اولڈ راوینز یونین الیکشن: کیا گورنر پنجاب لاعلم تھے؟ (مکمل کالم)


تنزلیوں کے سفر میں تعلیمی بربادیوں کا بہت دکھ ہے اور گورنمنٹ کالج لاہور کا دکھ تو نوحہ گری پر مجبور کر دیتا ہے۔ 1864ء میں بننے والے اس کالج سے برصغیر کے عظیم لوگوں کی یادیں وابستہ ہیں۔ ابتدائی دنوں میں یہ کالج حویلی دھیان سنگھ میں قائم ہوا پھر انار کلی کے ایک بنگلے سے ہوتا ہوا حالیہ عمارت میں پہنچ گیا۔ اس کے پہلے انگریز پرنسپل ڈاکٹر جی ڈبلیو لیٹنر تھے جو کنگز کالج لندن میں عربی اور اسلامی قانون پڑھاتے تھے۔

انگریز پرنسپلز کے عہد کے بعد پہلے ہندوستانی پرنسپل کا نام پروفیسر جی ڈی سوندھی تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے پڑھنے والے اس کے میناروں سے عشق کرتے تھے اور بقول اشفاق احمد۔ ”یہ درس گاہ نہیں بلکہ درگاہ ہے۔“ مینار، اوول، بخاری آڈیٹوریم، اوپن ائر تھیٹر، لو گارڈن حتیٰ کہ سیڑھیاں سب کچھ رومانوی ہے۔ اس ماحول میں کبھی اقبالؒ اور فیضؔ کے اشعار گونجتے ہیں کبھی ساحر لدھیانوی اور ناصر کاظمی کی شاعری، کبھی کشور ناہید کا جاگتا لہجہ اور کبھی صوفی تبسم کی نظمیں یاد آتی ہیں۔ کبھی اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی جوڑی تو کبھی محمد حسین آزاد اور قدرت اللہ شہاب یاد آ جاتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے راوینز وزرائے اعظم اندر کمار گجرال، ظفر اللہ جمالی، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی، تو کبھی نوبل انعام پانے والے ڈاکٹر ہرگوبند کھرانہ اور ڈاکٹر عبدالسلام یاد آتے ہیں۔ کالج میں پھرتے پھرتے کبھی ڈاکٹر ثمر مبارک مند، کبھی جنرل راحیل شریف، کبھی مولانا طارق جمیل اور کبھی دیو آنند جیسا اداکار یاد آ جاتا ہے۔ وکالت سے وابستہ ایس ایم ظفر، اعتزاز احسن، کئی اور وکلا بہت سے ججز، کئی چیف جسٹس یاد آ جاتے ہیں۔ سر گنگا رام کی سماجی خدمات یاد آ جاتی ہیں۔

زندگی کے ہر شعبہ میں بے شمار نامور شخصیات پیدا کرنے والے گورنمنٹ کالج لاہور میں پطرس بخاری، ڈاکٹر سید نذیر احمد اور پروفیسر اشفاق علی خان جیسے لوگ پرنسپل رہے۔ شاندار روایات کے حامل اس کالج میں مشاعروں، تقریروں، میوزک اور ادبی مجالس سے بھرا ہوا ماحول ملتا ہے۔ میوزیکل چیئر اور چاٹی ریس سمیت سب کھیل ملتے ہیں۔ ہر شعبے کا الگ میگزین، پندرہ روزہ کالج گزٹ اور سالانہ مجلہ ”راوی“ اسے اور نمایاں بناتا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی عظم روایات کو قائم کرنے میں ذہین ترین طالب علموں کے علاوہ عظیم ترین اساتذہ اور پرنسپلز کا ہاتھ ہے۔ ان سب کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔

اس سلسلے میں ایک واقعہ رقم کر رہا ہوں۔ ایوب خان کے آمرانہ دور میں سخت گیر گورنر ملک امیر محمد خان نے داخلے کے لئے ایک غیر مستحق طالب علم کی سفارش کی۔ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سید نذیر احمد نے سفارش کو میرٹ کے روبرو پرکھا اور پھر سفارش کو نظرانداز کر دیا۔ انہیں سزا کے طور پر ٹرانسفر کیا گیا تو کالج کے طالب علم سڑکوں پر آ گئے۔ وہ نعرے لگاتے کہ ”ہمارا باپ واپس لاؤ۔“ آمرانہ حکومت کو اپنی سخت گیری سمیت گھٹنے ٹیکنے پڑے، ڈاکٹر نذیر احمد کا تبادلہ دوبارہ گورنمنٹ کالج کر دیا گیا، اس مرحلے پر طالب علموں نے والہانہ محبت دکھائی، وہ ڈاکٹر نذیر احمد کو کندھوں پر بٹھا کر واپس لائے مگر آج کے عہد میں محبت کا یہ عالم کہاں؟

صدی بدلی تو حالات بدلے، حکومت نے 2002 ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر نام ہی بدل دیا، تمام راوینز کے دل دکھی ہو گئے کہ ان کی مادر علمی کا نام گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کر دیا گیا۔ راوینز اب بھی اس کا نام گورنمنٹ کالج لاہور ہی چاہتے ہیں۔

اب خیر سے بات پرنسپلز سے وائس چانسلرز پر آ گئی ہے۔ پہلے وی سی ڈاکٹر خالد آفتاب نیب کے مقدمات بھگت رہے ہیں، اب جو ڈاکٹر اصغر زیدی ہیں ان کے لچھن بھی اسی طرز کے ہیں۔ انہوں نے تین چار پروفیسرز کا ایک گروہ بنا رکھا ہے۔ یہ وی سی باقی اساتذہ کو آمرانہ انداز میں جھڑکتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن ایک انکوائری بھی کر رہا ہے۔

جی سی یو کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے سربراہ ڈاکٹر سید اسد رضا کاظمی نے گورنر پنجاب کو درخواست دی تھی کہ انہیں وائس چانسلر ڈاکٹر زیدی نے نہ صرف ہراساں کیا بلکہ دھمکیاں بھی دیں۔ آئندہ چند دنوں میں گورنر پنجاب کو ایک اور انکوائری کھلوانا پڑے گی ورنہ ان کی اپنی انکوائری کھل جائے گی۔ ایسا کیوں ہو گا، ذرا پڑھ لیجیے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم پانے والے اپنا تعلق مادر علمی سے جوڑ کے رکھتے ہیں، اس مقصد کے لئے انہوں نے ”اولڈ راوینز یونین“ بنا رکھی ہے۔

اس مرتبہ چودہ فروری کو ویلنٹائن ڈے پر الیکشن ہوئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی ملی بھگت سے سپیشل برانچ کے ذریعے کام دکھایا گیا، ایک ڈاکٹری نسخہ بھی کام آیا۔ جن کو ووٹ پڑے وہ ہار گئے یعنی دھونس اور دھاندلی کے باعث یہ ”ڈسکہ الیکشن“ بن گیا۔ ہارنے والے رانا اسد اللہ، ساجد گورایہ اور اسد گوندل ثبوتوں سمیت درخواست لے کر چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) احمد فاروق شیخ کے پاس حاضر ہوئے، معاشرے کو انصاف فراہم کرنے والے راوین جسٹس نے کچھ ثبوت ایک اور راوین چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب محبوب قادر شاہ سے منگوا لیے۔

پہلی سماعت پر ہی جسٹس احمد فاروق شیخ نے نتائج روک دیے۔ ساتھ ہی سٹے آرڈر جاری کیا کہ جب تک کوئی فیصلہ نہ ہو جائے اس وقت تک حلف برداری نہیں ہوگی۔ چیف الیکشن کمشنر کے اس حکم پر وی سی ڈاکٹر اصغر زیدی کو ”پسو“ پڑ گئے۔ بہانے بازیاں شروع کردیں اور اسی دوران ایک دن آئی جی پنجاب کو بلوا کر حلف برداری کروانے کی کوشش کی۔ آئی جی چونکہ خود راوین ہیں، انہیں اس معاملے کا علم تھا لہٰذا یہ حلف برداری نہ ہو سکی۔ ایک دن وی سی کو چیف الیکشن کمشنر پر غصہ آیا تو انہوں نے خط لکھ مارا کہ بس آپ یہ سب کچھ مجھ پر چھوڑ دیں۔

ایک راوین چیف الیکشن کمشنر اپنی اعلیٰ روایات کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے۔ پھر وی سی نے رجسٹرار کے ذریعے ایک خط لکھوایا کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب آپ کالج کی حدود میں نہ آئیں۔ بارہ اپریل پیر کے دن چیف الیکشن کمشنر نے فیصلہ سنانا تھا کہ گیارہ اپریل اتوار کے دن پتہ نہیں کس کس کی منتیں کی گئیں کہ گورنر ہاؤس میں حلف برداری کی تقریب رکھ دی گئی۔ وائس چانسلر نے گورنر پنجاب کو اندھیرے میں رکھا اور ان سے ایک غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کروا لیا۔

اس غیر قانونی حلف برداری کے اگلے روز جسٹس احمد فاروق شیخ کی جانب سے فیصلہ آیا، جس میں انہوں نے اولڈ راوینز یونین کے الیکشن کو کالعدم قرار دے کر نئے انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ انہوں نے اولڈ راوینز یونین کے آئین میں کی گئی خود ساختہ ترامیم کو بھی غیر قانونی قرار دیا، سابق صدر میاں اشفاق موہلن بھی ان ترامیم سے انکاری ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر اصغر زیدی گورنمنٹ کالج کے معیار پر پورا ہی نہیں اترتے اور نہ ہی موصوف وی سی بنائے جانے کے قابل ہیں۔ اس فیصلے کے بعد جی سی یو کے وی سی گورنر پنجاب کا نام لے کر چیف الیکشن کمشنر کو دھمکا رہے ہیں۔

گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سے ہماری اچھی ملاقاتیں ہیں بلکہ وہ مجھے اور سہیل وڑائچ دونوں کو استاد قرار دیتے ہیں، میری بطور راوین ان سے گزارش ہے کہ آپ چانسلر ہیں آپ گورنمنٹ کالج لاہور جیسی عظیم درس گاہ پر احسان کریں اور تبدیلی سرکار کا یہ تحفہ یعنی ڈاکٹر اصغر زیدی واپس لے جائیں، اس شخص کو نہ تو گورنمنٹ کالج کی اعلیٰ روایات کا پاس ہے، نہ ہی راوینز کا احساس ہے، اور نہ ہی آپ کی عزت کا پاس ہے، کیونکہ آپ کو اندھیرے میں رکھ کر آپ سے جھوٹ بولا گیا ہے، کہیں ہائی کورٹ اس جھوٹ پر سب کو طلب ہی نہ کر لے۔ میرے راوین دوست ارشد اولکھ گورنمنٹ کالج لاہور کا نام اور روایات واپس چاہتے ہیں، تمام راوینز کی یہی آرزو ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ راوینز کو عظیم راوین اقبالؒ کا شعر یاد آ جائے۔

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments