کرکٹ کھلاڑی اور انگلی


جب عمران خان ماضی میں اپوزیشن میں تھے اور حکومت کے خلاف جلاؤ گھیراؤ اور دھرنا دے رہے تھے تو اس وقت عمران خان اپنے اکثر تقاریر میں امپائر اور اس کی انگلی کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ اپنے ہر تقریر میں ذکر کرتے تھے کہ جب امپائر کی انگلی اٹھی گی تو حکومت گر جائے گی۔ بہت سے لوگ حیران تھے کہ یہ امپائر کون ہے اور کس کی انگلی کی بات کر رہے ہیں صحافی بھی امپائر اور انگلی کے حوالے سے سوالات کرتے تھے۔ لیکن عمران خان جب حکومت میں آئے تو امپائر کے بارے میں جو نہیں بھی جانتے تھے وہ بھی جاننے لگ گئے۔

لوگ جرنل اور جنرل الیکشن کے فرق کو بھی جان گئے۔ عمران خان ماضی میں جو کرکٹ کھیلتے رہے ہیں وہ اس کرکٹ سے مختلف جو اب سیاست کے میدان میں کھیل رہے ہیں۔ اس کرکٹ میں قواعد و ضوابط بھی مختلف ہے۔ کرکٹ کی طرح اس میں دو ٹیموں کے بجائے کئی ٹیمیں کھیل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ یہی نہیں کپتان کو اپنی ٹیم کی سلیکشن کا بھی اختیار نہیں کپتان کو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کب اس کا کھلاڑی امپائر سے مل جائے کب اس کا کھلاڑی محالف ٹیم کے ساتھ مل جائے۔

ہمارے ملک میں اس کھیل میں سب سے مضبوط امپائر ہوتا ہے اور اس کو مضبوط بنانے والے تحفظ دینے اور اس کے لیے قوانین بنانے والے کوئی اور نہیں یہ کھلاڑی ہی ہوتے ہیں امپائر کو اختیار ہوتا ہے کہ دونوں ٹیموں کے کون کون سے کھلاڑی کھلیں گے۔ امپائر کو یہ اختیار ہوتا ہے کون بولنگ کرے گا کون بولنگ نہیں کرے گا امپائر کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ فیلڈنگ کیسے کھڑی کرنی ہے۔ امپائر کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ کس نے کس پوزیشن پر بیٹنگ کرنی ہے۔

اگر امپائر چاہے تو آؤٹ دے اور اگر چاہتے تو آؤٹ نہ دے اور اگر امپائر دونوں ٹیموں کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہو تو وہ کوئی اور ٹیم بھی میدان میں اتار سکتی ہے یا کسی بھی ٹیم کے کھلاڑی تھوڑ کر نئی ٹیم بھی بنا سکتے ہیں۔ حکومتی ٹیم ہو یا اپوزیشن کی ٹیم ہو امپائر اپنے کھلاڑیوں کو اگے لاتا ہے موجودہ سینٹ میں ہونے والے میچ میں امپائر کی کار کردگی سب کے سامنے تھی۔ سینٹ میں حکومتی ٹیم کی ساتھ اپوزیشن ٹیم بھی اپنی مرضی کے لائے۔

بعض دفعہ تو کئی کئی ٹیموں کے کھلاڑی تھوڑ کر ایک نئی ٹیم وجود میں لائی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ امپائر کا جب دل کرتا ہے کھلاڑیوں کو سائیڈ پر کر کے خود کھیلنا شروع ہو جاتے ہیں خود ہی کھلاڑی اور خود ہے امپائر پاکستان کے سیاست کے کھیل میں جتنا وقت سیاست کے کھلاڑی کھیلتے رہے ہیں اتنا ہی وقت کم و بیش امپائر بھی سیاست کے کھلاڑی بن کر کھیل سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں یہ الگ بات ہے اس سے کھیل، میدان اور کھلاڑیوں کا تقدس پامال ہوا۔

لیکن ان کے بقول انہوں نے یہ کھیل سیاست کے بقا کے لئے کھیلا۔ امپائر کسی بھی ٹیم کی کپتان کو کسی بھی وقت ہٹا سکتا ہے بلکہ امپائر تماشائیوں سے حاصل کیے گئے ٹکٹ کی رقم کا ایک بڑا حصہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ تماشائی بھی مجبور ہیں کہ وہ امپائر کے قواعد و ضوابط کا احترام کرے۔ تماشائیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے کمنٹیٹرز کا استعمال کیا جاتا ہے جو تماشائیوں کے ذہن اور دماغ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ کمنٹیٹرز کھلاڑیوں کو برا اور امپائر کے حمایت میں بولتے چلے جاتے ہیں بالکل وہی کچھ کر رہے ہیں جو آج کل ہمارا میڈیا کر رہا ہے کس کو اچھا کہنا ہے کس کو برا کہنا ہے عوام کے ذہن میں کیا بات بٹھانی ہے۔

اس کے علاوہ چونکہ تھرڈ امپائر کا قانون بھی موجود ہے اگر کھلاڑی امپائر کے کسی بات سے متفق نہ ہو تو وہ تھرڈ امپائر کی طرف رجوع کرتا ہے اور تھرڈ امپائر فیصلہ کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں تھرڈ امپائر بعض مجبوریوں کی وجہ سے وہی فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو فیصلہ امپائر نے کیا ہوا۔ بعض دفعہ تو تھرڈ امپائر کو واٹس اپ پر ہی فیصلہ مل جاتا ہے وہ صرف پڑھ کر سناتا ہے۔ اس کھیل میں تماشائیوں کو کھلاڑیوں اور کسی بھی ٹیم پر جملے کسنے اور ان کے خلاف نعرہ بازی کی کھلی اجازت ہے بلکہ بعض دفعہ تو امپائر ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ تماشائی کھلاڑیوں اور ٹیم کے خلاف غصے میں آئیں۔

یہی نہیں بلکہ تماشائیوں میں امپائر کے کچھ اپنے چہیتے بھی ہوتے ہیں جو امپائر کا اشارہ ملتے ہی گراؤنڈ میں آ جاتے ہیں تھوڑ پوڑ کرتے ہیں اور کھلاڑیوں کو ہراساں کرتے ہے۔ اور جب امپائر کا اپنا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو اپنے لاڈلے تماشائیوں کو سزا دے کر عوام کے نظروں میں اچھا بن جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اب تماشائی اس کھیل کی یکسانیت سے اکتانے لگے ہیں۔ تماشائی اور کچھ پرانے کھلاڑی کھیل کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

وہ امپائر کے بجائے کھلاڑیوں اور ٹیموں کے اختیارات میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تماشائی بھی اس وقت کئی گروپوں میں تقسیم دکھائی دیتے ہیں کچھ تماشائی ابھی بھی امپائر کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں جبکہ کچھ تماشائی کھلاڑیوں اور ٹیموں کے سپورٹ میں امپائر کے بے انتہا اختیارات سے خوش نہیں جبکہ ایسے تماشائی بھی ہیں جو کسی ٹیم یا کھلاڑی کے سپورٹ کے بغیر کھیل کے فروغ اور بہتری کے لیے امپائر کے اختیارات کے مخالفت کر رہے ہیں۔

امپائر بھی تماشائیوں کے اس مطالبات سے خوش نہیں۔ اور اس طرح کی مطالبات کا راستہ روکنے کے لئے اپنے کچھ لاڈلے کھلاڑیوں سے نئے قوانین سازی کے لیے راستہ ہموار کر رہے ہیں تا کہ تماشائی امپائر کے کسی فیصلے کو چیلنج نہ کر سکے۔ سیاسی معاملات کو طاقت کے بل پر حل کرنے کی کوشش نے ہمیشہ ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ بزور طاقت مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ اپ خوف کی بنیاد پر کسی بھی رشتے کو دیر تک قائم نہیں رکھ سکتے۔

اپ خوف کی وجہ سے لوگوں کو ڈرا تو سکتے ہیں اپنے ہمنوا نہیں بنا سکتے۔ ڈر اس بات کا ہے کہ یہ مطالبات اور آوازیں اس حد تک نہ چلی جائی کہ ترکی کے سڑکوں پر کھیلا جانے والا میچ کی نوبت یہاں تک نہ آ جائے۔ ہمیں اپنے ملک گراؤنڈ، کھلاڑی، تماشائیوں اور امپائر سب سے محبت ہے اور چاہتے ہیں سب اپنے اختیارات اور حدود و قیود سے تجاوز نہ کرے۔ ہمیں خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے۔ ہمیں اپنے ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا اس سے پہلے کی دیر ہو جائے۔ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا پڑے گا۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ ایسا کوئی اور سانحہ پھر ہمارا در نہ کھٹکھٹائے۔ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے نہیں ان کے ازالے سے قومیں آگے بڑھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments