحول سے متعلق“ ورکشاپس اور کونسلنگ سروسز بھی فراہم کرتے ہیں۔ جہاں پر نیوز روم میں سائیکالوجیکل سیفٹی، آن لائن اینڈ آف لائن سیفٹی، نیوز روم، ذہنی صحت کے حوالے سے حفاظتی تدابیر، ایکسرسائز اور ہدایات کے علاوہ ون آن ون کونسلنگ سیشن فراہم کیے جاتے ہیں۔

ایک عام سروے کے مطابق میڈیا میں کام کرنے والے افراد میں ذہنی صحت کے حوالے سے آگاہی کا فقدان ہے۔ ایک عام ورکر کے لئے ذہنی صحت کتنی اہم ہے ، میڈیا ہاؤسز اور نیوز روم اس بات کو اہمیت نہیں دیتے۔ ذہنی صحت کو متوازن رکھنے کے لئے کولیگز کا کردار اور ورکنگ ریلیشن اور سازگار ماحول بہت ضروری ہے۔

ذہنی تناؤ اور پریشانی کا تعلق کام کی محفوظ جگہ سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ جس کے لئے خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ ہم شاید واقف نہیں کہ ذہنی صحت کی وجہ سے کئی جسمانی شکایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں مائیگرین، کمردرد، تیزابیت، اضطراب، غصہ، نا امیدی اور اپنے کام پر فوکس نہ کر پانا۔ ہم چونکہ انہیں جسمانی بیماری کا نام دے کر وقت اور بعض دفعہ لاعلمی کی وجہ سے نظر انداز کر دیتے ہیں اور بہت آسانی کے ساتھ اس کیفیت کو اپنے آپ کو مصروف رکھ کر چھپا لیتے ہیں۔

ہم دوسروں کو اپنی پریشانی سے پریشان نہیں کرنا چاہتے۔ یہ عوامل کہیں نہ کہیں ہمارے موڈ پر مسلسل اثرانداز ہوتے ہیں جس کا نتیجہ ہمارے کھانے پینے، نیند متاثر ہونے ، کام پر فوکس اور اپنے جذبات پر قابو نہ رکھنے کی صورت میں سامنے آتا ہیں۔ ہم پھر بھی اس سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ کبھی کبھار بے بسی، ناامیدی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ ہمیں خود پر کنٹرول نہیں رہتا۔ عام طور پر خواتین صحافی اس صورتحال سے زیادہ متاثر ہوتی ہے جس کی کئی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔

مرد اس فرسٹریشن کو نشے کے ذریعے وقتی طور پر دور کرنے کی ادھوری کوشش کرتے ہیں یا میڈیسن کا سہارا لیتے ہیں anti depressants جو 3 یا 8 ہفتوں کا کورس ہوتا ہے، لیکن پھر اہم بات میڈیسن ہمیں وقتی طور پر تو Functional کر دیتی ہے لیکن مکمل Cure نہیں کر پاتی۔ جبکہ خواتین دبا کر ”برداشت کرو“ والا فارمولا اپناتی ہیں جو اکثر اوقات ایک لاوے کی طرح اندر ہی اندر پک رہا ہوتا ہے اور جب کبھی برداشت سے باہر ہو جائے تو انتہائی خطرناک ہو جاتا ہے۔

ایسی صورت میں اکثر Low Mood رہتا ہے، انسان تھکاوٹ، بوجھل پن، پھیکا اور اداس رہنا شروع ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلسل اداسی ( اداسی اگر چہرے پر ہو تو شکل بدصورت ہو جاتی ہے، لیکن اگر روح میں ہو تو نسل برباد ہو جاتی ہے۔ وہ اداسی چہروں سے روح میں منتقل ہو جاتی ہے۔ وہ چہرے تو خوبصورت ہوتے ہیں مگر روح اداس ہوتی ہے۔ جب انسان چہرے سے قریب ہو کر روح میں اترتا ہے تو اس اداسی کا اندازہ ہوتا ہے) ، منفی خیالات، یادداشت میں کمی، دباؤ سے انکار کا احساس اور بے چینی بڑھتی جاتی ہے۔ یہ علامات اور کیفیت پرسن ٹو پرسن مختلف ہوتی ہیں۔

کئی دفعہ ایسے لگتا ہے کہ ”بس اب دل نہیں چاہ رہا“ ، اب کسی چیز میں دل نہیں لگتا۔ زندگی بے رونق، بے مقصد اور بے معنی لگنے لگتی ہے۔ Anxiety اتنی بڑھ جاتی ہے کہ یہ خیال مسلسل تنگ کرتا ہے۔ اب کیا ہو گا، کیسے ہو گا، ذہن ہر وقت منفی خیالات سوچتا رہتا ہے۔ خوف، وہم (وہم کی بیماری کا تو علاج ہے، وہم کا نہیں ) اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ انسان زندگی سے تھک جاتا ہے۔

اب آپ خود اندازہ کریں کہ ایسی صورتحال میں بہترین اور تخلیقی آئیڈیاز کیسے آئیں گے؟ اب ایسی صورتحال سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے؟ اس کے لئے کسی ماہر، تجربہ کار اور پروفیشنل کی خدمات حاصل کریں۔ کوشش کریں کہ اپنا لائف اسٹائل تبدیل کریں۔ دوسروں کی مدد، رہنمائی اور تعاون حاصل کریں۔ اپنی زندگی میں نئی چیزیں سیکھیں، اپنی ذات کاSystematic Diagnose کریں۔ تنہائی میں وقت گزاریں، قدرت اور نیچر کے قریب ہوں۔ اپنی لائف کو انجوائے کرنے کے لئے نئی سرگرمیاں، ذرائع اور سہولیات تلاش کریں۔

یاد رکھیں! ہم سب انسان ہیں۔ ہماری جسمانی صحت کی طرح ذہنی صحت کو مسلسل رہنمائی، نئی سوچ، تازہ ہوا، پازیٹیو انرجی اور عمدہ آکسیجن کی اشد ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے لازم ہے کہ اپنی زندگی کے مقصد کو بہتر طور پر جانیے، اپنی اور دوسروں کی زندگی میں ویلیو ایڈ کرتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments