جیسی لگی تھی دل میں آگ ویسی غزل بنی نہیں


ڈسکہ میں جیتنے والے اور ہارنے والے دونوں خوش ہیں۔ جیتنے والے ہارنے والوں کے گھر مٹھائی بھجوانے کو تیار ہیں اور ہارنے والے خوشدلی سے اس کے منتظر۔ پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی پہلی مرتبہ نہیں ہارے۔ ان کے ہاں ہارنے کی ایک لمبی کہانی ہے۔ موصوف 2008 میں ہارے، 2013 میں ہارے، 2018 میں ہارے۔ فروری 2021 میں ہارے، پھر اپریل 2021 میں بھی۔ اس مرتبہ وہ ہار کو باعزت سمجھتے ہیں۔ علم سیاسیات کا کوئی طالب علم اس پر ریسرچ کرے کہ آخر تحریک انصاف کو ہر بار انہیں ہی ٹکٹ دینے کی کیا مجبوری ہے؟

اس پر تحریک انصاف کا ایک دل جلا بولا۔ اس ریسرچ کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ ہم غلطیاں بھی اتنی سوچ بچار کے بعد کرتے ہیں تاکہ مزید غلطی کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ ڈسکہ میں ایک پیر جی رہتے ہیں۔ ان کی اللہ کے ہاں کتنی پہنچ اور اثر رسوخ ہے، ہم نہیں جانتے۔ سنا ہے ان کا دستر خوان گجرات کے چوہدریوں کو بھی مات کر رہا ہے۔ یہاں ہر خاص و عام کو کھانے پینے کی دعوت عام ہے۔ کوئی آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں۔ ان کے بیٹے عثمان عابد نے 2018ء میں اسی حلقہ سے بطور آزاد امیدوار 57571 ووٹ لئے تھے۔

یہ ووٹ تحریک انصاف کے امیدوار سے صرف 3861 کم تھے۔ یہ پیرزادہ 2018ء کے الیکشن میں بھی تحریک انصاف کے ٹکٹ کا خواہش مند تھا لیکن اسے انکار کر دیا گیا۔ اب یہ باقاعدہ تحریک انصاف میں شامل ہو چکا ہے۔ اب علی اسجد ملہی کی ”باعزت شکست“ میں کار سرکار کے علاوہ اس پیر زادے کا اثر رسوخ اور تگ و دو بھی شامل ہے۔ اب تک یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت ٹکٹوں کے معاملے میں من مرضی کرتی ہے۔ لیکن علی اسجد ملہی کے معاملے میں یوں نظر آتا ہے جیسے تحریک انصاف کے ٹکٹوں کے معاملہ میں ویٹو پاور کسی اور کے پاس ہے۔

جمہوریت کی یہ ایک نئی قسم سامنے آئی ہے۔ ایوب دور میں بھٹو بطور وزیر خارجہ پنجاب یونیورسٹی میں کشمیر پر ایک مجلس مذاکرہ میں خطاب کرنے پہنچے۔ برطانیہ میں مقیم معروف ادیب طارق علی لکھتے ہیں۔ ”میں نے ان سے پوچھا۔ آپ مقبوضہ کشمیر میں جمہوری ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں جبکہ ہم پاکستان میں بھی جمہوری ریفرنڈم چاہتے ہیں۔ کوئی کشمیر کے بارے میں آپ کی بات سنجیدگی سے کیسے لے سکتا ہے جبکہ ہمارے ہاں بھی جمہوریت نہیں“ ۔

ووٹوں کی طاقت سے قائم ہونے والے اس ملک میں جمہوریت ہمیشہ ایک مسئلہ رہی۔ ہم ایوبی بنیادی جمہوریت سے لے کر جنرل ضیائی اسلامی جمہوریت تک بھگتتے ہوئے مشرف کی حقیقی جمہوریت پھلانگ کر ایک عجیب الخلقت جمہوریت کے سامنے کھڑے ہیں۔ ڈسکہ میں قومی اسمبلی کے اس حلقہ میں ووٹروں کی کل تعداد 4,94,000 ہے۔ ان میں سے صرف 2,14,063 افراد نے ووٹ ڈالا۔ اس حلقہ کے 2,79,000 ووٹروں نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس حلقہ کے 47 فیصد ووٹر اس الیکشن کو جمہوری تماشا یا ڈھونگ سمجھتے ہوئے اس سے دور رہے۔ یعنی اکثریت اس جمہوریت سے لاتعلق ہے۔

ڈسکہ سے بیک وقت ایک اچھی اور بری خبر بھی آئی ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں تحریک لبیک کے ارسلان ظفر نے 14772 ووٹ لئے تھے۔ 2021ء کے الیکشن میں محمد خلیل سندھو تحریک لبیک کے امیدوار تھے۔ انہوں نے 8268 ووٹ حاصل کیے ۔ یہ اچھی خبر سہی کہ تحریک لبیک کے ووٹ کم ہوئے ہیں۔ لیکن کیا یہ بھی اچھی خبر ہے؟ ان کے امیر سعد رضوی کی ایک مقدمہ میں گرفتاری پر انہوں نے پورا ملک سیل کر دیا۔ حالانکہ سعد رضوی کی گرفتاری تحریک لبیک کے دوسرے دھڑے کے مولانا کی جانب سے درج کروائی گئی ایک ایف آئی آر پر کی گئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ ان کا آپس میں لاہور کے قریب مدرسہ کے لیے خریدی گئی 200 ایکڑ زمین کا تنازعہ ہے۔ سعد رضوی کو ان کے والد امیر تحریک لبیک مولانا خادم رضوی کی وفات پر امیر مقرر کیا گیا۔ سعد رضوی اس وقت اپنے والد کے مدرسہ ابوذر غفاری میں درس نظامی کے آخری سال کے طالب علم ہیں۔ سعد رضوی کی گرفتاری پر ملک بھر میں برپا ہنگامے میں 2 پولیس اہلکار شہید اور 97 زخمی ہوئے۔ ان زخمیوں میں 2 ڈی ایس پی، 5 انسپکٹر اور 6 سب انسپکٹرز شامل ہیں۔

جمہوریت پر ایمان رکھنے والوں کو یہ سوال پریشان کر رہا ہے کہ کیا اتنی سٹریٹ پاور ملک کی اہم تینوں سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں سے کسی اور کے پاس بھی ہے؟ پھر اس امیر تحریک لبیک کے مزاج کا اندازہ لگائیں، جسے نوعمری میں اپنے باپ کے ترکہ سے اتنی طاقتور جماعت کی امارت میسر آ گئی ہے۔ جبکہ ابھی اس کا درس نظامی بھی مکمل نہیں ہوا۔ پھر ہماری تاریخ بھی بڑی ”شاندار“ ہے۔ جب پروفیسر علم دین سالک نے اپنی تاریخ کو ”قصاب کی دکان“ قرار دیا تھا تو اس نے کیا خوبصورتی سے کسی قانون قاعدے سے ماورا مسلمان بادشاہوں کی تاریخ بیان کی تھی۔

ہماری سیاست بھی ہر قسم کے اصول، قانون، ضابطوں سے ماورا ہے۔ 2017 میں وفاقی دارالحکومت فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک کے دھرنے پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کو سپریم کورٹ نے 2019ء میں نمٹاتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جینس ایجنسیوں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت جاری کی تھی کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی پھیلانے اور ان کی وکالت کرنے والوں کی نشاندہی کریں۔

مزے کی بات ہے کہ اس فیصلے کے خلاف تحریک لبیک والوں نے اپیل تک نہیں کی۔ حکومت سمیت سبھی ادارے اپیل میں گئے۔ آج تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے والوں کا اس وقت یہ موقف نہیں تھا۔ شیخ رشید سمیت سبھی تحریک لبیک والوں کے ساتھ تھے۔ اگرچہ یہ ہماری سیاسی روایت نہیں لیکن ہماری آج کی اپوزیشن نے تحریک لبیک کی حمایت نہ کر کے صرف حب الوطنی کا ثبوت ہی نہیں دیا، سیاست میں ایک اچھی روایت کا آغاز بھی کیا ہے۔ اسی پر کالم تمام کرتا ہوں۔ لیکن۔

جیسی لگی تھی دل میں آگ ویسی غزل بنی نہیں

لفظ ٹھہر نہیں سکے درد کی تیز دھار میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments